1
0
Saturday 21 Oct 2017 17:16

پاکستانی زائرین کی مشکلات اور انکا ممکنہ راہِ حل!

پاکستانی زائرین کی مشکلات اور انکا ممکنہ راہِ حل!
رپورٹ: نوید حیدر

پاکستان بھر سے سالانہ ہزاروں کی تعداد میں زائرین گرامی آئمہ معصومین (علیہم السلام) کی زیارات مقدسہ کا شرف حاصل کرنے کے لئے ایران و عراق کی جانب سفر کرتے ہیں۔ ان زائرین گرامی میں سے بعض ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ بعض زمینی راستوں سے بسوں کے ذریعے ایران و عراق کی جانب جاتے ہیں، چونکہ پاک ایران بارڈر صوبہ بلوچستان سے منسلک ہے، اسی وجہ سے زمینی سفر کرنے والے زائرین گرامی تفتان بارڈر تک پہنچنے سے پہلے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے ہوتے ہوئے ضرور جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے کوئٹہ کو باب الرضا (ع) ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس سے قبل جب امن و امان کے حوالے سے پورے پاکستان میں حالات معمول پر تھے تو ان زائرین کو کوئٹہ سے تفتان شہر تک آنے اور جانے کیلئے کسی قسم کی سکیورٹی کانوائے لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بالعموم پاکستان اور بالخصوص کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات بڑھنے لگے تو امن و امان کی اس مخدوش صورتحال نے زائرین کی نقل و حرکت کو بھی متاثر کیا۔ 20 نومبر 2011ء کو پہلی مرتبہ کوئٹہ سے ایران کی جانب زیارت کیلئے جانے والے شیعہ ہزارہ زائرین گرامی کو مستونگ میں مسافر بس سے اتار کر تکفیری دہشتگردوں نے شناختی کارڈ چیک کرکے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ اسی دن کے بعد زائرین پر تواتر کیساتھ کوئٹہ-تفتان روٹ پر دہشتگرد حملہ آور ہوتے رہے۔ کبھی زائرین کو ریمورٹ کنڑول بم سے نشانہ بنایا جاتا، تو کبھی خودکش حملہ آور زائرین کی بسوں کو دہشتگردی کا نشانہ بناتے۔ ان واقعات کے تسلسل و تناظر میں اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری علی نثار خان نے 2014ء میں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کوئٹہ-تفتان روٹ پر زمینی سفر کو شیعہ زائرین کے لئے ممنوع قرار دیا، جسکے بعد چھ سے آٹھ مہینے تک یہ راستہ زائرین کے لئے بند رہا۔

زائرین کے زمینی راستے کی بندش کیخلاف کوئٹہ کی سیاسی و مذہبی تنظیموں نے مشترکہ نشست کی۔ مذکورہ نشست میں یہ فیصلہ ہوا کہ تمام مقامی تنظیمیں اور جماعتیں مل کر کوئٹہ-تفتان روٹ کو زائرین کے لئے دوبارہ کھلوانے کیلئے اقدامات اٹھائینگی۔ لیکن بعدازاں زائرین کے تمام تر معاملات بلوچستان شیعہ کانفرنس کے حوالے کئے گئے۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس ایک سماجی مذہبی تنظیم ہے، جسکی ذمہ داری بلوچستان میں اہل تشیع کی تمام تر مذہبی تقاریب کی انتظامی سرگرمیوں کو نبھانے کی ہے۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس کو وجود میں آئے ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ یعنی قیام پاکستان سے قبل بھی یہ تنظیم موجود تھی۔ بہرحال جنرل سیکرٹری بلوچستان شیعہ کانفرنس حاجی محمد جواد رفیعی کے بقول بعدازاں کوئٹہ کے قافلہ سالاروں نے بلوچستان شیعہ کانفرنس سے گزارش کی کہ وہ زائرین سے متعلق تمام امور کی ذمہ داری نبھائے۔ اسی لئے بلوچستان شیعہ کانفرنس نے اس حوالے سے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا اور وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف آف آرمی اسٹاف، وزیراعلٰی بلوچستان اور کمانڈر سدرن کمانڈ کو اس حوالے سے درخواستیں بھیجی۔ اسوقت کے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے سال 2014ء کے درمیان میں بلوچستان شیعہ کانفرنس کے اکابرین کیساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کروائے اور زائرین کے لئے کوئٹہ-تفتان روٹ پر سکیورٹی کانوائے کی باقاعدہ منظوری دے دی۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ زائرین کو بم ڈسپوزل اسکواڈ، جیمرز سے لیس گاڑیوں کے ہمراہ کوئٹہ سے لیکر تفتان بارڈر تک وی وی آئی پی سکیورٹی کانوائے فراہم کی جائے گی۔ یعنی اس سکیورٹی کانوائے کے روٹ میں کمشنر کی گاڑی کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس وقت فیصلہ ہوا تھا کہ زائرین گرامی کو ہر بار 15 بسوں پر مشتمل مہینے میں تین مرتبہ سکیورٹی کانوائے فراہم کی جائے گی۔

ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد صوبائی حکومت نے درخواست کی کہ چونکہ ہر سکیورٹی کانوائے پر لاکھوں روپے کے اخراجات آتے ہیں، لہذا اسکی تعداد میں کمی لائی جائے۔ 17 اکتوبر 2015ء کو بلوچستان حکومت اور عسکری قیادت کیساتھ بلوچستان شیعہ کانفرنس کی دوبارہ میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں شیعہ کانفرنس کے اکابرین کو کہا گیا کہ یا تو آپ پورے پاکستان سے آنے والے زائرین کی سرپرستی کرتے ہوئے انکی ذمہ داری لیں یا بلوچستان کی حکومت صرف اسی صوبے کے زائرین کو زمینی سکیورٹی سمیت بارہ ہزار روپے فی کس ٹکٹ کے حساب سے ہوائی جہاز کی سفری سہولیات بھی فراہم کرے گی۔ یعنی بلوچستان حکومت نے دیگر صوبوں سے آنے والے زائرین کو سکیورٹی کانوائے فراہم نہ کرنے کا عندیہ دیا، لیکن بلوچستان شیعہ کانفرنس نے اس پیشکش کو ماننے سے مکمل انکار کر دیا۔ البتہ بلوچستان شیعہ کانفرنس کی جانب سے پورے پاکستان سے آنے والے زائرین کی آمد و رفت کی ذمہ داری کو قبول کرنے کی حامی بھری گئی، جس کے بعد زائرین کے کانوائے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ اسی لئے بلوچستان شیعہ کانفرنس کے اکابرین کیساتھ گفت و شنید کرکے اب کی بار 30 بسوں پر مشتمل مہینے میں دو مرتبہ سکیورٹی کانوائے فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، یعنی جاتے وقت اور واپسی پر بھی سکیورٹی کانوائے کیلئے اگر بسوں کی تعداد 30 سے کم ہوگی تو پھر زائرین کو مزید بسوں کے مکمل ہونے تک انتظار کرنا پڑیگا۔ اس وقت زائرین کے معاملے میں بنیادی طور پر تین کردار اہمیت کے حامل ہیں۔ جن میں بلوچستان شیعہ کانفرنس، بلوچستان کی صوبائی حکومت و انتظامیہ اور قافلہ سالاران شامل ہیں۔ مہینہ وار سکیورٹی کانوائے کے شیڈول کو جس طرح اوپر بیان کیا گیا، اکثر اس میں بدنظمی کی وجہ سے زائرین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بلوچستان حکومت کے قوانین کے مطابق سکیورٹی کانوائے کی لسٹ میں کسی بھی بس کو شامل ہونے کیلئے کم از کم دس دن پہلے اپنے مسافروں کے ویزوں کی کاپیاں اور دیگر دستاویزات کو بلوچستان شیعہ کانفرنس کو جمع کروانا پڑتی ہیں۔ اسی طرح جب 30 بسوں کا قافلہ بن جاتا ہے تو ہر مہینے کی یکم اور 15 تاریخ میں زائرین کو سکیورٹی کانوائے کے ذریعے تفتان تک لے جایا جاتا ہے۔ یہی ترتیب تفتان بارڈر سے واپس آنے کیلئے بھی ہے، کیونکہ سکیورٹی فورسز کے جیمرز محض 30 بسوں کے قافلے کو ہی تحفظ فراہم کرسکتے ہیں، لہذا اس سے زائد بسوں کی گنجائش ایک کانوائے میں نہیں رکھی گئی۔ اس مشکل سے بچنے کے لئے قافلہ سالاروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسافر جمع کرنے کی دوڑ میں پڑنے کی بجائے قناعت کا دامن تھامیں اور ہمیشہ جلد از جلد مسافروں کے ویزے حاصل کرکے سکیورٹی کانوائے کی لسٹ میں‌ اپنا اندراج کروائیں۔ اس عمل سے ایران جاتے وقت زیادہ دنوں تک زائرین کو کوئٹہ میں بیٹھانا نہیں پڑے گا۔ اسی طرح واپسی پر بھی سکیورٹی کانوائے کی حتمی تاریخ اور بسوں کی تعداد کو معلوم کرنے کے بعد ہی تفتان میں داخل ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ زائرین کو تفتان میں بھی زیادہ انتظار نہ کروانا پڑے۔ لیکن یاد رہے کہ سکیورٹی کانوائے کی مذکورہ تعداد عاشورہ اور اربعین کے موقع پر انتہائی کم پڑ جاتی ہے۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس کے مطابق گذشتہ سال یکم جنوری 2016ء سے لیکر 31 دسمبر 2016ء تک 1052 بسوں پر مشتمل کل 51218 زائرین گرامی تفتان کے راستے ایران گئے۔ جن میں عاشورہ کے موقع پر 236 بسوں کے ذریعے 11363 زائرین اور اربعین کے موقع پر 382 بسوں کے ذریعے 19566 زائرین نے ایران و عراق کا سفر کیا۔ اسی طرح واپسی میں 1299 بسیں 55757 زائرین کو لیکر واپس پاکستان آئیں۔ یعنی 20 فیصد زائرین سکیورٹی کانوائے کے بغیر ایران میں کیسے داخل ہوئے، یہ ابھی تک ایک الگ معمہ ہے، لیکن اس اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محرم الحرام اور سفر کے مہینے میں زائرین کی تعداد میں ساٹھ سے ستر فیصد تک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

اسی وجہ سے عاشورہ اور اربعین کے موقع پر زائرین کی آمد و رفت کا مسئلہ ملک بھر کے ٹی وی چینلز کی شہ سرخیوں پر نمایاں ہوتا ہے۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس کیساتھ ہونے والی حکومتی قرارداد کے مطابق محرم الحرام اور صفر کے مہینے میں‌ سکیورٹی کانوائے کی تعداد میں اضافے کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا، لیکن بدقسمتی سے ہر سال عاشورہ اور اربعین کے موقع پر حکومت زائرین کی اضافی تعداد کے مطابق سکیورٹی کانوائے فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ ان ایام میں بلاشبہ اگر پاکستان کی حکومت اور ریاست کو براہ راست قصور وار ٹہرایا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ انہیں چاہیئے کہ محرم الحرام اور صفر کے مہینوں میں اپنی استعداد کار کو بڑھاتے ہوئے ہر کانوائے میں 30 کی بجائے 60 بسوں کی گنجائش رکھ کر مہینہ وار کم از کم دس سکیورٹی کانوائے کا انتظام کریں، جبکہ یہی ترتیب زیارات سے واپس آنے والے زائرین کیلئے بھی ہونی چاہیئے۔ قافلہ سالاروں اور حکومت و ریاست کی طرح بلوچستان شیعہ کانفرنس پر بھی بعض عوامی حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، جن میں سرفہرست زائرین ویلفیئر فنڈ کے نام سے فلاحی پروجیکٹ کا اجراء ہے۔ اس حوالے سے جب بلوچستان شیعہ کانفرنس کے نمائندے سے وضاحت مانگی گئی تو انکا کہنا تھا کہ دیگر صوبوں سے آنے والے قافلہ سالاروں کو بلوچستان کے لوکل ٹرانسپورٹ والے تفتان بارڈر تک فی کس 2200 روپے کے حساب سے لے جایا کرتے تھے، جسے بلوچستان شیعہ کانفرنس کی کوششوں سے کم کرکے 1200 روپے فی کس مقرر کیا گیا۔ علاوہ ازیں ایران میں داخل ہونے کیلئے ہر بس کو "پایان مرزی" کے نام سے دس ہزار روپے میں درخواست لینا پڑتی تھی، ان کی جانب سے اس شرط کو بھی بعدازاں ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح بسوں کی کارنیٹ فیس کی قیمت 35 ہزار روپے سے کم کرکے 25 ہزار روپے تک لائی گئی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس حوالے سے بلوچستان شیعہ کانفرنس کی کاوشوں کو سراہا نہیں گیا۔

زائرین ویلفیئر فنڈ کے حوالے سے انکا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان شیعہ کانفرنس کی جانب سے نومبر 2015ء کے بعد زائرین کی خدمت کیلئے اس فلاحی پروجیکٹ کا اجراء ہوا۔ جس میں قافلہ سالاروں سے پانچ ہزار روپے فی بس جمع کئے جاتے تھے۔ مذکورہ فنڈ کی تفصیلات بتاتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ زائرین فنڈ کی مد میں سال 2015ء میں 765000 روپے جمع ہوئے اور 48360 کے اخراجات ہوئے۔ 2016ء میں 4719000 روپے جمع ہوئے اور 3728611 روپے کے اخراجات ہوئے، جبکہ مارچ 2017ء میں 800000 روپے جمع ہوئے اور 127000 کے اخراجات ہوئے۔ لہذا اسوقت تینوں سال میں اس فنڈ سے کل 2380029 روپے کی بچت ہوئی ہے، جبکہ نومبر 2017ء سے بلوچستان شیعہ کانفرنس نے اس فنڈ کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی آئندہ قافلہ سالاروں کو پانچ ہزار روپیہ فی بس دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ زائرین کو اوپر بیان کئے گئے نقاط کے علاوہ بلاشبہ اور بھی مسائل درپیش ہونگے، جسکی جانب ہمارے قارئین ہمیں توجہ دلا سکتے ہیں، لیکن ایک بات پر شاید ہم سب متفق ہیں کہ زائرین کے اتنے بڑے سیٹ اپ کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے قومی سطح پر ایک مشترکہ میکینزم تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جس میں پاکستان کی تمام بڑی شیعہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے عہدیداران کی موجودگی ہو اور وہ وفاقی و صوبائی سطح پر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، تاکہ زائرین کی بہتر طریقے سے خدمت کو یقینی بنایا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 678215
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
یه سب کهیل سیکورٹی کے نام پر صرف اور صرف زائرین کی لوٹ مار کرنے کے لئے رچایا گیا، ورنه کرایه کوئٹہ سے تفتان تک آٹه یا سات سو روپے فی کس ہے، جبکه یهی جماعت اب فی کس کرایه تین سے چار هزار روپیه لے رهی ہے۔ شیعه قوم کو بی وقوف بنا کر صرف ذلیل اور رسوا کیا جا رها ہے اور لوٹا جا رها هے۔ خدا کا خوف کرو اور یه ظلم بند کرو!
ہماری پیشکش