3
0
Monday 2 Oct 2017 23:04

کسے باشعور کہیں!؟

کسے باشعور کہیں!؟
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

شعور بڑی نعمت ہے، لیکن اب کسے باشعور کہا جائے!؟ جہاں بھی دو آدمیوں میں اختلاف ہوتا ہے، وہ دونوں ایک دوسرے کو بے شعور کہنے لگتے ہیں۔ عوام کے بارے میں تو پہلے ہی خواص نے مشہور کر رکھا ہے کہ عوام بے شعور ہیں۔ عوام کی بے شعوری سے یاد آیا کہ گذشتہ دنوں کربلائے معلٰی میں کسی پاکستانی ذاکر نے کچھ ایسی گفتگو کی کہ جس پر اس کے خلاف عراقی حکومت نے ایکشن لیا، اگر چہ معاملہ رفع دفع ہوگیا، البتہ اس سے ہم سب تک یہ پیغام پہنچ گیا کہ اب عوام  اتنے بھی بے شعور نہیں رہے کہ جس کے منہ میں جو آئے، وہ منبر سے کہتا پھرے۔ بہرحال اس سے ہمیں کچھ غرض نہیں کہ کربلا میں ذاکر صاحب نے جو کہا وہ غلط تھا یا صحیح، البتہ ہمیں ان نیک اور مخلص حضرات سے ضرور غرض ہے جو بعض ذاکرین کی الجھی الجھی باتوں کی عرفانی تاویلیں کرتے ہیں، اس بارے میں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ عرفان باقاعدہ ایک علم ہے، وہ چاہے عرفانِ نظری ہو یا عرفانِ عملی اس کے لئے باقاعدہ سیروسلوک کی منازل ہیں، جو بغیر مربی اور مرشد کے حاصل نہیں ہوسکتیں۔

پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ذاکرین نے کسی مربی سے عرفان کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے، جو عوام میں عرفان بانٹنے میں مصروف ہیں!؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہر علم کے مقدمات ہوتے ہیں، اسی طرح علم عرفان کے بھی مقدمات ہیں، کیا عوام نے بھی وہ مقدمات طے کئے ہوئے ہیں کہ جن کے بعد ان کے سامنے عرفانی نکات پیش کئے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ عرفانی منازل روحانی ریاضتوں اور عرفانی اساتید کے زیرِ سایہ حاصل ہوتی ہیں یا چٹکلوں سے!؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ بفرض محال اگر ان ذاکرین کو عارف باللہ مان بھی لیا جائے تو عرفان کے اپنے اسرار و رموز ہیں، جو خواص کے لئے ہوتے ہیں، اگر یہ اتنے بڑے عارف ہیں تو پھر عوام میں عرفانی اسرار کیوں بیان کرتے ہیں!؟
بہرحال یہ امر خوش آئند ہے کہ اہلِ تشیع کے پڑھے لکھے طبقے میں ایک بیداری کی لہر آئی ہے اور انہوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔

اب دیگر مسالک اور مکاتب کے پڑھے لکھے افراد کو بھی چاہیے کہ وہ بھی کسی کو منبر سے فرقہ وارانہ اور غیر ذمہ دارانہ گفتگو نہ کرنے دیں۔ اگر تمام مسالک کے پڑھے لکھے لوگ اسی طرح منبر کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں تو معاشرے سے نفرت، فرقہ واریت اور شدت پسندی کا خاتمہ آسانی سے ممکن ہے۔ ہم یہاں پر یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ جس طرح بعض حلقوں میں اپنے آپ کو بڑا روشن فکر ظاہر کرنے کے لئے پاکستان اور نعوذ باللہ اسلام کو گالیاں دینا ضروری سمجھا جاتا ہے، اسی طرح بعض افراد منبر پر اپنی تقریر کے ہٹ ہونے اور مجمع میں کامیابی کے لئے دوسروں کے خلاف فتویٰ بازی، فرقہ وارانہ گفتگو، نفرت آمیز اور طنزیہ تقاریر نیز غلو کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ منبر کے غلط استعمال کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں مسلمانوں کے خلاف ایک مسجد سے دوسری مسجد اور ایک مدرسے سے دوسرے مدرسے کے خلاف فتوے آتے ہیں۔ حتٰی کہ بعض اوقات ایک ہی مسلک اور فرقے کے اندر بھی کھچاو اور کشیدگی جنم لے لیتی ہے۔

اس وقت عالمِ اسلام اور خصوصاً پاکستان جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، اس میں منبر سے غیر ذمہ دارانہ گفتگو کو روکنا ہر ذمہ دار اور باشعور انسان کی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھئے! منبر، اسلامی معاشرے کی آواز ہے، اس لئے منبر سے خالص اسلام کی ہی آواز بلند ہونی چاہیے، جو آدمی بھی اسلام کے منبر سے اسلام کی خالص تعلیمات کے علاوہ کچھ بیان کرے، اس کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ یہ بات ہم سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام کا منبر محفل مشاعرہ کا اسٹیج نہیں ہے کہ اس پر جو بھی آئے، وہ مبالغہ آرائی کرتا چلا جائے اور عوام صرف داد دیتے رہیں۔ یہ خواص کا کام ہے کہ اسلام کے منبر کو اسلامی حدود و قیود کے اندر رکھیں، چونکہ منبر سے کہا ہوا ایک جملہ، ایک لشکر کے حملے سے زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 673723
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بھائی بہت اچھا کیا اس موضوع پر قلم اٹھا کر، منبر کے حالات بہت خراب ہیں۔
Pakistan
اب جبکہ داعش پاکستان پر حملہ آور ہے، پاکستانی شیعوں کو دشمن کے مقابل یکجان ہونے کی ضرورت ہے، لیکن ہمیشہ ایسے مواقع پر سازشیں کی جاتی ہیں، شہید قائد کو بھی انہی مسایل میں الجھایا گیا تھا۔
رضا راولپنڈی
Pakistan
آپ کہنا چاہتے ہیں اگر یہ بات کوئی مدرسے کا فارغ التحصیل کرے یا کوئی عارف کرے تو صحیح ہے، کوئی اور کرے تو غلط، یعنی بات غلط نہیں لیکن کرنے والا اور مخاطب غلط تھے۔
ویسے عرفان تو تہران کے نوجوان کو ایک رات میں ایسی بھی مل جاتی ہے کہ بڑے بڑے عرفاء ان سے رجوع کرتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ شوکت رضا صحیح ہے، لیکن معاملے کو جس طرح الجھایا جا رہا ہے، وہ انتہایی نامناسب ہے اور قوم میں تفرقہ کا باعث ہے۔
بغض ، عناد اپنے کو دوسروں سے مقدم جاننا، تکبر قوم جوڑنے کے بجایے لڑانے والی باتیں، اللہ ہمیں نجات دے ایسی سوچ اور ایسے عمل سے۔
ہماری پیشکش