0
Tuesday 17 Oct 2017 16:10

امریکہ بمقابلہ5+1

امریکہ بمقابلہ5+1
تحریر: ثاقب اکبر

’’یونہی دنیا بدلتی ہے اسی کا نام دنیا ہے"
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عجیب و غریب فیصلوں کے بعد کانوں کے ساتھ اس گیت کا پھر سے ٹکرا جانا کوئی عجیب بات نہیں۔ کیا یہ بھی دن آنے تھے کہ P5+1 بمقابلہ ایران کے بجائے امریکا بمقابلہ 5+1 ہو جائے۔ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ اسے تاریخ کے کس واقعے سے تشبیہ دی جائے، لیکن بہرحال دنیا میں یہ عجیب ہوگیا ہے۔ آج روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی ایران کے ساتھ ایک طرف ہیں اور صدر ٹرمپ کا امریکہ ایک طرف۔ چودہ جولائی 2015ء کو دنیا کی پانچ ویٹو پاورز اور جرمنی نے مل کر ایران کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے، جسے مشترکہ جامع حکمت عملی JCPOA کہا جاتا ہے۔ اسکا مقصد ایران کے جوہری پلان پر کچھ قدغنیں اور محدودیتیں عائد کرکے اس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنا تھا۔ اس معاہدے کو سابق امریکی صدر نے اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ اسے امریکی اداروں کی بھی تائید حاصل رہی ہے۔ سلامتی کونسل کی منظوری سے اس نے ایک عالمی معاہدے کی صورت اختیار کر لی۔ موجودہ امریکی صدر اپنی انتخابی مہم کے وقت سے ہی اسے ایک برا معاہدہ قرار دیتے چلے آرہے ہیں اور آج تک انھوں نے اسے امریکی تاریخ کا بدترین معاہدہ کہنے پر اصرار کیا ہے۔ وہ دو مرتبہ امریکی کانگرس سے یہ کہہ چکے ہیں کہ ایران اس معاہدے پر ٹھیک طریقے سے عمل درآمد کر رہا ہے، لیکن یہی بات امریکی قانون کے مطابق ہر تین ماہ بعد کہنا ہوتی ہے۔ اب جب تین ماہ پورے ہوئے تو امریکی صدر نے اس امر کی تائید کرنے سے انکار کر دیا کہ ایران اس معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے۔

دوسری طرف دنیا کی تمام ایجنسیاں، معاہدے میں شریک دیگر عالمی طاقتیں اور عالمی ادارے تکرار سے یہ بات کہ رہے ہیں کہ ایران معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ عالمی توانائی ایجنسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلسل ایران کے جوہری پروگرام پر نظر رکھے اور سلامتی کونسل کو اس سلسلے میں رپورٹ پیش کرے کہ کیا ایران معاہدے کے مطابق عمل کر رہا ہے یا نہیں۔ معاہدے کے آغاز سے اب تک عالمی توانائی ایجنسی آٹھ مرتبہ یہ رپورٹ پیش کرچکی ہے کہ ایران JCPOA کے تقاضوں کے مطابق اپنے وعدوں پر عمل کر رہا ہے۔ یورپی یونین نے بھی باقاعدہ بار بار یہ بات کہی ہے کہ ایران اپنے معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ یورپی راہنماء صدر ٹرمپ سے کہتے رہے ہیں کہ وہ اس معاہدے کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں۔ برطانیہ جو روایتی طور پر امریکہ سے سب سے زیادہ قریب رہا ہے، اس کی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو فون کرکے اس معاہدے کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ برطانوی وزیر خارجہ نے یہی مشورہ امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن کو دیا۔ البتہ صدر ٹرمپ نے وہی کیا، جس کا یورپی اتحادیوں کو ڈر تھا۔ امریکی قانون کے مطابق اگر صدر اس معاہدے کی تائید نہ کرے تو امریکی کانگریس کو 60 دنوں کے اندر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا امریکہ اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لے اور ایران پر پھر بھاری بھر کم پابندیاں عائد کر دے، جو تاریخی طور پر ایران کے خلاف امریکہ نے عائد کر رکھی تھیں اور جن میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا تھا۔

امریکہ نے اگرچہ ایران کے اس معاہدے پر عمل درآمد کے باوجود بہانے بہانے سے نئی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، تاہم معاہدے کی وجہ سے یورپی اور دیگر ممالک کو ایران کے ساتھ اقتصادی روابط قائم کرنے کے لئے کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے چھ ماہ کے اندر یورپی اداروں اور ممالک نے ایران میں پانچ ارب سے لے کر چھ ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی۔ بعد ازاں یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور آج یورپ، افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا وغیرہ کی ایران میں سرمایہ کاری بہت بڑھ چکی ہے۔ دو طرفہ تجارت کا حجم بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ روس اور چین کے تو پہلے ہی ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم تھے، تاہم اس معاہدے کے بعد ان میں بھی روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ علاقائی ممالک کے ساتھ بھی ایران کی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ ترکی کے ساتھ ایرانی تجارت کا حجم نوے ارب ڈالر تک پہنچانے کا حال ہی میں فیصلہ ہوا ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی ایران کے تجارتی روابط میں برف پگھلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ اگر ایران پر نئے سرے سے اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو اس کا نقصان یکطرفہ نہیں ہوگا بلکہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب جانے کا خدشہ ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ JCPOA سے امریکہ کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن اس کے یورپی اتحادیوں کو فائدہ ہوا ہے۔ ٹرمپ اب یہ بات برداشت نہیں کر پا رہے۔ اسی طرح یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یورپ نے امریکہ کا یرغمال نہ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اس سلسلے میں تازہ ترین صورتحال اس وقت سامنے آئی، جب 16 اکتوبر کو لگسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس جو اپنی حساسیت کی وجہ سے بند کمرے میں کیا گیا، اس کی صدارت یورپی یونین کی فارن پالیسی چیف فیڈریکا موگرینی نے کی۔ اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین عالمی جوہری معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کے لئے پرعزم ہے۔ مزید کہا گیا کہ اس وقت جبکہ شدید جوہری خطرہ موجود ہے، یورپی یونین پرعزم ہے کہ اس معاہدے کو بچائے کہ جو عالمی سطح پر جوہری پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یورپی وزرائے خارجہ اس صورتحال میں شامل سیاسیات کو سمجھتے ہیں۔ ہمارے لئے سب سے اہم یورپیوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ہم اسی بات کو مدنظر رکھیں گے۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اگرچہ ایران کے بلاسٹک میزائل پروگرام پر بھی غور کیا، تاہم اس امر پر زور دیا کہ فوری ضرورت اس تاریخی معاہدے کو بچانے پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہے۔ ان حالات میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ دنیا میں رفتہ رفتہ تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ وہ امریکہ جو ایران کو تنہا کرنے چلا تھا، آج خود تنہائی کی طرف گامزن ہے۔ یورپی یونین کے مختلف راہنماؤں نے ان دنوں میں امریکہ کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے، کچھ عرصہ پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ امریکہ کے مقابل تازہ ترین یورپی فیصلے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یورپ کے اندر خود اعتمادی کی نئی روح پیدا ہو رہی ہے۔ بعض یورپی راہنما پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ یورپ کو نیٹو میں رہنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے اپنے دفاع کے لئے امریکہ سے ہٹ کر کوئی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ ویسے تو ایسی باتیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے پہلے ہی شروع ہوچکی تھیں، مگر ٹرمپ کے آنے کے بعد یورپ میں اس نے ایک اجتماعی شعور کی شکل اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔

اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ پر کچھ عرصہ اور حاکم رہے تو دوریوں کے یہ سلسلے تیز رفتار ہو جائیں گے۔ یہ بات شاید امریکی دانشوروں کے لئے کسی المیہ سے کم نہ ہو کہ اس عالمی جوہری ڈیل کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے نقطہ نظر کی حمایت صرف سعودی عرب اور اسرائیل نے کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس سلسلے میں خود ان کی حکومت کے اہم ترین عہدے داروں نے بھی سمجھانے کی کوشش کی، تاہم اس کا کوئی نقد نتیجہ ہاتھ نہیں آیا۔ امریکی صدر کے ایسے فیصلوں کی ایک وجہ امریکی ماہرین نفسیات کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ایک خطرناک ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ Paranoid and Delusional ہوچکے ہیں۔ ایسا شخص توہماتی ہوتا ہے، جس کے سامنے حقائق آبھی جائیں تو وہ اسے قبول نہیں کرتا اور جسے لگتا ہے کہ لوگ مجھے پسند نہیں کرتے اور کوئی مجھے نقصان پہنچا دے گا۔ اس وقت امریکہ بھر میں ذہنی امراض کے متخصصین اور ماہرین نفسیات ڈونلڈ ٹرمپ کو برخاست کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ امریکہ کو تباہی کی جانب لے جاسکتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک الگ تفصیلی موضوع ہے، تاہم ہم یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ آج امریکہ جتنا دنیا میں تنہا ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ اتنی بڑی فوجی و اقتصادی طاقت کی یہ کسمپرسی اس سے کوئی خطرناک فیصلہ بھی کروا سکتی ہے۔ لہذا اس امر کی ضرورت ہے کہ دنیا کے بڑے سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہوسکے تو امریکہ کو کسی خطرناک فیصلے سے بچائیں، ورنہ اسے روکنے کے لئے دیگر آپشنز پر غور و فکر کریں۔
خبر کا کوڈ : 677280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش