2
2
Sunday 1 Oct 2017 02:25

دادی اماں اور نانی اماں کے جھوٹ اور روزِ عاشور

دادی اماں اور نانی اماں کے جھوٹ اور روزِ عاشور
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

چھٹی کی خوشی کوئی طالب علموں سے پوچھے، ہمیں آج بھی سکول کی چھٹیوں کا لطف نہیں بھولا، چھٹی کے دن بازار جانا ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا، ایک دن کسی نے یہ خبر سنائی کہ اس ہفتے دو چھٹیاں اکٹھی آرہی ہیں، بس پھر کیا تھا، ہم نے دونوں دن بازار جانے کا پروگرام بنا لیا۔ ہمارا ایک کلاس فیلو ہمارے اس منصوبے سے آگاہ ہوگیا، اس نے کہا بھائی یہ نو محرم اور دس محرم کی چھٹیاں ہیں، ان میں ہرگز بازار نہیں جانا، ہم چونک گئے بھائی کیوں!؟ اس نے بڑی رازداری سے بتایا کہ ہماری دادی اماں کہتی ہیں کہ اس دن شیعہ لوگ بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور انہیں ذبح کرکے ان کا خون چاولوں پر ڈال کر کھاتے ہیں، ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے دوست نے مزید مصالحہ لگاتے ہوئے کہا کہ میری نانی کہتی ہیں کہ شیعہ حضرات بچوں کو لے جا کر چاولوں کی دیگوں پر الٹا لٹکا دیتے ہیں اور پھر ان کے جسموں میں زنجیروں سے چھید کرکے خون نکالتے ہیں، وہ خون چاولوں پر گرتا ہے اور وہ اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

بس یہ سننا تھا کہ ہمارے تو ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے، بازار جانے کا سارا شوق کافور ہوگیا، دونوں چھٹیاں ہم نے گھر میں دبک کر گزار دیں، وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور ہم ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جاتے رہے، اس دوران اہلِ تشیع کے بارے میں ہمارے علم میں مزید اضافہ ہوتا گیا کہ ان کے جلوس کو دیکھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے، ان کی مجالس سننے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے اور یہ لوگ۔۔۔۔۔ تقریباً ساتویں کلاس میں پہلی مرتبہ مولانا مودودی کی کتاب رسائل و مسائل کہیں سے ہمارے ہاتھ لگ گئی، چونکہ اس میں سوالات و جوابات تھے اور ہمارے دماغ میں بھی ان گنت سوالات تھے، چنانچہ ہم نے بڑے شوق سے اس کا مطالعہ کیا! ادھر مطالعہ ختم ہوا اور ادھر ہم پر یہ واضح ہوگیا کہ دین نانی امّاں اور دادی امّاں کی کہانیوں کا نام نہیں ہے بلکہ تحقیق اور جستجو کا ماحصل ہے۔ رسائل و مسائل کے ایک حصے میں اہل تشیع کے بارے میں بھی سوالات و جوابات موجود ہیں، وہ پڑھے تو مجھے سمجھ آئی کہ اہلِ تشیع ایک مستقل فرقہ ہے، لیکن میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ نانی امّاں اور دادی امّاں کی کہانیوں میں اہلِ تشیع کے بارے میں جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے!؟

کچھ عرصے بعد میں بازار سے گزر رہا تھا کہ اتفاق سے میرے سامنے ایک ماتمی جلوس آگیا۔ میں نے چونک کر کسی سے پوچھا کہ کیا آج نو یا دس محرم ہے؟ اس نے کہا نہیں، میں نے کہا یہ جلوس کیسا ہے؟ اس نے کہا یہ امام حسینؑ کے چہلم کا جلوس ہے، میں نے کہا اچھا تو یہ لوگ ماتم کیوں کر رہے ہیں؟ اس نے کہا یہ امام حسینؑ کی مظلومیت کا ماتم کر رہے ہیں،  چونکہ امام ؑ کو یزید نے شہید کروا دیا تھا۔ میں نے کہا جنگ کس بات پر تھی؟ اس نے کہا اسلام پر۔ مجھے تعجب ہوا! بھئی اگر جنگ اسلام پر تھی تو رسولﷺ کے زمانے میں ہونی چاہیے تھی!؟ اس پر وہ صاحب بولے ہاں یہ جنگ رسول کے زمانے سے ہی جاری تھی، رسولﷺ کے زمانے میں یزید کے داداے نے حسینؑ کے نانا کے ساتھ جنگیں لڑیں، پھر یزید کے باپ نے حسینؑ کے باپ سے جنگیں لڑیں اور اب یزید نے امام حسینؑ سے جنگ لڑی۔ میں نے پوچھا اچھا تو یہ جلوس بازاروں اور گلیوں میں کیوں نکالتے ہیں!؟ اُن صاحب نے جواب دیا اس لئے تاکہ مسلمان نسل در نسل اس جلوس کو دیکھ کر یہ سوال کریں کہ یہ ماتم کیوں ہو رہاہے؟ حسینؑ کون تھے؟ حسینؑ کا خاندان کونسا تھا؟ یزید کون تھا؟ یزید کا خاندان کونسا تھا؟ یہ جنگ کب سے جاری تھی؟۔۔۔۔

المختصر یہ کہ وقت گزرتا گیا اور 2013ء میں دس محرم الحرام کے روز سانحہ راولپنڈی پیش آیا۔ اس سانحے میں ایک دینی مدرسے پر حملہ کرکے متعدد بے گناہ انسانوں کو قتل کر دیا گیا تھا، ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی اس سانحے کا بہت دکھ ہوا۔ لیکن 2017ء میں یہ دکھ اس وقت اور بھی بڑھ گیا کہ جب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اس راز کو افشا کیا کہ سانحہ راولپنڈی کے ذمہ دار خود اسی فرقے کے لوگ تھے، جن کا مدرسہ تھا۔ مجھے کتنے سالوں کے بعد یہ احساس ہوا کہ صرف نانی اماں اور دادی اماں کی کہانیوں میں جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ انسان جب حسد اور کینے میں حد سے زیادہ گر جاتا ہے تو پھر وہ کسی دوسرے فرقے کے خلاف جھوٹ پھیلانے کے لئے اپنے ہی فرقے اور مکتب کے لوگوں کے خون میں بھی ہاتھ رنگنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ جس معاشرے میں آج بھی اپنے آپ کو دیندار کہنے والے اور دین کے ٹھیکیدار کہلانے والے لوگ دوسروں کی مخالفت اور حسد میں اپنے ہی بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیں، اس معاشرے میں دادی امّاں اور نانی اماں سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 673280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
so nice
Iran, Islamic Republic of
زبردست ہے، جھوٹ بولنے والوں کو مزید بے نقاب کریں۔
ہماری پیشکش