0
Sunday 22 Oct 2017 12:28

سوشل میڈیا۔۔۔ بھڑاس نکلنے دیں

سوشل میڈیا۔۔۔ بھڑاس نکلنے دیں
تحریر: ابو فجر لاہوری

سوشل میڈیا کے آنے سے بہت سے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کہ اب دل کی بات کہہ سکیں گے، عام میڈیا جو مصلحت پسندی کا شکار ہو کر بہت سی "خبریں" گول کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا ایک اچھا ذریعہ ابلاغ اس لئے بھی ہے کہ اس سے معاشرے میں امن رہتا ہے، لوگ اپنی بھڑاس سوشل میڈیا پر ہی نکال لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تو پھر یہ بھڑاس سینوں میں ہی لاوا بن کر پکتی رہے گی اور اس کے نتائج حکومتوں کیلئے خطرناک ثابت ہوں گے، کیونکہ لاوا جب پھٹتا ہے تو سب کچھ بہا کر ساتھ لے جاتا ہے۔ اب حکومت نے اسے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے سدباب کا منصوبہ بنایا ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ سوشل میڈیا پر انتہاء پسندی، خلفشار اور انتشار پھیلانے والے عناصر کی روک تھام کیلئے ادارہ موثر اقدامات کرے۔ احسن اقبال کے بقول ملک دشمن قوتیں سوشل میڈیا کو آلہ بنا کر معاشرے میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔ وزیر داخلہ نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے متحرک کردار ادا کرے۔

پاکستان میں حال ہی میں سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر بحث کرنیوالوں کیخلاف کارروائی دیکھی گئی ہے اور رواں ہفتے ہی انٹرنیٹ حقوق کے صارفین کیلئے کام کرنیوالی 2 غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی ایک جائزہ رپورٹ میں کہا تھا کہ گذشتہ 4 برسوں کے دوران پاکستانی حکومت نے مبینہ طور پر 200 سے زائد ویب سائیٹس بلاک کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ان میں وہ ویب سائٹس بھی شامل تھیں، جن کے بارے میں حکام کے مطابق ایسا مواد موجود تھا، جو مبینہ طور پر توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کیلئے کام کرنیوالی ایک غیر سرکاری تنظیم "بائٹس فار آل" سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کا حالیہ بیان باعث تشویش ہے، کیونکہ اس سے وہ افراد بھی زد میں آجاتے ہیں، جو کسی بھی طور ملک دشمن تو نہیں، لیکن وہ بعض ملکی معاملات پر بحث ضرور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پُرتشدد انتہا پسندوں کیخلاف کون ایکشن نہیں چاہتا، لیکن ماضی میں بہت مرتبہ ایسے ہوا ہے کہ وہ لوگ جو کہ حکومت سے صرف اختلاف رکھتے ہیں یا پھر وہ کسی بھی قسم کی بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں تک کہ کسی نے اگر سی پیک پر اعتراض اٹھایا تو اس کو ریاست مخالف اور پتہ نہیں کیا کیا القابات سے نواز کر دھمکایا جاتا ہے۔ مبہم اور غیر واضح بیانات سے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔

یہ اب اس طرح کی غیر واضح اور مبہم بیانات کا دور نہیں رہا کہ آپ جو کچھ بول دیں۔ بہت سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیئے۔ پاکستان میں رواں سال کے اوائل میں سوشل میڈیا پر سرگرم 5 بلاگرز لاپتہ ہوگئے تھے، جو بعد میں اپنے گھروں کو واپس تو آ گئے لیکن سماجی میڈیا پر سرگرم بہت سے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بلاگرز کے لاپتہ ہونے کے بعد آن لائن رائے کا اظہار کرنیوالے خوف کا شکار ہوئے ہیں۔ حکومت میں شامل عہدیدار کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی رائے کا اظہار کرنیوالوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی اور صرف اْن عناصر پر نظر رکھی جاتی ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے بے چینی پیدا یا شدت پسندی کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صرف شوسل میڈیا ہی کیوں سڑکوں پر انتہا پسندی کے ذریعے انتشار اور نفرت پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ صرف اس لئے کہ وہ منظم گروہ اور طاقت رکھتے ہیں؟ حکومت کو اس دوغلی پالیسی سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 678381
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش