0
Wednesday 18 Oct 2017 21:11

پاک افغان سرحدی بحران، پاراچنار پر مرتب ہونیوالے خطرناک نتائج

پاک افغان سرحدی بحران، پاراچنار پر مرتب ہونیوالے خطرناک نتائج
تحریر: روح اللہ طوری

گذشتہ چند دنوں میں کرم ایجنسی کے سرحدی علاقوں میں سرکاری فورسز کے خلاف متواتر کارروائیاں ہوئی ہیں۔ ان واقعات کے بعد سول اور فوجی انتظامیہ کی جانب سے مقامی باشندوں کو تنگ کرنے کی کوششوں کا ایک بلاجواز سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جس کے تحت مقامی لوگوں کی چادر اور چاردیواری کی پامالی تاحال جاری ہے۔ اس حوالے سے عوام نے بالعموم جبکہ عمائدین، مذہبی رہنماؤں اور مختلف تنظیموں نے بالخصوص چپ سادھ رکھی ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہوا یوں کہ کوئی بیس پچیس دن قبل پاک افغان سرحدی علاقے شنہ درگہ کے قریب واقع ایف سی کی ایک چیک پوسٹ کے قریب ایک دھماکے میں تین سرکاری اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعہ کے ردعمل میں قریب واقع اہلیان شنہ درگہ کے گھروں کی تلاشی لی گئی، تلاشی کے دوران گھروں میں موجود معمولی اسلحے کے علاوہ ذاتی استعمال کا گھریلو سامان بھی اٹھا لیا گیا۔ اسکے چند ہی دن بعد یعنی آج سے تقریباً دس دن قبل شورکو کے علاقے میں پاک افغان بارڈر کے قریب ایک سرکاری گاڑی دھماکے کی زد میں آگئی۔ جس سے گاڑی کو تو نقصان پہنچا، تاہم اس میں سوار افراد کو کوئی گزند نہیں پہنچی۔ جسکی وجہ سے اکثر کا خیال ہے کہ دھماکہ کسی نقصان کے لئے نہیں بلکہ علاقے کے لوگوں کو ہراساں کرنے کے لئے کرایا گیا۔ دھماکے کے فوری بعد اسی دن علاقے میں آباد مالی خیل قبائل کے گھروں پر ہلہ بول دیا گیا، گھروں کی تلاشی کے دوران اپنی حفاظت کے لئے رکھی معمولی بندوقوں (کلاشنکوف وغیرہ) کے علاوہ خواتین کا ذاتی سامان اور زیورات کو بھی نہ بخشا گیا۔ یہی نہیں، بلکہ علاقے سے درجن بھر افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

اگلے ہی دن اسکے قریب واقع ولی چینہ کی دوپرزئی قبیلے کے گھروں کی تلاشی لی گئی۔ انکا بھی وہی حشر کیا گیا جو شورکو کے مالی خیل کا کیا جاچکا تھا۔ خیال رہے کہ تقریباً دس ماہ قبل اسی علاقے کے ایک سرکاری محرر سرفراز حسین کو طالبان نے دھوکہ سے بلا کر راستے میں نہایت بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ جس کے ردعمل میں مقامی طالبان نواز قبائل مخی زئی وغیرہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے انہی مقامی طوری قبائل کو نشانہ بنایا گیا۔ یعنی مرا بھی طوری قبیلے کا قیمتی فرد اور الٹا انہی سے اسکی جواب طلبی بھی ہوئی۔ ابھی کوئی تین دن قبل اتوار 15 اکتوبر کو خرلاچی کے ساتھ پاک افغان بارڈر پر کرشیا چیک پوسٹ کی جانب جانے والی ایک سرکاری گاڑی بارودی سرنگ کی زد میں آگئی۔ جس کی مدد کے لئے جیسے ہی ایک اور گاڑی موقعہ پر پہنچی تو وہ بھی دھماکے کی زد میں آگئی۔ دونوں دھماکوں کے نتیجے میں ایک کیپٹن (حسنین) سمیت چھ فوجی اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ واقعہ خرلاچی بنگش کلی کے قریب ہوا، چنانچہ خرلاچی بنگش سے متعدد افراد کی فوری گرفتاری کے علاوہ علاقہ سے مزید افراد کو گرفتار کرنے کے لئے اب بھی مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ان واقعات کے بعد آج کل سوشل میڈیا پر کرم ایجنسی میں فعال القاعدہ اور طالبان نواز گروہ سپاہ صحابہ کی جانب سے بار بار ایسے بیانات آرہے ہیں کہ کرم ایجنسی میں فوری طور پر آپریشن کیا جائے، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی گروہ پاراچنار میں دھماکے کرانے کا اصل ذمہ دار ہے۔ انہی لوگوں نے پاراچنار کے در و دیوار کو بار بار بے گناہ عوام اور معصوم بچوں کے خون سے رنگین کیا ہے۔ ایسے مجرموں کو ایک پرامن علاقے کے حوالے سے اپنی رائے پیش کرنے کا حق کس نے دیا ہے۔؟ بندہ نے اس حوالے سے فون کے ذریعے علاقے کے بااثر افراد سے انکی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی تو انکا اس حوالے سے کچھ یوں کہنا تھا: سراج حسین طوری ایم ایس سی سٹوڈنٹ سے جب پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ یہ تمام تر دھماکے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کئے جا رہے ہیں، تاکہ طوری اقوام کو اسکے لئے مورد الزام ٹھہرایا جاسکے۔ دھماکوں کا ہماری طوری بنگش اقوام سے کیا تعلق ہے۔؟ ملک ضامن حسین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان دھماکوں پر ہمیں بیشک دکھ ہے، تاہم اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ اسکا الزام طوری بنگش قبائل پر لگایا جائے۔ انہوں ںے کہا کہ پوری دنیا میں ہمیشہ حکومت عوام کی چوکیداری کرتی ہے، جبکہ یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ حکومت کی حفاظت یہاں عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

مولانا یوسف حسین کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی ملاقاتوں میں بار بار حکومت پر واضح کیا ہے کہ سرحد کی حفاظت اگر تم سے نہیں ہوسکتی تو ہمیں مناسب اسلحہ دیکر اسے ہم پر چھوڑ دیں، لیکن ایک طرف تو سرکار اسے اپنے لئے باعث عار و ننگ سمجھتی ہے، جبکہ دوسری جانب کسی بھی ناکامی یا نقصان کی صورت میں تمام تر غصہ عوام پر نکالتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ حکومت ہمیں تمام ضروری وسائل فراہم کرکے بلا کسی اجرت کے سرحد کی حفاظت ہمارے ذمہ لگائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال اس مٹی کی جانب ترچھی نظروں سے کیسے دیکھ سکتا ہے۔ علی حسین جس نے فزکس میں ایم ایس سی کی ہوئی ہے، کا کہنا تھا، اس صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر نہیں بلکہ ہم پر ہی عائد ہوتی ہے، کیونکہ ہم خود کئی گروہوں اور پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صوتحال کی سب سے زیادہ ذمہ داری مذہبی اور سیاسی تنظمیوں، علمائے کرام، خصوصاً مرکزی انجمن حسینیہ کے رہنماؤں پیش امام صاحب اور سیکرٹری انجمن حسینیہ نیز تحریک حسینی کے رہنماؤں علامہ عابد حسین الحسینی اور مولانا یوسف حسین پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ذمہ دار لوگوں نے مذھبی مقامات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ کسی کو اپنی طرف کبھی آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ نہ ہی خود ٹس سے مس ہوتے ہیں۔ انہوں نے مرکز اور تحریک حسینی اور انکے رہنماؤں کی خاموشی کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ سید سردار حسین غنڈیخیل کا کہنا تھا کہ کرم ایجنسی کے موجودہ حالات میں ہماری تنظیموں خصوصاً مرکز اور تحریک حسینی کو فوری طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہئے، کیونکہ پاراچنار کے حوالے سے حکمرانوں کی پالیسی نہایت خطرناک دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل پاراچنار میں مسلسل دھماکے کرائے گئے، پھر ریڈ زون کا قیام، خاردار تاروں اور خندقوں سے شہر کا محاصرہ کرنا وغیرہ، یہ سب کچھ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان تمام افراد کی رائے اور موقف کو دیکھ کر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاراچنار ایک خطرناک بحران کی زد میں ہے۔ جس سے نمٹنے کے لئے باہمی اتفاق و اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 677524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش