0
Sunday 22 Oct 2017 11:14

سعودی عرب سیکولرازم کی جانب گامزن

سعودی عرب سیکولرازم کی جانب گامزن
تحریر: داود احمد زادہ

سعودی عرب میں نئے فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز کے حکمفرما ہونے کے بعد وسیع پیمانے پر سیاسی تبدیلیوں اور ان کی جانب سے اپنے 30 سالہ جوان بیٹے محمد بن سلمان کو ولیعہد بنائے جانے کی کوششوں کے نتیجے میں یہ ملک گہری تبدیلیوں کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ نئے ولیعہد محمد بن سلمان کے جانب سے سدیری قبیلے سے تعلق نہ رکھنے والے تمام افراد کو ملک کے اہم عہدوں سے برطرف کرنا تھی تاکہ اس طرح وہ ملکی سیاست پر قابض روایتی سیاستدانوں کے اثرورسوخ سے آزاد ہو کر اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر نئی پالیسیاں وضع کر کے انہیں عملی جامہ پہنا سکیں۔ العربیہ نیوز نیٹ ورک سے اقتصادی اصلاحات اور انسانی حقوق خاص طور پر خواتین سے متعلق پالیسیوں کے بارے میں محمد بن سلمان کے انٹرویو پر مختلف قسم کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں اس وقت سعودی معیشت مکمل طور پر خام تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والی درآمد پر منحصر ہے لہذا محمد بن سلمان نے 2030ء تک اپنے منصوبے کے تحت اعلان کیا تھا کہ اس دوران تیل کی درآمد پر ملکی معیشت کے انحصار کو کم ترین سطح پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔

بعض ماہرین نے محمد بن سلمان کی جانب سے اعلان کردہ اقتصادی اصلاحات کو جلدبازی اور حقائق سے غفلت پر مبنی قرار دیا ہے۔ درحقیقت محمد بن سلمان کے پیش کردہ منصوبے کا سعودی عرب کے سماجی ڈھانچے سے منطبق نہ ہونا اور اسے عملی شکل دینے کیلئے ضروری مقدمات فراہم نہ ہونا اس کی راہ میں اصلی ترین رکاوٹیں قرار دی جا رہی ہیں۔ اسی طرح محمد بن سلمان نے العربیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آرامکو آئل کمپنی کے حصص فروخت کر کے اور مصر کے تعاون سے بیرونی ممالک خاص طور پر یورپ سے آنے والے سیاحوں کا سعودی عرب سفر کی راہ میں رکاوٹیں برطرف کر کے کروڑوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کو یقینی بنائیں گے جو ملک کی معیشت مضبوط ہونے کا باعث بنے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق سے متعلق بھی محدود اصلاحات انجام دے کر خطے میں سعودی عرب کو مثالی ملک بنا ڈالیں گے۔

سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے ملک میں اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کے اعلان کی اصلی وجوہات کے بارے میں مختلف قسم کے تجزیئے سامنے آ رہے ہیں۔ بعض ماہرین کی رائے ہے کہ سعودی عرب کے روایتی معاشرے میں جس کا مرکز و محور ریڈیکل وہابیت تشکیل دیتی ہے جو مرد کی حاکمیت پر استوار ہے، سیاسی آگاہیوں میں اضافہ اور خواتین کی سماجی حیثیت میں ترقی سعودی حکام کی جانب سے بعض اصلاحات اور خواتین کے حقوق کی بحالی جیسے اقدامات کا باعث بنی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دیا جاتا ہے بلکہ انہیں فتوی دینے کا اختیار بھی سونپ دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی آبادی میں جوانوں کے تناسب اور اس روایتی اور قبائلی معاشرے میں شادی سے متعلق جوانوں کو درپیش مسائل کے پیش نظر سعودی پڑھے لکھے جوان اس حق میں ہیں کہ خواتین کو بھی تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کا موقع فراہم ہونا چاہئے تاکہ وہ غیر ملکی خواتین سے شادی کرنے پر مجبور نہ ہوں۔

دوسری طرف بعض ماہرین اس عقیدے کے حامل ہیں کہ یمن، شام اور عراق میں مسلسل ناکامیوں کے بعد سعودی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کے اندر اصلاحات کا عمل ضروری ہے تاکہ اس طرح عالمی سطح پر انجام پانے والے فیصلوں میں بہتری آ سکے۔ لہذا محمد بن سلمان نے سیاست کے میدان سے اپنے مخالفین کو نکال باہر کرنے کیلئے اندرونی اور بیرونی سطح پر اصلاحات انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بارے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2030ء پیکج کے تحت انجام پانے والی اصلاحات کا انجام کیا ہو گا؟ اکثر ماہرین کی رائے ہے کہ یہ اصلاحات عمل کے میدان میں درج ذیل رکاوٹوں سے روبرو ہوں گی:

1۔ سعودی حکام کے درمیان 2030ء منصوبے کے بارے میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اور ملک کے اہم معاملات کے بارے میں فیصلہ کرنے والی قوتیں اس منصوبے کی مختلف شقوں پر ایکدوسرے سے متفق نہیں۔ اکثر سعودی شہزادے ملک سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نامحدود اختیارات سونپ دیئے جانے پر ناراضی ہیں اور اسے سیاست کی دنیا میں ایک ایسی نئی بدعت قرار دیتے ہیں جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے کا فقدان اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔

2۔ کسی بھی معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں لانے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر طویل المیعاد اقدامات کی ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا منصوبے میں خام تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدن پر سعودی عرب کا انحصار ختم کرنے کیلئے صرف 15 برس کا عرصہ مدنظر قرار دیا گیا ہے جو ایک ناممکن امر ہے۔ درحقیقت بین الاقوامی مارکیٹ میں تجارت کیلئے ضروری بنیادی مراکز اور ادارے ابھی تک سعودی عرب میں موجود نہیں جبکہ دوسری طرف خام تیل کی پیداوار کے ذریعے عوام کو مہیا کی جانے والی سہولیات ختم کرنے کے انتہائی منفی اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔ لہذا اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ منصوبہ صرف زبانی کلامی حد تک ہی اچھا اور خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔

3۔ کسی بھی ملک میں اقتصادی ترقی کیلئے بعض مقدماتی اقدامات کا انجام دینا ضروری ہے۔ سعودی عرب کا روایتی معاشرہ اقتصادی اور سیاسی ترقی کی ثقافت سے بہت دور ہے۔ اس ملک کا انفرااسٹرکچر روایتی بنیادوں پر استوار ہے جسے جدید بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے کئی عشروں کا وقت درکار ہے۔ لہذا مستقبل میں اس منصوبے پر حد سے زیادہ اصرار سعودی حکام کے درمیان موجود اختلافات کی شدت میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

4۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نئے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اربوں ڈالر کی درآمدات اور وسیع سفارتی تعلقات کا حامل ملک ہے۔ لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ایک بنیادی اختلاف یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات چند قومیتی ملک ہے جس کی آبادی کا 80 فیصد حصہ غیر ملکی مہاجرین خاص طور پر پاکستان اور انڈیا سے آئے افراد پر مشتمل ہے۔ جبکہ سعودی عرب کی آبادی زیادہ تر مقامی افراد پر مشتمل ہے جن کی ثقافت قبائلی روایات پر استوار ہے۔ دوسری طرف جدید سائنسی دور کے تقاضوں کے مطابق ملک میں اقتصادی اور سیاسی ترقی کیلئے سعودی عرب کے پاس مناسب افرادی قوت بھی موجود نہیں۔

مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ محمد بن سلمان کی جانب سے اعلان کردہ اصلاحات درحقیقت مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی جانب سے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ ان اصلاحات کا بنیادی مقصد سعودی عرب کو مکمل طور پر سیکولر ملک میں تبدیل کرنا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں اہم عرب ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن کو سیکولرازم کی جانب لے جانے کی پالیسی پر گامزن ہیں تاکہ ان کے بقول اسلامی شدت پسندی کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اپنے ملک میں اس مغربی منصوبے کے اجرا میں بے شمار اندرونی مخالفتوں اور رکاوٹوں سے روبرو ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 678370
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش