1
0
Saturday 14 Oct 2017 23:20

جامعات میں جہاد کے نام پر دہشتگردوں کے اڈے

جامعات میں جہاد کے نام پر دہشتگردوں کے اڈے
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

اسلام میں جو بلند مقام استاد کا رکھا گیا، افسوس ہے کہ وہ ہمارے سیکولر نظام تعلیم میں نہیں دیا جاتا۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ استاد کا احترام کرنا انسان کی اپنی شناخت ہے۔ جس طرح اجرامِ فلکی مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، اسی طرح کائنات کے تمام شعبہ جات استاد کے گرد رواں دواں ہیں۔ استاد اور شاگرد کا روحانی رشتہ دل کے گرد گھومتا ہے اور دل کی دنیا عقیدت، احترام، محبت، مروت، ارادت، ریاضت اور خلوص کی قوسِ قزح ہے۔ حُسنِ کائناتِ مقصودِ کائنات محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معلمِ اخلاق ہونے پر فخر کیا۔ فخرِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد صحابہ کرامؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی نہ صرف تقلید کرتے بلکہ جاں سپاری اور جاں نثاری کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔ احترام کا یہ عالم تھا کہ تاجدارِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرماتے تو شاگرد وضو سے گرنے والا پانی اپنے چہروں پر مَل لیتے۔ تاریخ شاہد ہے کہ استاد کا احترام کرنے والے زندگی میں ہمیشہ کامیاب رہے۔ استاد سے حاصل کردہ علم اُن کے لئے روشنی ثابت ہوا۔ وہ جہاں بھی گئے، اس روشنی نے اُن کی راہیں منور کر دیں۔ ایک سچا اور کھرا استاد باغبان کی طرح ہے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ نے فرمایا: ’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا، میں اُس کا غلام ہوں۔ اُس کی مرضی ہے کہ وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کر دے۔‘‘ استاد اپنے علم و فضل سے اندھیروں کو روشنی اور پھولوں کو مہک عطا کرتا ہے۔ استاد کی تعظیم کرنے والوں نے عظمتیں پائیں۔ اگر ہم کائنات کا بغور مطالعہ کریں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ فرش سے عرش تک علم کی فرمانروائی ہے، جس کا منبع استادِ گرامی ہے۔

اکتسابِ فیض کی آرزو رکھنے والوں کے سامنے استاد کی دعا اُن کی زندگی کو نکھار عطا کرتی ہے۔ ایک اچھا استاد علم کا آئینہ ہے۔ اس کی ذات اس کے شاگردوں میں منعکس ہوتی ہے۔ استاد ایک پھول ہے اور شاگرد اس کی خوشبو۔ استاد نہ صرف علم و آگہی کا منبع ہے بلکہ اخلاق و کردار کی دولت اپنے شاگردوں میں منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہماری زندگی کے تمام دروازے استاد کی ذات پر آکر رکتے ہیں۔ ایک اچھا استاد قوم کا معمار اور روحانی اقدار کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ جس قوم کا استاد اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے میں ایمانداری اور دیانت داری کا مظاہرہ کرتا ہو، اُس قوم کو کبھی زوال نہیں آسکتا۔ پاکستان میں ایسے اساتذہ کرام کی کمی نہیں ہے، جنہوں نے اپنے شاگردوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔ اُن کا تعلیمی و تربیتی فیض نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ وہ جذبۂ اخلاقیات سے سرشار ہوکر اپنے شاگردوں کو دوسروں کے لئے باعثِ تقلید بناتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں انتہا پسندانہ رجحانات پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار دیکھنے میں آ رہا ہے اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر اب بھی اس بابت سنجیدہ اقدام نہ کئے گئے تو حالات قابو سے باہر ہونے کا خدشہ ہے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے صوبائی قانون ساز خواجہ اظہار الحسن پر ہونے والے ناکام قاتلانہ حملے میں ملوث عناصر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اعلٰی تعلیم یافتہ اور بڑی جامعات سے وابستہ تھے۔ اسی طرح دو سال قبل صفورہ گوٹھ کراچی میں اسماعیلی برادری کی ایک بس اور اسی ساحلی شہر میں معروف سماجی کارکن ثبین محمود پر مہلک حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں بھی اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان ملوث پائے گئے تھے۔

تعلیم یافتہ افراد کا دہشت گردی میں ملوث ہونا نئی بات نہیں۔ کراچی میں اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے دہشت ناک سلسلے کا آغاز 17 سال پہلے تب ہوا جب مشرف دور میں امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی۔ اس کے بعد القاعدہ، تحریک طالبان، جنداللہ اور لشکر جھنگوی سے لے کر اب نئی ابھرنے والی انصار الشریعہ تک، ایسی کئی کالعدم تنظیمیں ہیں، جن کے ہائی پروفائل دہشت گرد اعلٰی تعلیم یافتہ بھی تھے۔ کراچی میں دہشتگردی کا سلسلہ سن 2000ء کے اوائل سے شروع ہوا۔ پہلے امریکن قونصلیٹ اور پھر شیرٹن بم دھماکے کئے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کی صورتحال تو 1980ء سے جہادیوں کے مرکز کی سی ہے۔ 2002ء میں دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات امریکی صحافی ڈینیل پرل کا اغوا اور پھر قتل تھا۔ اس کا مرکزی دہشت گرد شیخ عمر لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلٰی تعلیم حاصل کرکے آیا تھا۔ اسی نے اغوا کا منصوبہ بنایا اور اسی نے ڈینیل پرل کو موت کے گھاٹ اتارا۔ 2004ء میں کور کمانڈر کراچی کے قافلے پر کالعدم جنداللہ کے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور اس تنظیم کے تقریباً تمام ہی دہشت گرد کراچی یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے، جبکہ ان کا تعلق ایک مذہبی جماعت کی طلبہ تنظیم سے بھی رہ چکا تھا۔ کراچی میں ہی 2005ء میں القاعدہ کا آئی ٹی ایکسپرٹ نعیم صبور خان عرف ابو طلحہ پکڑا گیا، اس پر امریکی حکومت نے 50 لاکھ ڈالر انعام رکھا تھا۔ لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے عظیم شیخ کا تعلق حیدر آباد سے تھا، وہ جسٹس مقبول باقر کے گھر پر حملے سمیت دیگر کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، وہ اپنے ساتھی فرحان کے ہمراہ 2013ء میں گرفتار ہوا اور اِس وقت جیل میں ہے، وہ پیشے کے لحاظ سے الیکٹرانکس انجینئر ہے۔

سانحہ صفورہ میں ملوث دہشت گرد سعد عزیز اور علی رحمان عرف ٹونا بھی اعلٰی یافتہ تھے۔ یہ دونوں داعش کے ساتھ منسلک رہے اور سی ٹی ڈی کے ہاتھوں 2015ء میں پکڑے گئے، جب کہ گذشتہ سال منگھو پیر میں مقابلے کے بعد مارا گیا داعش کا دہشت گرد کامران عرف گجر بھی گریجویٹ تھا۔ اس سال گلستان جوہر میں ڈی ایس پی ٹریفک فیض محمد شگری پر حملے میں ملوث دہشتگرد حذیفہ آئی ٹی ایکسپرٹ تھا۔ وہ منگھو پیر میں حساس ادارے اور پولیس سے مقابلے میں مارا گیا، جبکہ اس کا ایک اور اعلٰی تعلیم یافتہ ساتھی اس وقت افغانستان میں ہے۔ رواں سال سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن، ریٹائرڈ لیفٹنٹ کرنل طاہر ناگی، ڈی ایس پی ٹریفک کریم آباد، سائٹ، بہادر آباد میں پولیس اہلکاروں اور گلستان جوہر میں پولیس فاونڈیشن کے گارڈ کے قتل میں ملوث انصار الشریعہ کے دہشت گرد بھی اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کے سربراہ سے لے کر ٹارگٹ کلرز تک تمام ہی برطانیہ، این ای ڈی اور کراچی یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہونے کے علاوہ ٹیکنالوجی کے بھی ماہر ہیں۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی حال ہی میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے متنبہ کرچکے ہیں کہ داعش اور اس جیسی شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر توجہ دی رہی ہیں اور اس کے لئے ان کا ہدف خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ تمام مبصرین اور تجزیہ نگار بھی یہ اشارے دے چکے ہیں کہ پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مدارس پر توجہ دی جاتی رہی، جو کہ اپنی جگہ درست بھی ہے، لیکن اعلٰی تعلیمی اداروں میں انتہاء پسندانہ رجحانات کے بارے میں آزاد خیال حلقوں کے اشاروں کے باوجود اس پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔

اب چونکہ اس انتہا پسندانہ رجحان کا اثر جامعات سے باہر نظر آنے لگا ہے تو معاشرے میں اضطراب پایا جانے لگا ہے۔ ہماری ساری توجہ مدارس کی طرف تھی، وہاں جو انتہا پسند بنتا ہے وہ فُٹ سولجر ہوتا ہے، یہ درست ہے کہ یہ تکلیف دہ بات ہے اور اس کے بارے میں کارروائی ہونی چاہیے، لیکن جس طرح جامعات میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ہے، وہاں منصوبہ ساز بنتے ہیں، یہ کمپیوٹر سے واقفیت رکھتے ہیں، ان کو پڑھنا لکھنا آتا ہے، یہ دانشمندانہ طور پر ایک اور سوچ کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور اس کا ہم نے ادراک نہ کیا تو مسائل ہاتھ سے نکل جائیں گے بلکہ میں سمجھتا ہوں نکل بھی گئے ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں قومی اسمبلی میں ایک خاتون قانون ساز رومینا خورشید عالم نے پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے ایک مرکز کے قیام کا مسودہ متعارف کروایا تھا اور اس میں بھی خاص طور پر نوجوانوں پر توجہ دینے کا ذکر کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں اس مسودے پر غور اور تبادلہ خیال بھی کیا گیا، اس کے لئے فوری اقدام کے ساتھ ساتھ ایک طویل المدت اور دیرپا لائحہ عمل وضع کیا جانا ازحد ضروری ہے۔ حکومت کی جانب سے جو اقدامات اس وقت ہو رہے ہیں، یہ آگ بجھاؤ والی حکمت عملی ہے، جب آگ لگ رہی تھی، جب آگ سلگھ رہی تھی، اس وقت آپ نے کچھ نہیں کیا۔ اب آپ پہلے آگ بجھایئے اور پھر دیرپا حکمت عملی وضع کیجیے، تاکہ یہ دوبارہ نہ سلگے۔ اس بابت نہ صرف طلبا بلکہ جامعات اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ بچوں کی ذہن سازی میں اساتذہ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے لڑتے ڈیڑھ دہائی ہوچکی ہے، اس دوران ملک کو بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا اور ان مثالی قربانیوں کی بدولت اہم کامیابیاں بھی ملیں، لیکن یہ چیلنج اب تک برقرار ہے۔ اس طویل جنگ کا خوفناک ترین پہلو یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی صرف ان پڑھ یا سادہ لوح افراد کی برین واشنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اعلٰی تعلیم یافتہ ذہن بھی اس زہریلی ہوا سے متاثر ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں وہ کون سی خامی ہے، جو پڑھنے والوں کو منزل سے ہمکنار کرنے کے بجائے، گمراہ کر رہی ہے۔؟ مختلف ماہرین تعلیم کے مطابق تعلیمی نصاب میں بعض منفی اور متشدد رجحانات ضیاء دور میں داخل ہوئے۔ ان کے اثرات زائل کرنے کیلئے نصاب میں غیر معمولی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق نصابی کتب میں ایسی احادیث و قرآنی احکامات پڑھانا جس میں انسانی جان کی اہمیت پر زور ہو، ایسے مضامین اور موضاعات شامل کئے جائیں، جن کے ذریعے عصری علوم کے ساتھ ساتھ برداشت، بین المذاہب ہم آہنگی اور انسان دوستی کے جذبات پروان چڑھ سکیں۔ ماہرین نے نصاب کی تبدیلی کے ساتھ، قابل اور اہل اساتذہ کی تقرری کیلئے بھی ایک نیا نظام متعارف کرانے پر زور دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق 1977ء کے بعد درسی کتب کو ایک خاص رخ پر ترتیب دیئے جانے اور بدلتی ضروریات کو سامنے نہ رکھنے کے باعث ملک کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خطے کے ممالک سے آگے جانے والا پاکستان پیچھے رہ گیا ہے۔ اگر ملک میں ایک اور یکساں تعلیمی نظام نافذ نہ کیا گیا تو طبقاتی فرق کے علاوہ انتہا پسندی بھی بڑھے گی۔

ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرچکے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کو سوات اور شمالی اور جنوبی وزیرستان سے باہر نکال دیا گیا ہے اور اس راہ میں جو قربانیاں پاکستان کے فوجی جوانوں نے دی ہیں، وہ قابل تعریف اور قابل تحسین ہیں۔ جی ہاں، سکیورٹی کی صورتحال گذشتہ دہائی کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے، البتہ ہمیں ابھی بھی کئی جگہوں پر کامیابی حاصل کرنی باقی ہے اور ہاں، یہ بات بھی کہی جانی چاہیے کہ مغرب بالخصوص امریکہ کا ہم پر انگلیاں اٹھانا بدنیتی ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں شکست پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔ امریکہ کے ہارنے کی ایک سادہ سی وجہ یہ ہے کہ افغان جنگ اپنے آغاز کے ساتھ ہی اپنی متعین سمت سے ہٹ گئی اور جنگ کا دائرہ کار عراق تک پھیلا دیا گیا۔ باقی سب تو تفصیلات ہیں، لیکن پاکستان دنیا کو یہ سادہ سی حقیقت کو تسلیم کروانے میں مشکلات کا شکار کیوں ہے، اس کی ایک وجہ ہے: کیونکہ ہم اس تمام جنگ کے دوران اس میں ہماری اپنی شرکت کے بارے میں خود سے اور اپنے اتحادیوں سے جھوٹ بولتے آ رہے ہیں۔ اگر ایبٹ آباد کا واقعہ یہ ثابت نہیں کرتا تو ملا منصور کی پاکستانی سرزمین پر پاکستانی پاسپورٹ کے ہمراہ ہلاکت اس بات کو ضرور ثابت کرتی ہے۔ معاشرے بالخصوص جامعات میں سے شدت پسندی کے رجحانات کو ختم کرنے کیلئے خارجہ پالسیی کے مقاصد کے حصول کیلئے غیر ریاستی عناصر کے استعمال کی پالیسی ختم کرنا ہوگی، ورنہ ہماری یونیورسٹیوں میں دہشت گرد پلتے رہیں گے اور کل یہی لوگ معاشرے کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔
خبر کا کوڈ : 676612
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
خدا قوت سردار صاحب.. بہت اچھا لکھا ہے تعلیمی یافتہ دہشت گردوں پر...
ہماری پیشکش