QR CodeQR Code

غداری اور سازش، لسانی حقوق کے لبادے میں نیا فتنہ

10 Oct 2017 20:53

اسلام ٹائمز: خطے کی اقوام 1897ء سے 1948ء کے دوران اس فتنے سے سبق حاصل کریں جس میں بوڑھے استعمار برطانیہ نے شریف حسین اور ملک عبدالعزیز جیسے بظاہر عرب اور مسلمان شخصیات کو بروئے کار لا کر ایسے حالات پیدا کئے جو اب تک امت مسلمہ کیلئے مشکلات اور مسائل کا باعث بن رہے ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ ہفتے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے اپنی ملاقات کے دوران عراق کے زیر انتظام کردستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک پر تفصیلی بات چیت کی اور اس سلسلے میں منعقد ہونے والے ریفرنڈم کو خطے سے غداری اور خطے کے مستقبل کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا۔ اسی طرح انہوں نے دشمن قوتوں کی جانب سے ایران اور ترکی کو علاقائی مسائل میں الجھانے اور ایکدوسرے سے دور کرنے کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:
"بیرونی طاقتیں خاص طور پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم خطے میں ایک "نیا اسرائیل" معرض وجود میں لانا چاہتے ہیں تاکہ خطے میں اختلافات اور تنازعات کا بہانہ فراہم ہو سکے۔"

عراق کے زیر انتظام کردستان میں انتہائی مشکوک طرز پر علیحدگی پسندی پر مبنی انجام پانے والے اقدامات کے بارے میں ایران کے معروف کالم نگار اور تجزیہ کار اور امام صادق یونیورسٹی تہران میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر سعداللہ زارعی نے اپنے تازہ ترین کالم میں اظہار خیال کیا ہے۔ اسلام ٹائمز اردو کے قارئین کیلئے اس کالم کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

عراقی کردستان میں علیحدگی پسند تحریک کے طولانی مدت اثرات
عراق کے زیر انتظام کردستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنانے والے اپنے گذشتہ تجربات کی روشنی میں اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ علیحدگی پسندی اپنے سرانجام تک پہنچنے سے پہلے کردوں کیلئے بھاری جانی، مالی اور سیاسی نقصان کا باعث بنے گی اور اگلے مراحل میں اس کی وجہ سے متعدد فتنے بھی جنم لیں گے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی طاقتوں کے منصوبے سائیکس پیکو کے تحت خطے کو چھوٹے چھوٹے نئے ممالک میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس زمانے میں جنم لینے والے حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی ملک ٹوٹتا ہے تو وہ خطہ ایک لمبے عرصے تک کشمکش اور بحران کا شکار رہتا ہے جبکہ مشترکہ تاریخی اور قومی روایات اور اقدار بھی درپیش مشکلات اور بحران پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہیں۔

اس حقیقت کو درک کرنے کیلئے کافی ہے ہم عرب سرزمین پر ہی نگاہ ڈال لیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے عرب شہزادے کس طرح ایک چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے یا حتی دریا کے پانی سے ملنے والے حصے پر کس طرح آپس میں دست و گریباں ہیں؟ اس تناظر میں بہت کم ہی ایسے سیاسی محققین ہیں جو 1916ء میں برطانوی اور فرانسوی وزرائے خارجہ کی جانب سے ہمارے خطے کی تقسیم کی بابت ان پر لعنت نہیں بھیجتے۔ اسی طرح بہت کم ایسے سیاسی ماہرین ہیں جو جب "نیو مڈل ایسٹ" یا "گریٹر مڈل ایسٹ" جیسے نام سنتے ہیں جو مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کی جغرافیائی سرحدوں میں تبدیلی پر دلالت کرتے ہیں، تو پریشان نہ ہوں اور ان کے بارے میں اپنی شدید نفرت کا اظہار نہ کریں۔

خطے کے ممالک کی جانب سے اسی شدید پریشانی کے اظہار کی خاطر 2007ء میں وقت کے امریکی صدر نے یہ اعلان کیا کہ امریکہ کیلئے خطے کے ممالک کا سیاسی استحکام ہر چیز سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس عشرے میں امریکی حکومت نے کیا پالیسی اپنائی اور کس طرح خطے کے مختلف قومی اور لسانی گروہوں کو علیحدگی پسندی کی ترغیب دلائی اور ممالک کو توڑنے کی کوشش کی۔

عراق کے زیر انتظام کردستان میں خودمختاری کیلئے منعقدہ ریفرنڈم کا دو پہلووں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک پہلو اندرونی ہے جس میں کردستان انتظامیہ کی جانب سے اس اقدام اور عراق پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جانا چاہئے جبکہ دوسرا پہلو بیرونی ہے جس میں بیرونی طاقتوں کا وہ منصوبہ اور سازش شامل ہے جو آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہی ہے۔ شاید سعودی عرب کی بااثر شخصیت انور عشقی نے ایک بین الاقوامی اجلاس میں جو کچھ بیان کیا وہ اس عظیم سازش کا ایک چھوٹا سے حصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ اس اقدام کو خطے سے غداری کے طور پر یاد رکھے گی۔ ایسے ہی جیسے ماضی میں کردوں کی جانب سے ایران کے شہر مہاباد تک پیشقدمی جن کا مقصد ایران کے شمال مغربی حصے کو علیحدہ کرنا تھا آج ایرانیوں کے ذہن میں ایک غداری کے طور پر جانا جاتا ہے۔

آزادی کی جنگ، خطے میں بدامنی کا نیا منصوبہ
کردستان کے علیحدگی پسند لیڈر اس نقطہ نگاہ کے حامل ہیں کہ چونکہ کرد ایک علیحدہ قوم ہے لہذا اسے ایک علیحدہ خودمختار ریاست کا مالک ہونا چاہئے۔ لیکن دنیا کا کوئی بھی منصفانہ قانون "قومیت" کو ایک الگ ریاست کے قیام کا جواز فراہم کرنے کیلئے کافی نہیں سمجھتا۔ قومیت اور نسل کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کی واضح مثال اسرائیل کی صورت میں موجود ہے۔ اسرائیل کی تشکیل اس بنیاد پر عمل میں لائی گئی کہ یہودی قوم ایک علیحدہ قوم ہے اور اسے اپنے لئے الگ وطن چاہئے۔ دنیا میں اسرائیل کے علاوہ کوئی اور ایسی مثال نہیں ملتی۔ جی ہاں، بعض اوقات ایک قوم ملک رکھتی ہے، بعض اوقات ایک قوم کے پاس کئی ممالک ہوتے ہیں اور بعض اوقات چند قوموں کے پاس ایک ملک ہوتا ہے لیکن جب عالم سطح پر ایک ملک تشکیل پاتا ہے تو وہ قومیت کی بنیاد پر نہیں تشکیل پاتا۔ لہذا آج انتہائی چھوٹے ممالک کو چھوڑ کر ہر ملک میں متعدد اقوام آباد ہیں۔ البتہ یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہر قوم بذات خود کئی نسلی گروہوں میں تقسیم ہوتی ہے اور عراقی کرد بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں۔

عقائد کی بنیاد پر تقسیم بندی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اس وقت عراقی کرد 6 سے زائد گروہوں پر مشتمل ہیں جن میں سے پانچ گروہوں نے ریفرنڈم کے نتائج کو کردوں کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے اور ریفرنڈم منعقد کروانے والوں کو ڈکٹیٹر کہا ہے۔ جب اس قدر اہم ایشو کے بارے میں ریفرنڈم منعقد کروانے سے پہلے دیگر کرد گروہوں، عراق کی مرکزی حکومت اور خطے کے کم از کم تین دیگر ایسے مملک جن پر کردستان کی آزادی کے گہرے اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں، سے نہ تو کوئی مشورہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا جاتا ہے تو یہ سوال پیش آتا ہے کہ عراق کے زیر انتظام کردستان کے علیحدگی پسند عناصر نے کس ملک اور حکومت کی "حمایت" اور "ہم آہنگی" سے اس شدید خطرناک کھیل کا آغاز کیا ہے؟

یہ امر قابل تصور نہیں کہ کرد علیحدگی پسند اس بات سے ناواقف تھے کہ ان کے اس اقدام کی شدید مخالفت سامنے آئے گی اور حتی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلانا شروع ہو جائے گا، خاص طور پر یہ کہ کرد علیحدگی پسند لیڈران نے ریفرنڈم کے انعقاد سے تین دن پہلے اہم شہر کرکوک کا دورہ کیا اور کرد فورس پیشمرگ اسکاوٹس سے خطاب کرتے ہوئے انہیں خبردار کیا کہ وہ "آزادی کی جنگ" کیلئے تیار ہو جائیں۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ کرد علیحدگی پسند خطے میں نئی جنگ کے آغاز پر مبنی خطرناک گیم کا ایک حصہ ہیں۔ اس گیم کا مقصد خطے کی حکومتوں اور اقوام کی پوزیشن متزلزل کرنا ہے۔ یہ یقیناً خطے کے حق میں بہت بڑی غداری ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ کرد اور ان کی پیشمرگ فورس عراق کی مسلح افواج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عراق کی مسلح افواج اب تک مشکل جنگ کا تجربہ کر چکی ہیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔ اگر کردوں کو امریکی حکام سے امیدیں وابستہ ہیں تو انہیں جان لینا چاہئے کہ کردستان کو ان کے قبضے سے آزاد کروانے میں اس سے بھی کم وقت درکار ہو گا جو موصل کو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے آزاد کروانے میں صرف ہوا تھا۔ اگرچہ داعش کے بچے کھچے دہشت گرد عناصر بھی کرد علیحدگی پسندوں سے جا ملے ہیں اور مذہبی رنگ کی حامل جنگ میں شکست کے بعد اب قومیت کا رنگ اختیار کرنے جا رہے ہیں۔ قومیت کا لبادہ بھی ان کے ہاتھ میں اسی قدر جھوٹا ذریعہ ہے جتنا اس سے قبل مذہب کا لبادہ جھوٹا ذریعہ بنا ہوا تھا۔

کردوں کے حقوق کی بازیابی کے لبادے میں نیا فتنہ
اس میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ امریکہ، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتیں اپنے حمایت یافتہ دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی عظیم کامیابیوں پر شدید غصے اور پریشانی کا شکار ہیں۔ کافی ہے امریکی اور اسرائیلی حکام کے بیانات پر غور کریں تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے "علاقائی نسخوں" سے کس قدر خوفزدہ اور سراسیمہ ہیں۔ انہوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور خطے کے ممالک میں ابھر کر سامنے آنے والی عوامی رضاکار فورسز کے خلاف ایک مضبوط بین الاقوامی اور علاقائی محاذ تشکیل دینے کی سرتوڑ کوششیں انجام دی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور عراق اور شام میں عوامی رضاکار فورسز نہ ہوتیں تو آج پورے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے خطے پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا قبضہ ہوتا۔ البتہ مغربی طاقتوں کا مقصد بھی یہی تھا کیونکہ اسی طرح اس خطے پر ان کے قبضے کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔

جس دن داعش کے روپ میں "تکفیری دہشت گردی کا فتنہ" معرض وجود میں آیا تو سب یہی سوچ رہے تھے کہ اس کا خطرہ صرف شام اور عراق کو ہی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت سب پر عیاں ہو گئی کہ اس فتنے کے پس پردہ عوامل نے پورے خطے کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ہم آج عراق کے زیر انتظام کردستان میں "قومی اور نسلی فتنہ" دیکھ رہے ہیں جس نے کردوں کے تاریخی حقوق کی بازیابی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے تو اس کا نشانہ صرف عراق ہی نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی وسیع پیمانے پر تیار کی گئی سازش ہے جس کے ذریعے خطے کے تمام ممالک کی قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ لہذا مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے تمام ممالک کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔

خطے کی اقوام 1897ء سے 1948ء کے دوران اس فتنے سے سبق حاصل کریں جس میں بوڑھے استعمار برطانیہ نے شریف حسین اور ملک عبدالعزیز جیسے بظاہر عرب اور مسلمان شخصیات کو بروئے کار لا کر ایسے حالات پیدا کئے جو اب تک امت مسلمہ کیلئے مشکلات اور مسائل کا باعث بن رہے ہیں۔ اقوام مغربی طاقتوں کے ظاہری بیانات کے فریب میں نہ آئیں کیونکہ اصل مسئلہ اقوام کے حقوق نہیں بلکہ ان کے درپردہ اہداف ہیں۔ ماضی اس کی بہترین مثال اسرائیل نامی جعلی ریاست کا قیام ہے۔ سرزمین فلسطین پر یہودی قوم کے حقوق کا نام لے کر قبضہ جمایا گیا لیکن اصل مسئلہ فلسطین میں مقیم یہودیوں کے حقوق کا نہ تھا بلکہ برطانیہ اور جیوش ایجنسی کی ملی بھگت سے انجام پانے والی وہ سازش تھی جو اب تک خطے کے اسلامی ممالک کیلئے وبال جان بنی ہوئی ہے اور ہزاروں بیگناہ مسلمانوں کی جان لے چکی ہے۔


خبر کا کوڈ: 675661

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/675661/غداری-اور-سازش-لسانی-حقوق-کے-لبادے-میں-نیا-فتنہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org