0
Tuesday 3 Oct 2017 01:06

خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی نئی سازش

خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی نئی سازش
تحریر: علی محمدی

دو سال پہلے یعنی اگست 2015ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عراق اور شام سمیت خطے کے تمام ممالک کی علاقائی سالمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا:
"میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ امریکی حکام عراق کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ بعض افراد نے تعجب کا اظہار کیا لیکن حال ہی میں خود امریکی حکام نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ عراق کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔" (17 اگست 2015ء)
اب جب ہم عراق کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات کی سچائی کو زیادہ بہتر انداز میں درک کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ عراق میں اس سازش کا آغاز کئے جانے کی اصل وجہ کیا ہے؟

حقیقت امر یہ ہے کہ امریکہ اور خطے میں ان کی ہم فکر حکومتوں اور طاقتوں کی جانب سے بیشمار رکاوٹیں کھڑی کئے جانے کے باوجود عراق اور شام میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی روز افزوں کامیابیوں کے پیش نظر امریکہ اور اسرائیل کے ان تمام منصوبوں پر پانی پھر گیا جو انہوں نے خطے میں دہشت گرد گروہ داعش سے درپیش خطرات کے بہانے سے بنا رکھے تھے۔ اسلامی مزاحمتی فورسز نے نہ صرف عراق، شام اور لبنان میں دہشت گرد عناصر کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے بلکہ وسیع علاقے بھی داعش کے قبضے سے آزاد کروا لئے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے آئندہ دو ماہ کے اندر اندر داعش کے مکمل خاتمے کی نوید بھی سنا دی ہے۔

خطے میں سامراجی طاقتوں کی ہمیشگی اسٹریٹجی
یہ ایک واضح امر ہے کہ مغربی طاقتیں خاص طور پر امریکہ مغربی ایشیا میں بدامنی اور انتشار چاہتی ہیں اور اس ضمن میں بعض اوقات انتشار پھیلانے اور بعض اوقات انتشار کی شدت میں اضافہ کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ درحقیقت مغربی ایشیا سے متعلق ان کی ہمیشگی اسٹریٹجی اسی امر پر مشتمل ہے۔ وہ اسی بدامنی اور انتشار کو خطے میں اپنی فوجی موجودگی کا بہانہ قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ انتشار اور بدامنی اس امر کا باعث بنتی ہے کہ اسلامی ممالک اپنے اندرونی مسائل کا شکار ہو کر بین الاقوامی سطح کے ایشوز میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اسی طرح اندرونی مشکلات میں اضافے کے باعث اسلامی ممالک اسرائیل جیسے خطرناک دشمن اور اس سے درپیش خطرات سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔

بہرحال، امریکی حکام کی جانب سے مغربی ایشیا میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اثرورسوخ میں اضافے کا خوف اس بات کا باعث بنا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں اور عناصر کی حمایت کرنے لگیں۔ یہ وہی پالیسی ہے جو امریکی حکام اس سے قبل سابق سوویت یونین کے مقابلے میں افغانستان میں اپنا چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہی القاعدہ کا دہشت گرد نیٹ ورک معرض وجود میں آیا۔ مزید برآں، ایسے سیاسی ماہرین کی تعداد بہت کم ہے جو مغربی ایشیا میں ایران کے اثرورسوخ میں اضافے کے معترف نہ ہوں۔ اسرائیل میں واقع یروشلم سنٹر کے تجزیہ کار پین ہاس ان باری نے خبردار کیا ہے کہ ایران سپر پاور بنتا جا رہا ہے۔ اسی طرح امریکہ کا معروف سیاسی تجزیہ کار فرید زکریا کہتا ہے کہ مغربی ایشیا میں ایران کے خاص اثرورسوخ کے مقابلے میں امریکی اثرورسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔

مغربی ایشیا میں سامراجی طاقتوں کی نئی سازش
خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ کی سربراہی میں عالمی استعمار اور سعودی عرب کی سربراہی میں اسرائیل سے گٹھ جوڑ کرنے والے ممالک نے مختلف اسٹریٹجیز اپنا رکھی ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے اسرائیل حکام اور آل سعود رژیم خطے کے ممالک کی جغرافیائی سرحدوں میں تبدیلی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم "نیل سے فرات تک" نامی اپنے خیالی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ آل سعود رژیم یمن اور بحرین جیسے ہمسایہ ممالک کو تسخیر کرنے آرزو لے کر بیٹھی ہے۔ سعودی اور صیہونی حکام بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے ناپاک عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔

ایران نہ صرف امریکہ، اسرائیل اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتوں کا نظریاتی مخالف ہے بلکہ مغربی ایشیا کے خطے میں امریکی اثرورسوخ میں بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ ایران ایسا جمہوری ملک ہے جہاں عوام کی حمایت اور شراکت سے مضبوط سکیورٹی اور پائیدار امن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حامی ممالک نے داعش کے خاتمے کے بعد خطے کے ممالک کو توڑنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ حال ہی میں عراق کے زیر اختیار کردستان کے علاقے میں خودمختاری کیلئے ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا ہے۔ امریکہ نے عراق اور شام کے کرد علاقوں سے بہت قریبی اور گہرے تعلقات استوار کر رکھے ہیں جس کے باعث عراق اور شام میں رونما ہونے والے واقعات میں امریکہ کا کردار انتہائی مشکوک نظر آتا ہے۔

خطے کے ممالک کی تقسیم امریکہ اور عالمی سامراجی نظام کے حق میں ہے
امریکہ کی سربراہی میں عالمی سامراجی نظام اس حق میں ہے کہ مغربی ایشیا کے ممالک میں علیحدگی پسندانہ تحریکیں زور پکڑ جائیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس قدر علیحدگی پسند تحریکوں کی شدت میں اضافہ ہو گا اسی قدر خطے میں انتشار اور بدامنی پھیلے گی جس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا کیونکہ عوام کی توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹ جائے گی۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ عراق کے زیر انتظام کردستان میں جیسے ہی علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کا انعقاد ہوتا ہے فوراً اسرائیل اس کی حمایت کرتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ہم عراق کی تقسیم کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ کرد اسرائیل کیلئے ایک اسٹریٹجک خزانہ محسوب ہوتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے نائب صدر ایلیٹ اینجل نے بھی اعلامیہ جاری کیا جس میں کردستان کی عراق سے علیحدگی کی حمایت کی گئی تھی۔

دوسری طرف اس بارے میں ایران کا موقف 180 درجے مخالف ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 20 جون 2017ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"اسلامی جمہوریہ ایران ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے عراق کے ایک حصے کیلئے ریفرنڈم کے انعقاد کا سخت مخالف ہے اور اس کے پیچھے کارفرما عوامل کو عراق کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دشمن سمجھتا ہے۔"
اگرچہ یہ سازش بھی عراقی عوام کی ہوشیاری کے سبب کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے گی اور یہ منصوبہ بھی شکست کا شکار ہو جائے گا لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ خطے میں داعش کے خاتمے کے بعد عالمی استکبار نے اسے خاص توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔
خبر کا کوڈ : 673736
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش