0
Wednesday 27 Sep 2017 01:42

کربلائے برما۔۔۔۔ مذہبی عصبیت کا خوفناک چہرہ(2)

کربلائے برما۔۔۔۔ مذہبی عصبیت کا خوفناک چہرہ(2)
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gmail.com

گذشتہ سے پیوستہ
یقیناً ایک مذہبی رہنما نسلی اور مذہبی فسادات کو بھڑکانے یا انہیں روکنے میں ایک کلیدی رول ادا کرسکتا ہے۔ یہ اب اس کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ خون ریزی کو شعار بنائے یا انسانی خون کی قدر و قیمت سے اپنی قوم کو روشناس کرائے۔ برما کے بدھسٹ مذہبی رہنماء بدھ مت کی تعلیمات کے عین برعکس مذہبی منافرت پھیلانے میں کافی سرگرم ہیں۔ 696 کے نام سے موسوم ایک مذہبی انتہا پسند تنظیم قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھے ہوئی ہے۔ یہ تنظیم مذہبی منافرت، نسلی تعصب، عدمِ رواداری اور انتہا پسندی کی ایک علامت بن گئی ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو عدمِ تشدد کی تعلیمات کو عام کرنے کا بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں، وہی جب تشدد کو فروغ دینے اور متشدد عناصر کو منظم کرنے کا بھیڑا اٹھائیں تو پھر وہاں پر کس سے امن و امان کی توقع ہوسکتی ہے۔ بقولِ کسے ؂
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

میانمار میں بدھ مت کا پرچار کرنے والے رحم و کرم اور اخلاق سے کس قدر تہی دامن ہو کر تعصب و نفرت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے ہیں، اس کے ثبوت میں متعدد المناک واقعات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، لیکن طوالت سے گریز کرتے ہوئے فی الوقت ایک واقعہ کا ذکر کرنا ان کی انتہاء پسندانہ ذہنیت کی غمازی کے لئے کافی ہے۔ بی بی سی اردو سروس کے مطابق ’’2013ء میں رنگون کے شمال میں واقع اوکن میں ایک مسلمان لڑکی کی سائیکل (حادثاتی طور) ایک بدھ راہب سے ٹکرا گئی، اس کے بعد سخت گیر بدھوں نے مساجد پر حملے شروع کر دیئے، تقریبا 70 گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ اس میں ایک شخص ہلاک اور نو دیگر زخمی ہوگئے۔"

اس واقعہ سے یہ بات الم نشرح ہو جاتی ہے کہ بدھ راہب معمولی سی بات پر مشتعل ہو کر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، حالانکہ ان راہبوں کو بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ سے منسوب ایسے سینکڑوں قصے ازبر ہوں گے، جن میں دوسروں کے تئیں ان کی کرم نوازی اور قوتِ برداشت کے قصیدے موجود ہیں۔ ایسے ہی ایک قصے میں لکھا گیا ہے کہ ایک روز ماتما بدھ ایک پیڑ کے سائے میں اپنی تعلیمات کا پرچار کر رہے تھے، ایک شخص نے جو مہاتما بدھ کا سخت مخالف تھا، اس نے بہت سے افراد کے سامنے ان کے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔ مہاتما بدھ نے خندہ روئی کے ساتھ اس شخص کو مخاطب ہو کر کہا کہ کیا آپ اس کے علاوہ بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں؟ آپ کے من میں جو کچھ آئے کر ڈالئے۔ اس شخص نے مہاتما بدھ کا یہ شریفانہ رویہ دیکھا تو حیران رہ گیا، وہ رات بھر اپنے جارحانہ اقدام پر نادم ہو کر سو نہیں پایا۔ اگلے دن جب وہ اپنی غلطی کی تلافی کرنے کے لئے مہاتما سے معافی کا خواستگار ہوا تو مہاتما بدھ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ کل سے گنگا کا کافی پانی بہہ چکا ہے اور بہتا ہی چلا جا رہا ہے، اس کے بہاؤ سے ہر روز ایک نیا دریائے گنگا ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ ہر فرد بشر کا دریائے حیات گنگا کی مانند رواں دواں ہے، اس لحاظ سے جس شخص کے ساتھ تم نے کل بدتمیزی کی تھی، وہ اب تمہارے سامنے نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ اسی کے روپ میں کسی دوسرے شخص نے لے لی ہے اور اسی طرح تم بھی وہی آدمی نہیں ہو، جو کل میرے پاس آیا تھا، اس لئے کل جو کچھ ہوا اسے بھول جاؤ، چلو ہم کسی اور موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔"

ستم ظریفی یہ ہے کہ برما کی فوج، عام بلوائی اور شدت پسند گروہ مسلمانوں کی نسلی تطہیر سے بزعمِ خود اسی مہاتما بدھ کی آتما کو شانتی پہنچاننے کے لئے کر رہے ہیں، جس مہاتما بدھ سے انسانیت کی مصائب و آلام دیکھ کر رہا نہ گیا اور اسی سبب شہزادگی کو تج کر بنباس کی راہ لی، اسی کے ماننے والوں نے ایک بڑی انسانی جمعیت کو ہزار ہا قسم کی تکالیف و مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ اہنسا واد پر یقین رکھنے والے بدھ دھرم کو اپنا اوڑھنا بچھونا ماننے والوں سے جتنا ہوسکا ،روہنگیائی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا اور جو لوگ کسی طرح اپنی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے، وہ بھی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، ان کا دنیا میں کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ مقتولوں کو تو کافی بے دردی سے مارا گیا، لیکن زندہ بچ جانے والوں کو قدم قدم پر موت کا سامنا ہے، کچھ تو جنگلوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں، کچھ سمندر کا نوالہ بن گئے اور جو دیگر ممالک علی الخصوص بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں، غریب الوطنی میں ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے، انہیں ننھے بچوں کے ساتھ بغیر چھت کھلے آسمان تلے سونا پڑ رہا ہے۔ فاقوں پر فاقے لگ رہے ہیں۔ جو امداد ان تک پہنچائی جا رہی ہے، وہ ایک انار سو بیمار کے مترادف ناکافی ہے، کیونکہ اس کثیر تعداد میں تارکینِ وطن کو ہنگامی بنیادوں پر سنبھال پانا ایک ترقی یافتہ ملک کے لئے بھی ایک بڑا چلینج ہوتا ہے چہ جائے کہ بنگلہ دیش جیسا غریب ملک!

روہنگیائی مسلمانوں کے تئیں عالمی برادری کا رویہ بھی دیدنی ہے۔ اس انسانی المیہ کو ایک مخصوص قوم و ملت کے کھاتے میں ڈال کر عالمِ انسانیت خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ مسلم امت کے صاحبِ فکر و نظر افراد بھی نہ جانے کس سوچ کے تحت صرف اور صرف امتِ مسلمہ کی بے حسی پر نالاں ہیں، حالانکہ اس قسم کے اندوہ ناک انسانی المیے تمام عالمِ بشریت سے بلا لحاظِ مشرب و مذہب ہمدردی کا تقاضا کرتے ہیں اور انہیں روکنے کے لئے ہر فردِ بشر کو مقدور بھر کوشش کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ عالمی برادری کی خاموشی اس حوالے سے صاف غمازی کر رہی ہے کہ انسانیت کی اب کوئی قدر و قیمت ہی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئیڑز نے رسمی طور پر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ میانمار میں ایک نسل کا مکمل صفایا کئے جانے کا خطرہ ہے، انہوں نے ملک کی عوامی رہنماء آن سان سوچی اور سکیورٹی اداروں سے اپیل کی کہ وہ تشدد کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مگر فوج، مذہبی انتہاء پسند قوتیں روہنگیائی مسلمانوں پر روا رکھی گئی ایذا رسانی سے نفسیاتی لذت محسوس کر رہے ہیں اور نام نہاد امن کی دیوی تماشا بینی میں مست و مگن ہے، ایسے میں اقوام متحدہ کے سربراہ کے نازک الفاظ اور نرم و ملائم لہجہ کسی آدم خور بلا کو واعظ و نصیحت سے رام کرنے کی ناکام کوشش ہے۔

حاصلِ کلام یہ کہ ایک خاص مذہب کی ایک مخصوص خطۂ زمین پر بالا دستی قائم کرنے کے لئے ہری بھری انسانی بستیاں تہہ و بالا کی جا رہی ہیں اور اس مذہب کے نام نہاد وکیلوں کا یہی نظریہ ہے کہ یہ بالا دستی ایک نسل اور ایک دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا وجود مٹانے پر منحصر ہے۔ عالمی برادری اس بات کے مدنظر نہایت ہی سکون کے ساتھ اس قتلِ عام کو دیکھ کر اف تک نہیں کر رہی ہے کہ یہ ظلم و جور ان لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے کہ جن کے ساتھ انہیں نسلی، مذہبی، اعتقادی، قومی اور لسانی اعتبار سے کوئی لین دین ہی نہیں۔ لہٰذا وہ ان کی فکر میں اپنا سر کیوں کھپائیں۔ جب انسانیت اس قدر نفرتوں کے الگ الگ خانوں میں بٹ جائے اور مشترکہ درد و غم کو بھی ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈالنے کی کشمکش ہر سو نظر آئے تو ایسے میں ہر ہمدرد انسان حکیم الامت کی طرح منجئ بشریت کے آنے کی آس کیوں نہ لگائے، جو آکر پھر سے انسان کو انسانیت کا درس سکھائے۔ ؂
اے سوارِ اشہب دوراں بیا
اے فروغِ دیدۂ امکاں بیا
خیز و قانونِ اخوت ساز
دہ جامِ صہبائے محبت باز
دہ باز در عالم بیار ایّامِ صلح
جنگجویاں را بدہ پیغامِ صلح

آجا! اے وقت کی سواری کے شہسوار! اے عالمِ ممکنات کی آنکھوں کے نور، اٹھ اور دنیا میں الفت اور بھائی چارہ کے اصولوں کو پھر زندہ کر دے۔ محبت کی مے سے لبالب ساغر کو پھر سے گردش میں لا۔ دنیا میں امن و آشتی اور صلح کے وہ دن پھر سے لوٹا دے اور جنگ پسند طبعیتوں کو امن کا درس سکھا دے۔(علامہ اقبالؒ)
۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 672023
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش