0
Sunday 24 Sep 2017 11:23

کربلائے برما۔۔۔۔ مذہبی عصبیت کا خوفناک چہرہ(1)

کربلائے برما۔۔۔۔ مذہبی عصبیت کا خوفناک چہرہ(1)
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gmail.com

ہر چند کہ ظالم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر تاریخِ انسانیت میں جس قدر ظلم مذہب کے نام پر ہوا ہے، شاید ہی کسی اور نام پر انتا ظلم ہوا ہو۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، اس کے پیچھے بھی یہی مذہبی عصبیت کار فرما ہے۔ مذہبی عصبیت کا جو کریہہ چہرہ برما میں ظاہر ہوا، اس کو دیکھنے کی تاب لانا کسی بھی صاحبِ دل انسان کے لئے محال ہے۔ ظلم کے متحرک اور غیر متحرک مناظر نے شوشل میڈیا کو آج کل ماتم کدہ بنا دیا ہے۔ کسی بھی شوشل سائٹ کو کھولتے ہی ایک ناظر محسوس کرتا ہے کہ وہ راکھشسوں کی ایسی کالی دنیا میں جا پہنچا ہے کہ جہاں ہزاروں آدم خور راکھشش چند ایک اولادِ آدم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ایذا رسانیوں کے ایسے حربے استعمال کر رہے ہیں کہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ میانمار میں جبر و تشدد کی ایک ناقابلِ بیان داستان ہے، جو ان انسان نما درندوں کے ہاتھوں رقم ہو رہی ہے۔ برما میں روہنگیائی مسلمان سالہا سال سے گوناگوں مظالم جھیل رہے ہیں۔ روہنگیا مسلمان مجبور و مقہور ترین اقوام میں سے ایک قوم ہے کہ جو مدتِ مدید سے موت سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عرصہ دراز سے برما کی ایک ریاست رخائن میں بود و باش کے باوجود انہیں ابھی تک شہری حقوق کیا، بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ یہ کم نصیب حکومتی عتاب کا ہمیشہ ہی ایک نرم ہدف (soft target) رہے ہیں، وقتاً فوقتاً اکثریتی طبقہ نے انہیں نسلی اور مذہبی عصبیت کی بنیاد پر ظلم و جور کا شکار بنایا۔ چنانچہ 1962ء میں ان کے نام فارن کارڈ اجرا کرکے انہیں یہ احساس دلایا گیا کہ وہ سالہا سال سے برما کی سرزمین پر رہتے ہوئے بھی غریب الوطن ہیں۔ 1982ء میں غیر ملکی قرار دے کر روہنگیائی مسلمانوں کو تمام تر شہری حقوق سے مکمل طور پر بے دخل کیا گیا۔ وہ تعلیم تجارت اور صحتِ عامہ جیسی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ وہ آزادانہ طور پر گھوم پھر نہیں سکتے۔ الغرض بودھ اکثریت انہیں حیوانوں سے بدتر سمجھتی ہے۔

حالیہ چند برسوں میں ان مظلوموں کے خلاف سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جاری عتاب میں انتہائی شدت دیکھنے کو ملی ہے۔ شوشل میڈیا پر جو دردناک اور دلدوز مناظر دکھائے جا رہے ہیں، ان کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ بستیوں کی بستیاں آگ میں بھسم ہو رہی ہیں۔ شیرخوار بچوں کی سر بریدہ لاشیں کہیں پانی میں تیر رہی ہیں تو کہیں مارے گئے بچوں کے نرم و نازک ابدان کچھ اس انداز میں دیوار پر لٹکا دیئے گئے ہیں کہ جیسے پھٹے پرانے اور گیلے کپڑوں کے پارچے دھوپ میں سکھانے کے لئے رکھے گئے ہوں۔ خواتین کی عصمت و عفت کو نہ صرف تار تار کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں موت کے گھاٹ اتار کر لاشوں کے ساتھ بھی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ انسانی اعضاء چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں۔ ایک ویڈیو میں صاف طور پر دکھایا گیا ہے کہ بہت سی انسانی لاشوں کو سیکڑوں گدھ ایک ساتھ نوچ رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بدھ بکھشووں کی ایک بڑی تعداد ان لاشوں کے اردگرد نظر آرہی ہے اور ان لاشوں کے اعضاء کے قطع برید میں مصروف ہیں، تاکہ گدھ ان قطع شدہ انسانی اعضاء کو بآسانی ہڑپ کر سکیں۔ یہ سب کسی ایسی جگہ ہو رہا ہے، جہاں دنیا کو اہنسا یعنی عدم تشدد کا درس دینے والے ماتما بدھ کے بہت سے بت نسب کئے ہوئے ہیں۔ زندہ انسانوں کے اعضاء کچھ اس بے پروائی سے کاٹے جاتے ہیں کہ جیسے کسی درخت کی شاخ تراشی کی جا رہی ہو۔ بودھ دہشت گردوں کی مار دھاڑ سے جان بجا کر بھاگنے والوں کی دہشت زدہ آنکھوں میں ایسے خوف ناک مناظر موجود ہیں کہ جنہیں دیکھنے کے لئے چشمِ بصیرت کے ساتھ ساتھ آہنی کلیجہ بھی چاہیے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہجرت کرنے والوں میں سے ہر فرد کے پاس ایک داستانِ الم ہے، جسے وہ من و عن بیان کرنے سے قاصر ہے۔

لندن سے شایع ہونے والے اخبار دی انڈیپنڈنٹ (The Independent) نے انہی مظلوموں میں سے ایک مظلوم کی درد بھری روداد کچھ یوں نقل کی ہے: ’’عبدالرحمان نامی اس روہنگیائی مسلمان کا کہنا ہے کہ چٹ پئین (Chut Pyin) گاؤں میں بہت سے روہنگیائی مسلمانوں کو بانس سے بنی کٹیا میں بند کر دیا گیا اور پھر اسے آگ لگائی گئی۔ میرے بھائی کو دوسرے افراد کے ساتھ اجتماعی طور زندہ جلایا گیا۔ میں نے دیگر اہلِ خانہ کو کھیتوں میں مقتول پایاو جن کے جسموں پر گولیوں اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگے گہرے گھاؤ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ میرے دو بھتیجوں کے سر کاٹے گئے تھےو ان میں سے ایک کی عمر محض چھے سال کی تھی اور دوسرے کی نو سال۔ میری سالی کو گولیوں سے چھلنے کر دیا گیا تھا۔" دنیا باخبر ہے کہ برما میں روہنگیائی مسلمانوں کی منظم انداز میں نسل کشی جاری ہے۔ نسل کشی کے دوران جو سفاک حربے استعمال ہو رہے ہیںو ان سے یہ بات واضح ہے کہ یہ کام ان مجرمانہ نفسیات اور مسخ شدہ انسانی فطرت رکھنے والے قاتلوں کے ہاتھوں انجام دیا جا رہا ہے، جنہیں سفاکیت، درندگی اور سنگ دلی کی باضابطہ تربیت دی گئی ہے، کیونکہ محض نسلی دشمنی اور مذہبی عصبیت ایک عام انسان کو یک دم اس قدر سنگ دل نہیں بنا سکتی ہے۔ نسل کشی تو ظلمِ عظیم ہے ہی مگر جو ظالمانہ حربے معصوم لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں، وہ نہایت ہی خوفناک ہیں۔ انہیں دیکھنے کے لئے پتھر کا دل اور بے نم آنکھ چاہئے۔ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کس طرح ان مظلوموں نے اپنے پیاروں پر ہونے والے اس قدر ظلم و زیادتی دیکھی ہوگی اور ان مظلوموں نے یہ کربناک اور دلدوز مظالم سہے ہوں گے۔

بہر کیف یہ ظلم و بربریت برمی بدھسٹ دہشت گردوں کے اس دعوے پر خندہ زن ہے کہ وہ اس گوتم بدھ کے پیرو کار ہیں، جن کی تعلیمات امن و آشتی اور رحم و کرم پرمبنی ہیں۔ اس مذہب کے بانی ماتما بودھ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے، بڑے ہی ناز و نعم سے پالے گئے اس شہزادے کو جب ایک دن عام انسانوں کی بے بسی اور لاچاری نظروں سے گزری تو وہ اس قدر رنجیدہ خاطر دلبرداشتہ ہوگئے کہ راج محل کی عیش و عشرت کو لات مار کر بنباس کی راہ لی۔ کافی گیان دھیان اور ریاضت کے بعد جن اقدار و اصولوں کی بنیاد پر انہوں نے بدھ مت کی بنیاد رکھی، اس کے مطابق انسان تو انسان کسی بھی ذی روح مخلوق کو آزار اور دکھ دینا قطعاً ممنوع ہے۔ گویا عدمِ تشدد اس مذہب کا بنیادی اصول ہے۔ گوتم بدھ نے تو اپنے پیروکاروں کو ’’باطن کی پاکیزگی‘‘ اور ’’محبتِ خلق‘‘ کی تلقین کی تھی، اس کے برعکس آج میانمار میں اسی مذہب کے نام پر خبثِ باطن اور دوسروں کے تئیں اپنی نفرت و کینہ کا ایسا مظاہرہ کیا جا رہا ہے کہ میڈیا کی آنکھ اسے من و عن عکس بند کرنے اور قلم کی روشنائی قلم بند کرنے سے عاجز ہے۔ بدھ مت حسن اخلاق اور حسنِ عمل پر تاکید کرتا ہے اور تمام انسانوں کے ساتھ شفقت، حسن سلوک، تعظیم و ہمدردی اور رواداری کی تلقین کرتا ہے، مگر برما کے بودھ دہشت گردوں نے بدسلوکی، تعصب، قطع رحمی، عدمِ رواداری اور بے حرمتی کے تمام تر ریکاڑ مات کر دیئے اور نہتے روہنگیائی مسلمانوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کام میں بدھ مت کے مبلغ اور بھکشو پیش پیش رہے ہیں۔

واضح رہے کہ میانمار کے معروف بنیاد پرست مذہبی رہنماء اشین ویراتھو نے مسلمانوں کی نسل کشی اور ملک بدری میں بنیادی کردار ادا کیا، اس نے اپنی نفرت آمیز تقاریر میں ملک کی اقلیتوں علی الخصوص روہنگیا مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ویراتھو نے برمی مسلمانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا ’’آپ (برما کے بدھسٹ) احسان اور محبت سے بھرپور ہوسکتے ہیں، لیکن آپ پاگل کتے (برمی مسلمان) کے پہلو میں نہیں سو سکتے۔ (اس کام میں) اگر ہم نے کسی بھی قسم کی کمزوری دکھائی تو ہماری سرزمین پوری کی پوری مسلم ہو جائے گی۔" نفرتیں بانٹنے اور اشتعال انگیزی کو ہوا دینے میں مذکورہ راہب نے ایسی بدنامی پائی ہے کہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹائم میگزین نے جولائی 2013ء میں اپنے سر ورق پر اس کی ایک تصویر شائع کی اور اس پر یہ سرخی جما دی۔۔۔’’بدھسٹ دہشت و وحشت کا چہرہ۔‘‘ یہی وہ شخص ہے کہ جس نے مذہبی عصبیت کی راکھ میں چھپی ہوئی چنگاری کو شعلہ ور کیا اور ان کے شعلوں سے ہزاروں ہرے بھرے گھروں کو ان کے مکینوں کے سمیت جلا کر راکھ میں تبدیل کر دیا۔ برما کی دبی کچلی مسلم اقلیت کے حقِ حیات کا حترام تو کجا، اس نے برما میں اقوام متحدہ کی خصوصی خاتون نمائندہ ’’یاگی لی‘‘ کو طوائف اور کتیا کہہ کر اس کی تذلیل کی۔ مسلمانوں کے متعلق اس نے ایک مذہبی تقریب کے دوران کہا تھا کہ ’’میں انہیں (مسلمانوں) کو تخریب کار کہتا ہوں، کیونکہ وہ واقعاً تخریب کار ہیں اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ایک بنیاد پرست بدھسٹ ہوں۔"
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 671689
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش