0
Tuesday 17 Oct 2017 18:55

پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی، خدا خیر کرے

پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی، خدا خیر کرے
تحریر: تصور حسین شہزاد

کل تک پاکستان کو دھمکیاں دینے والے امریکہ نے ایک دم پینترا بدل لیا ہے اور ایک دم اتنا "شکرگزار" ہو گیا ہے کہ "میں صدقے، میں واری" جا رہا ہے۔ وہی ٹرمپ جس نے کل پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کا الزام عائد کرکے حملے کی دھمکی دی تھی آج کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے بہت سے محاذوں پر تعاون کے شکرگزار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "خوش خبری" سنا دی ہے کہ پاکستان کیساتھ حقیقی تعلقات کا آغاز کر رہے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کئی محاذوں پر تعاون کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، پاکستان اور اس کے رہنماؤں کیساتھ امریکا کے تعلقات پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ قبل ازیں واشنگٹن میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کئی سال تک امریکا سے فائدہ اٹھایا ہے اور اب اس نے بحیثیت قوم امریکا کا پھرسے احترام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ادھرامریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ کا کہنا ہے کہ شمالی امریکی جوڑے کی افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی قید سے رہائی کے معاملے میں پاکستان کی جانب سے دی جانیوالی اس اہم مدد کو امریکا کبھی نہیں بھولے گا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ نے مقامی میڈیا کو دی جانیوالی بریفنگ کے دوران کہا کہ میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ امریکا، حکومت پاکستان کا بے حد مشکور ہے، کیونکہ ان کی مدد کیے بغیر شمالی امریکی جوڑے کی بازیابی ممکن نہیں ہوتی۔ پاکستان کی اس کوشش پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانیوالی یہ مدد انتہائی اہمیت کی حامل ہے جسے امریکا یقینی طور پر کبھی نہیں بھولے گا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے موثر خارجہ پالیسی اور دہشتگردوں کیخلاف چند تازہ کارروائیوں کے ذریعے امریکا کو کسی حد تک قائل کر لیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن اسلام آباد حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ 2012 میں افغانستان سے اغوا کیے جانیوالے امریکی اور کینڈین جوڑے کی پاکستان کے قبائلی علاقے سے فوجی آپریشن کے بعد باحفاظت بازیابی نے بھی صورتحال تبدیل کرنے میں مدد دی ہے۔ ٹرمپ نے امریکی جوڑے اور ان کے 3 بچوں کی بازیابی پر پاکستان کی تعریف کی۔ امریکا کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ وفد کی سربراہی ٹرمپ کی نائب معاون اور نیشنل سکیورٹی کونسل میں جنوبی ایشیا سے متعلق سینئر ڈائریکٹر لیزا کرٹس نے کی جبکہ قائم مقام نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز بھی شامل تھیں۔

وفد نے پاکستانی سیکرٹری خارجہ تحمینہ جنجوعہ اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں، جن میں افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی پالیسی کے تناظر میں تعلقات کا جائزہ لیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے میں پاکستان کے حوالے سے صرف دو ماہ کے دورانیے میں آنی والی تبدیلی حیران کن ہے۔ امریکا کو بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی کیونکہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے جو کچھ کر رہا ہے اس کا اثر افغانستان پر بھی ہوگا۔ امریکہ ہمیشہ اپنا کام نکل جانے کے بعد دھوکہ دیتا ہے۔ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کیلئے واشنگٹن حکومت کو پاکستان کیخلاف الزام تراشی کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا۔ خواجہ آصف با اثر وزیر خارجہ ثابت ہوئے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی جمود کا شکار تھی لیکن خواجہ آصف نے دورہ امریکا میں اس جمود کو توڑ دیا ہے۔ امریکی کینیڈین جوڑے کی بازیانی پر حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں حکومتی عملداری بحال ہو چکی ہے۔ جیسے ہی امریکی حکام نے انٹیلیجنس کا تبادلہ کیا کہ مغویوں کو پاکستانی علاقے میں منتقل کیا گیا ہے، تو فوری آپریشن کیا گیا۔

امریکی حکام کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ کابل اور گرد و نواح میں داعش کے مراکز قائم ہیں جہاں سے دہشتگرد پاکستان بھیجے جاتے ہیں۔ احسن اقبال کے مطابق مشرقی ہمسایہ ملک افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دراندازی کا باعث بن رہا ہے۔ وزیر خارجہ کے بقول پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، جو امریکہ کیساتھ باعزت تعلقات چاہتا ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات زیادہ اہم ہے، جس کے ثمرات آنیوالے دنوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کو صرف اپنے مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ملا غنی برادر اور ملا فضل اللہ سمیت دیگر مطلوب افراد کی حوالگی کا بھی جلد امکان ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جنوبی ایشیا کیلئے ترجمان ہیلینا وائٹ کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کیخلاف جو کارروائیاں کی ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔ پاکستانی فوج اور عوام کی قربانیوں کو امریکا قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ سرحد کی دونوں جانب دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ ہو۔

پاکستان اور افغانستان کیلیے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کیساتھ دفاعی امور سمیت دیگر سٹریٹیجک معاملات پر مزید ہم آہنگی کا خواہاں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہمیں اپنے اہداف پر نظر رکھتے ہوئے ملکی سالمیت کیخلاف جو قوتیں بھی برسر پیکار ہیں ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔دوسری جانب پاکستان میں سیاسی صورتحال بھی دگرگوں ہے، کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے یہ حقیقت ہے کہ پاک فوج اور سول حکومت کے درمیان محاذ آرائی کی صورتحال ہے۔ طرفین کی جانب سےسوشل میڈیا پر باقاعدہ جنگی صورتحال ہے۔ نواز شریف کسی صورت بھی فوج پر اعتماد کرنے پر تیارنہیں۔ حیرتناک بات یہ ہے کہ نواز شریف کو پاک فوج پر اعتماد نہیں لیکن اسے امریکہ پر اعتماد ہے جس نے کبھی بھی پاکستان کیساتھ وفا نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہی دھوکہ دیا۔ آج بھی فوج پاکستان کی ہے اور کل بھی پاکستان کی ہی تھی۔ مگر نواز شریف فوج کی جانب سے ایک انجانے خوف کا شکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کے امریکہ میں ڈیرے ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ وہاں امریکہ کو اپنی "پکی وفاداری" کی یقین دہانی میں مصروف ہیں، ادھر سے امریکی جوڑے کی طالبان کی قید سے رہائی نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے۔ جس سے پاکستانی حکومت امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ امریکہ کی حقیقت کیا ہے، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔

راقم کا میاں نواز شریف کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے نام نہاد مشیروں کی مشوروں کیساتھ ساتھ خواجہ سعد رفیق کیساتھ بھی ایک نشست کر لیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ وہ کس پر اعتماد کرنے جا رہے ہیں۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نےکھل کر سی پیک منصوبے کی مخالفت شروع کر دی ہے اور اسے خطے کیلئے نقصان دہ قرار دے دیا ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا، یہ مثلت کسی طور پاکستان کو پھلتا پھولتا، ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتی، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس ساری حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود امریکیوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ امریکہ وہ بچھو ہے جس کی فطرت ہی ڈسنا ہے اور ہم ہر بار زخم کھا کر اس زخم کے مندمل ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور زخم مندمل ہوتے ہیں نیا زخم کھانے کیلئے ہاتھ بچھو کے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایک دم موقف میں تبدیلی ایک خطرناک اشارہ ہے۔ امریکہ کی پالیسی ہے کہ دشمن اگر دشمن بن کر ختم نہ ہو رہا ہو تو اسے دوست بن کر ختم کر دینا چاہیے، آج امریکہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکہ نے دھمکی دے کر دیکھ لیا، پاکستان خوفزدہ نہیں ہوا، عالمی برادری نے بھی امریکی موقف کی حمایت نہیں کی۔ اس ناکامی کے بعد اب امریکہ نے پینترا بدل لیا ہے، اب دوست بن کر وہ حملہ آور ہوگا، کھلا دشمن تو واضح ہوتا ہے، اس کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن آستین کے سانپوں سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے، امریکہ کی حالیہ پالیسی سے پاکستان کو تحفظات کا ادراک کرنا ہوگا ورنہ یہ کائناتی حقیقت ہے کہ خدا ان کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت آپ نہیں بدلتے، ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک امریکی دام میں پھنستے رہیں گے۔ کب تک امریکہ ہمیں استعمال کرتا رہے گا، کب تک ہم امریکہ کے غلام بنیں رہیں گے۔ وقت بدل چکا ہے، عالمی سطح پر بہت سے تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں، بلاک بھی بدل رہے ہیں، حالات کے تقاضے بھی بدل چکے ہیں، ہم نے ان بدلتے ہوئے حالات کا ادراک نہ کیا توسوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہاتھ آئے گا۔
خبر کا کوڈ : 677284
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش