0
Monday 16 Oct 2017 12:50

غنڈہ گردی، امریکی خارجہ سیاست کا مرکز و محور

غنڈہ گردی، امریکی خارجہ سیاست کا مرکز و محور
تحریر: محمد صادق کوشکی

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے مختلف ممالک حتی اپنے اتحادیوں سے امریکی رویے پر مشتمل تجربات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر امریکی خارجہ پالیسی ایک مستقل اصول پر استوار ہے جو "طاقت کی بنیاد پر عمل انجام دینا" ہے۔ یعنی امریکہ خود کو دنیا کی سپر پاور تصور کرتا ہے اور اسی بنیاد پر دیگر ممالک جیسے چین، روس اور بعض یورپی ممالک سے بین الاقوامی معاہدے بھی انجام دیتا ہے۔ مذاکرات کے دوران امریکہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مدمقابل پر یہ تاثر ڈالے کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور سے مذاکرات انجام دے رہے ہیں اور معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا انہیں امریکہ کو خصوصی مراعات دینا پڑیں گی جبکہ دوسری طرف امریکہ کیلئے ضروری نہیں کہ وہ بین الاقوامی معاہدات کی پابندی بھی کرے۔

اسلامی جمہوریہ ایران سے انجام پانے والے معاہدوں میں بھی امریکہ کی یہ عہد شکنی اور بد دیانتی واضح طور پر قابل مشاہدہ ہے۔ حتی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں امریکہ نے ایران سے معاہدہ انجام دینے کے بعد اسے توڑ ڈالا۔ ایسی ہی ایک مثال الجزائر معاہدہ ہے۔ حالیہ چند سالوں میں امریکہ اور چند مغربی ممالک نے ایران سے جوہری پروگرام کے بارے میں طولانی مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ انجام دیا جو جے سی پی او اے کے نام سے معروف ہے۔ امریکہ کو معرض وجود میں آئے 240 سال ہوئے ہیں جن میں سے 222 سال یعنی اپنی عمر کا 93 فیصد حصہ اس ملک نے دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف جارحیت اور جنگ میں صرف کئے ہیں۔ یہ سپر پاور جس نے ہمیشہ جنگ طلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کو نت نئے بحرانوں سے روبرو کیا ہے آج بھی ظلم و ستم اور خونریزی کو ہوا دینے میں مصروف ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب نیویارک میں منعقدہ حالیہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنے مغربی اتحادیوں کو ایران سے انجام پانے والے جوہری معاہدے کو ختم کرنے پر قائل نہ کر سکے تو جلد بازی، ناپختہ کاری، حماقت اور سراسیمگی پر مبنی بیانات اور فیصلوں کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی پوزیشن محفوظ بنانے کی ناکام کوششیں شروع کر دیں۔ خود امریکہ کے سیاسی ماہرین کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات اور اقدامات کو امریکہ کی قومی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ رکس ٹلرسن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران سے متعلق اسٹریٹجی اعلان کئے جانے کے چند دن پہلے ہی انہیں خبردار کیا کہ ہمارے پاس ایران پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرنے کیلئے کافی حد تک قانونی شواہد موجود نہیں۔ ان کی اس وارننگ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جوہری توانائی کا بین الاقوامی ادارہ آئی اے ای اے اب تک اپنی آٹھ رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کر چکا ہے کہ ایران نے مغربی طاقتوں سے انجام پائے جوہری معاہدے کی مکمل پابندی کی ہے۔

امریکی حکومت کا ایک اور جنونی قدم سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی دھمکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کا کردار انتہائی موثر اور مرکزی رہا ہے۔ ایسے میں کیسے اسے دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حالیہ امریکی صدارتی مہم کے دوران خود ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر اوباما اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے بقول اس بات کا اعلان کیا تھا کہ داعش درحقیقت امریکہ کی ہی پیداوار ہے۔ عالمی سطح پر اب تک امریکہ کی جانب سے انجام پانے والی ریاستی دہشت گردی کے چند نمونے درج ذیل ہیں:

1901ء: امریکی مسلح افواج کولمبیا میں داخل ہو گئیں۔
1902ء: پاناما کے خلاف امریکہ کی فوجی جارحیت۔
1904ء: کوریا اور مراکش میں فوجی مداخلت۔
1905ء: ہنڈورس میں انقلابی تحریک کچلنے کیلئے فوجی مداخلت۔
1905ء: میکسیکو کے فوجی ڈکٹیٹر پورفیریو ڈیاز کے حق میں عوامی انقلاب کچلنے کیلئے فوجی مداخلت۔
1907ء: ڈومینیکن کا عوامی انقلاب کچلنے کیلئے فوجی مداخلت۔
1907ء: نکاراگوا پر فوجی حملہ۔
1907ء: ہنڈورس اور نکاراگوا کے درمیان جاری جنگ میں شرکت۔
1908ء: پاناما میں جاری الیکشن میں مداخلت۔
1910ء: نکاراگوا میں فوجی مداخلت۔
1911ء: ہنڈورس میں عوامی منتخب صدر میگوئل ڈاویا کے خلاف مینول بونیلا کی سربراہی میں انجام پانے والی بغاوت کے حق میں فوجی مداخلت۔
1911ء: فلپائن میں امریکہ مخالف عوامی انقلاب کچلنے کیلئے فوجی مداخلت۔
1911ء: چین میں فوجی مداخلت۔
1912ء: کیوبا پر فوجی حملے کے ذریعے قبضہ۔
1912ء: پاناما پر فوجی حملہ۔
1912ء: ہنڈورس پر فوجی حملہ۔
1912ء سے 1933ء: نکاراگوا پر فوجی قبضہ۔
1914ء سے 1934ء: ہیٹی میں عوامی انقلاب رونما ہونے کے بعد فوجی حملہ اور قبضہ۔
1916ء سے 1924ء: ڈومینیکن ریپبلک پر فوجی قبضہ۔
1917ء سے 1933ء: کیوبا پر فوجی قبضہ۔
1917ء سے 1918ء: پہلی عالمی جنگ میں شرکت۔
1918ء سے 1922ء: روس میں فوجی مداخلت۔
1918ء سے 1920ء: پاناما پر فوجی قبضہ۔
1919ء: کوسٹا ریکا میں فوجی مداخلت۔
1920ء: گواتیمالا پر فوجی جارحیت۔
1922ء: ترکی میں فوجی مداخلت۔
1922ء سے 1927ء: چین میں فوجی مداخلت۔
1924ء: ہنڈورس پر فوجی حملہ۔
1925ء: پاناما پر فوجی حملہ۔
1927ء سے 1934ء: چین پر فوجی قبضہ۔
1932ء: ایل سلواڈور پر فوجی جارحیت۔
1945ء: اگرچہ دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگازاکی پر ایٹم بم سے حملہ جس میں تقریباً 2 لاکھ 20 ہزار بیگناہ شہری موت کی نیند سو گئے۔
1947ء سے 1949ء: یونان پر فوجی جارحیت۔
1950ء: پورٹو ریکو پر فوجی حملہ۔
1950ء سے 1953ء: کوریا میں فوجی مداخلت۔
1965ء سے 1973ء: ویت نام میں خونریز فوجی مداخلت۔
1988ء: ایران کے مسافر بردار ہوائی جہاز پر میزائل حملہ جس میں 290 بیگناہ شہری جاں بحق ہوئے۔
1991ء: عراق پر فوجی جارحیت۔
1999ء: امریکی سربراہی میں نیٹو نے یوگوسلاویہ پر فوجی جارحیت کی اور 78 دن تک ہوائی حملوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں یہ ملک ٹوٹ گیا۔
2001ء: افغانستان پر فوجی حملہ اور قبضہ۔
2003ء: اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر عراق پر فوجی حملہ اور قبضہ۔
2011ء: شام میں سرگرم مسلح دہشت گرد گروہوں کی مالی، انٹیلی جنس و فوجی حمایت۔
2015ء: یمن کے خلاف سعودی جارحیت کی غیر مشروط حمایت۔

مذکورہ بالا اقدامات ایسے چیدہ چیدہ امریکی اقدامات ہیں جو امریکی حکومت کی ریاستی دہشت گردی کا واضح ثبوت ہیں۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ایسی تاریخ کے حامل ملک اور حکومت کو عالمی امن کے بارے میں اظہار خیال کرنے کا کس قدر حق حاصل ہے؟
خبر کا کوڈ : 676925
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش