0
Saturday 30 Sep 2017 16:44

فلسفہ قیام امام حسین علیہ السلام

فلسفہ  قیام  امام حسین علیہ السلام
تحریر : سید میثم ہمدانی
Twitter: @MeesamHamedani

ماہ محرم الحرام اپنے دامن میں اہلبیت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا غم لئے شروع ہو چکا ہے۔ محرم کے چاند کے طلوع کرنے کے ساتھ ہی پوری دنیا میں صف ماتم و عزا بچھا دیا جاتا ہے ۔ خصوصی طور پر اسلامی ممالک میں بسنے والے مسلمان اپنے اپنے انداز میں نواسہ رسول (ص) و فرزند بتول(س) حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مسلم تاریخ دان مسعودی لکھتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام دنیا میں آنے کے بعد سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہے، اس عرصہ میں امام حسین علیہ السلام کے کھانے پینے اور پڑھنے لکھنے کا اہتمام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بی بی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام رو رہے ہیں تو آپ نے اپنی دختر گرامی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں علم نہیں ہے کہ حسین کا رونا میرے لئے کتنا دردناک ہے، آپ نے امام حسین علیہ السلام کو جو اس وقت چھوٹی عمر کے بچے تھے اپنی گود میں لیا ، پیار کیا اور کہا " اے خدا میں اس حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما" اسی مقام پر یہ مشہور حدیث ارشاد فرمائی "حسین منی و انا من الحسین، احب اللہ من احب حسینا، حسین سبط من الاسباط"
"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، خدا ہر اس کو جو حسین سے محبت کرے محبت کرتا ہے، حسین میرے نواسوں میں سے ہے

لیکن تاریخ اسی حسین علیہ السلام کے بارے میں لکھتی ہے کہ اپ کو سن اکسٹھ ہجری میں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا اور بالاخر آپ خانہ خدا مکہ مکرمہ میں بھی امان نہ پا سکے اور کرب و بلا کی لک و دق صحرا کی جانب اپنا سفر شروع کیا۔ پورا واقعہ کربلا ہمارے سامنے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی کئی صدیوں سے اس واقعہ کا ذکر اپنی محافل میں کرتے ہیں اور نواسہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے اشک بہاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم ان اہداف کی جانب متوجہ ہوں کی جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان کے ساتھ یزیدی فوجوں سے جنگ کو تو قبول کیا لیکن بیعت کیلئے سرتسلیم خم نہ کیا۔ امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے نام وصیت نامے میں فرماتے ہیں"و انی لم اخرج اشرا و لا بطرا و لامفسدا و لاظالما انما خرجت لطلب الاصلاح فی امت جدي و اريد ان امر با لمعروف و انہی عن المنكر واسير سيرت جدي وابی"
"میں کسی مفسدہ یا ظلم کی خاطر قیام نہیں کررہا بلکہ میرا قیام صرف اپنے جد [محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ] کی امت کی اصلاح کیلئے ہے اور میں چاہتا ہوں کے اس کے لئے امر بہ معروف کروں اور منکر سے روکوں اور اس راستے کو میں اپنے جداور بابا کی سیرت کے مطابق انجام دوں گا"

درحقیقت امام عالی مقام نے اپنے وصیت نامے میں اپنے قیام کے فلسفے کو بیان کیا ہے۔ پہلا ہدف امت کی اصلاح کا ہدف تھا۔ امت اپنے راستے سے منحرف ہو چکی تھی۔ مورخین کی گواہی کے مطابق امت نبوی جو ایمان و تقوی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی یہی امت ایسی نہج پر پہنچ چکی تھی کہ جس کا حاکم اور امیر شراب خور تھا، بندروں سے کھیلتا تھا، ظاہری اور علنی طور پر گناہ کرتا تھا۔ اس کی مستی کے ایام میں پڑہے ہوئے اس کے اشعار اس کی کفرانہ تفکر کے عکاس تھے۔ اسلامی معاشرے کا حاکم جب ایسی منزل پر پہنچ جائے تو امت بھی اس کی اقتدا میں بنیادی تعلیمات سے منحرف ہونے لگتی ہے۔ ایسی حالت میں امام حسین علیہ السلام نے امت کی اصلاح کا ارادہ کیا۔ یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ پھر اگر اصلاح کی کرنا تھی تو آیا قیام کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا ؟ ہاں یہاں پر قیام کے بغیر کوئی راستہ موجود نہ تھا چونکہ حاکم وقت اس بات پر مصر تھا کہ امام عالی مقام کو بھی اپنی بیعت کا طوق پہنائے اور اپنی مخالف شریعت سیرت کو امام حسین علیہ السلام کی بیعت کے رنگ میں رنگ کر شرعی لباس پہنا دے۔ یہاں صرف ایک راستہ موجود تھا کہ جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وہ درجہ باقی رہ گیا کہ جو صرف جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے انجام پا سکتا تھا۔ ایک او ر بات کی طرف اشارہ ضروری ہے وہ یہ کہ امام حسین علیہ السلام اپنی وصیت میں بیان فرماتے ہیں کہ میں امت کی اصلاح کیلئے قیام کررہا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اصلاح کے معیار اور ملاک کو بھی بیان فرما دیا۔ اصلاح کس ذریعے ؟ اصلاح کا معیار اور ملاک کیا ہے؟ وہ کیا راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اصلاح اور فساد میں فرق کر سکتے ہیں ؟ ہو سکتا تھا تاریخ میں امام حسین علیہ السلام کے بعد اور بھی لوگ یا گروہ آتے اور آج کی مانند تکفیری فسادی گروہوں کی طرح فساد کا بازار گرم کرتے اور کہتے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی مانند امت کی اصلاح چاہتے ہیں !

یہاں امام حسین علیہ السلام نے خود ان کے راستے کو بند کردیا، آپ اپنی وصیت کے دوسرے بند میں فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں اپنے جد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کی اصلاح کروں لیکن اس اصلاح کا طریقہ بھی میرے جد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور میرے بابا علی مرتضی علیہ السلام کی سیرت میں موجود ہے لہذا آپ نے فرمایا "اريد ان امر با لمعروف و انہی عن المنكر واسير سيرت جدي وابی" میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتاہوں اور اس کو اپنے جد اور اپنے بابا کی سیرت کے مطابق انجام دوں گا۔ لہذا امام عالی مقام نے گویا ایسے مفسدوں کے راستے کو بند کردیا جو اصلاح کے نام پر معاشرے پر قتل و غارت اور خون خرابے کے فتنہ کو تھونپنا چاہے۔ امام عالی مقام نے اصلاح کی بنیادی شرط سیرت نبوی (ص )اور سیرت علوی( ع) کو قرار دیا۔اسی وجہ سے اگر کوئی مصلح ہونے کا دعویدار ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ سیرت نبوی و علوی کا حامل ہو اور اس کو درک کرنے کے قابل ہو۔
 
سنہ۶۱ ہجری میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی ایسا فرد موجود نہ تھا جو سیرت نبوی (ص) کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔ پھر اس قیام میں خاص طور پر کربلا کے واقعے کا پیش آنا بھی اصلاح امت میں سیرت نبوی کے تحت ہی قابل درک ہے۔امام عالی مقام ایک مقام پر جب آپ کو مختلف لوگ کربلا کی جانب اپنے خاندان والوں کے ہمراہ جانے سے منع کر رہے تھے تو فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اور وہ مجھ سے فرماتے ہیں "ان اللہ شاء ان یراک قتیلا ۔ ۔ ۔ " خدا تجھے کربلا میں قربان ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ امام عالی مقام کو اپنے سفر سے قبل اپنی شہادت کا علم تھا لیکن یہ سیرت نبوی پر چلنے کا راستہ تھا کہ امام اپنی اور اپنی اولاد و اصحاب کی قربانی کربلا کے میدان میں پیش کرتے تاکہ امت کی اصلاح ممکن ہو سکتی۔ وہ کون سا بگاڑ تھا کہ جس کی اصلاح کیلئے اس قدر عظیم قربانی کی ضرورت تھی اور یہ اصلاح حسین بن علی علیہ السلام جیسے سبط پیامبر (ص) کے خون کے گرے بغیر انجام نہ پا سکتی تھی۔ یہ بگاڑ اور انحراف امت اسلامی میں اس بات کی فکر کا رواج تھا کہ تمہارے دین اور تمہاری سیاسی امور میں فرق پایاجاتا ہے۔ تاریخ میں موجود ہے بہ ظاہر اسلامی حکمران جب لوگوں سے خطاب کیلئے آئے تو انہوں نے کہا کہ اے لوگو مجھے تمہاری نماز ، حج و زکات کی فکر نہیں ہے۔ یہ تمہارا کام ہے انجام دو یا نہ دو، مجھے اس بات سے سروکار ہے کہ میری حکومت کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہ ہو ! یعنی دیانت اور سیاست کی جدائی۔ یہ انحراف اس قدر عظیم تھا کہ اس کی اصلاح کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے اپنا خون سرزمین کربلا میں بہا دیا اور امت کو دشمن کی اس چال سے محفوظ کرلیا کہ وہ سیاست اور دیانت میں جدائی کے نام پر اپنی مرضی کا اسلام پیش کرے اور لوگوں کو اس بات کا یقین کروا دے گے کہ جہاد کے بغیر، امر بالمعروف کے بغیر، نہی عن المنکر کے بغیر ، اصلاح طلبی کے بغیر بھی مسلمان باقی رہا جا سکتا ہے۔گویا امام حسین علیہ السلام نے اپنی قربانی کے ذریعے کے امت اسلامی کو متوجہ کیا کہ تم معاشرے میں اسلام کو رائج کئے بغیر نام کے مسلمان تو باقی رہ سکتے ہو لیکن سیرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر چلنے والے امتی بن کر نہیں جی سکتے۔
خبر کا کوڈ : 673162
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش