6
0
Sunday 22 Oct 2017 16:58

حماس، مفاہمت کیساتھ مقاومت کی راہ پر؟

حماس، مفاہمت کیساتھ مقاومت کی راہ پر؟
تحریر: عرفان علی

بارہ اکتوبر 2017ء کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں فلسطینی انتظامیہ کی حکمران جماعت الفتح اور غزہ میں قائم حماس کے مابین مفاہمتی معاہدہ طے پایا، جس کے لئے ماہ ستمبر کے اواخر سے طرفین کے مابین مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔ دوسری جانب مغربی کنارے اور غزہ میں محنت کش اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے کارکنان سڑکوں پر تھے، جو حماس اور الفتح کے قائدین سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ہر صورت میں مفاہمت کا معاہدہ ہو جانا چاہیے۔ قاہرہ میں طے پانے والے مفاہمتی معاہدے کے مطابق غزہ پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں گی، یعنی غزہ میں مقیم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی ممکن بنائی جائے گی، اب اسے روزانہ بجلی کی طویل ترین لوڈ شیڈنگ سے نجات بھی دی جائے گی اور یہ کام فلسطینی انتظامیہ کے ذمے ہے۔ بدلے میں غزہ سے مصر کو ملانے والی سرحدی گذرگاہ رفحہ کو فلسطینی انتظامیہ کے کنٹرول میں دے کر کھول دیا جائے گا، چونکہ یہاں حماس کا کنٹرول ہے، اس لئے یہ کام حماس کے ذمے ہے۔ رفحہ سرحدی گذرگاہ مصر نے اپنی جانب سے بھی بند کر رکھی تھی، کیونکہ مصر وادی سیناء میں داعش سے برسر پیکار ہے، اس کے باوجود مصر کو شکایت تھی کہ غزہ سے اسلحہ اسمگل ہوکر داعش تک پہنچ رہا ہے۔ یوں رفحہ سرحدی گذرگاہ پر فلسطینی انتظامیہ کے کنٹرول سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ زمینی راستے سے فلسطینیوں کو مطلوب اشیاء کی فوری درآمدات بھی ممکن ہو جائے گی اور بیرونی دنیا کے سفر کے لئے فلسطینی اسرائیل کے محتاج نہیں رہیں گے۔ مصر کے پیش نظر مفاد یہ ہے کہ فلسطینی انتظامیہ اگر رفحہ کا کنٹرول سنبھالے گی تو شاید اسلحہ کی اسمگلنگ رک جائے۔

اس مفاہمتی معاہدے میں بہت سے اہم مسائل پر بات ہونا باقی ہے اور وہ حل طلب مسائل ہیں حماس کے پچیس ہزار فائٹرز، انکا اسلحہ اور انکی سرنگوں کا نیٹ ورک! امریکہ اور جعلی ریاست اسرائیل کو ان مسائل کے حل سے دلچسپی ہے، جبکہ فلسطینی انتظامیہ ان دونوں کے آگے بے بس ایک کمزور یونین کاؤنسل کی سطح کی سرکار! جہاں تک امریکہ و نسل پرست دہشت گرد جعلی ریاست اسرائیل کی بات ہے تو انکا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حماس اسرائیل جعلی وجود کو اصلی اور قانونی وجود کی حیثیت سے قبول کرلے۔ 19 اکتوبر کو ٹرمپ حکومت کے اہم عہدیدار جیسن ڈی گرین بلیٹ نے قاہرہ کا دورہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے بھی امریکی مطالبات دہرائے ہیں کہ فلسطینی حکومت واضح طور پر عدم تشدد، پرامن مذاکرات، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ماضی میں جو طے پائے ہیں ان معاہدوں اور ان میں ذکر کئے گئے فرائض کو انجام دینے کا عہد کرے۔ یاد رہے کہ ان مسلط کردہ فرائض میں سے ایک ’’دہشت گردوں‘‘ کو غیر مسلح کرنا ہے اور جب امریکی و اسرائیلی لفظ دہشت گرد استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد سرفہرست حماس ہوتی ہے۔ جیسن گرین بلیٹ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مفاہمتی معاہدے کے بعد اگر محمود عباس کی فلسطینی حکومت، حماس کو حکومت میں کوئی کردار دینا چاہتی ہے تو حماس سے مذکورہ شرائط (فرائض) کی تعمیل کروائے۔ غزہ کی پٹی جو کہ بیس لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل فلسطین کا اہم علاقہ ہے، اس کے بارے میں اقوام متحدہ اور انسانی امداد کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً خبردار کرتی رہی ہیں کہ یہاں انسانی بحران اور صحت کا بحران جنم لے رہا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور روزانہ کی بنیاد پر کئی گھنٹوں تک بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے غزہ کی گلیاں اور سڑکیں سیوریج کے غلیظ پانی سے بھر جایا کرتی تھیں اور اس کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بیماریاں پھیلیں۔ لیکن بے رحم صہیونی حکومت ان مسائل کا حل نہیں چاہتی بلکہ اس کے پیش نظر فلسطینیوں کی صحت سے زیادہ ان آبی پودوں کی حفاظت ہے جو بحر متوسط (بحیرہ روم) کی اس ساحلی پٹی پر اگے ہیں، جو جعلی ریاست اسرائیل کے کنٹرول میں ہے اور غزہ سے سیوریج کا پانی چھوڑنے کی وجہ سے یہ آبی پودے تباہ ہو رہے ہیں۔

اس تازہ ترین صورتحال پر میری رائے یہ ہے کہ حل طلب مسئلہ فلسطین کے براہ راست فریق یعنی حماس و الفتح و جعلی ریاست اسرائیل، تینوں ہی فیس ویلیو (یا فیس سیونگ) میں مصروف ہیں۔ صہیونی حکومت کہتی ہے کہ دہشت گردوں سے معاہدہ نہیں کریں گے، لیکن یہ بیان بھی بہت پرانا ہے اور یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کو بھی صہیونی حکومت نے دہشت گرد کہا اور نہ صرف مذاکرات بلکہ معاہدے بھی کئے۔ حماس سے قیدیوں کے تبادلے کی حد تک مذاکرات و اتفاق کیا، لیکن ضرورت پڑنے پر یہ مکار صہیونی حکمران حماس سے بھی اسی طرح معاہدے کریں گے، جیسے یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین سے کئے۔ حماس نے غیر مسلح ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ حماس آج بھی دو ریاستی حل کی قائل نہیں ہے، البتہ مئی میں جو نیا منشور انہوں نے جاری کیا، اس میں عبوری فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں، لیکن وہ آزادی فلسطین کے دعوے سے اعلانیہ دستبردار نہیں ہوئے۔ حماس کی الفتح سے جو مفاہمت ہوئی ہے، وہ اس طرح کی مفاہمت نہیں ہے، جیسی حزب اللہ لبنان میں کرتی ہے۔ لبنان کی حکومت میں حزب اللہ کو ویٹو پاور حاصل ہوتی ہے اور اسی کے پیش نظر امریکہ و اسرائیل کی خواہشات کے تحت محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ نے غزہ میں کام کرنے کے لئے ایسے افراد وزراء کی حیثیت سے کابینہ میں لئے ہیں، جو ٹیکنوکریٹس ہیں اور حماس کے رکن نہیں ہیں، کیونکہ اس پر امریکہ اور جعلی ریاست اسرائیل کو اعتراض نہیں ہے۔ حماس نے بھی اس قومی اتفاق رائے والی حکومت کو قبول کر لیا ہے۔ البتہ ایک واضح تبدیلی بھی سامنے آئی ہے کہ حماس ترکی، قطر، سعودی عرب اور مصر کی طرف جھکاؤ رکھنے کے بعد ایک اور مرتبہ اپنے فطری مقاومتی اتحادی و سرپرست ایران سے بھی تعلقات میں مزید بہتری چاہتا ہے۔

اسی ضمن میں حماس کے سیاسی شعبے کے نائب سربراہ صالح العروری تہران کے دورے پر ہیں، جہاں ہفتہ 21 اکتوبر کو انکی ملاقات رہبر معظم کے مشیر عالی اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر علی ولایتی اور قومی سلامتی کاؤنسل کے سربراہ علی شمخانی سے ہوئی۔ صالح العروری کو جعلی ریاست اسرائیل نے فلسطین بدر کر دیا تھا اور جلاوطنی کے ایام شام، قطر، ترکی میں گذارنے کے بعد بالآخر لبنان میں مقیم ہوئے کہ جہاں حزب اللہ کے مضبوط گڑھ جنوبی بیروت میں وہ حزب اللہ ہی کی زیر سایہ زندگی گذار رہے ہیں۔ صالح العروری مرد مقاومت ہیں، ان پر عزالدین قسام بریگیڈ کو اسلحہ اور تربیت یافتہ افراد کی فراہمی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ وقفے قفے سے انہیں اسرائیل نے تقریباً پندرہ سال قید میں رکھا۔ سامی ابو زھری، اسامہ حمدان اور صالح العروری جیسے حماس رہنما ایران کے فلسطین دوست حماس دوست کردار کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور تعریف بھی کرتے ہیں۔ فلسطینی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ حماس ایران اور پھر شام سے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے۔ صالح العروری کو سیاسی شعبے کا سربراہ بنانا، اسی سمت اشارہ ہے کہ حماس اپنی اصل یعنی مقاومت کی راہ پر پلٹنا چاہتی ہے۔ البتہ یہ اتنا آسان مرحلہ نہیں ہے، کیونکہ حماس نے ترکی کو اپنا سرپرست سمجھا، جو جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، قطر کو اپنا بڑا مانا کہ جہاں امریکی سینٹرل کمانڈ کا اڈہ ہے یا سعودی عرب کو ہمدرد جانا کہ جو پوری دنیائے اسلام میں امریکہ اور اس کے توسط سے اور اب تو براہ راست اسرائیل کا ہم فکر ہے۔ اس ماضی سے جان چھڑانے کے لئے حماس کو مسلسل عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی بہت بڑی تزویراتی غلطی کی تلافی کرے گا۔ اور میری نظر میں وہhuge strategic mistakeجو حماس کی قیادت نے کی، وہ انکا شام سے نکل کر قطر جانا تھا اور شام کی حکومت کا کھل کر ساتھ نہ دینا تھا۔ خدا کرے کہ مقاومت کے محور سے بچھڑنے والے یہ نادان دوست پھر سے اپنی اصل یعنی میدان مقاومت کے فطری اتحادیوں اور مخلص دوستوں سے آملیں۔(آمین)
خبر کا کوڈ : 678441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ناصر
Iran, Islamic Republic of
ما شاء اللہ زبردست تجزیہ کیا ہے آپ نے۔
ممنون
یہ نکتہ اہم ہے کہ پے درپے غلطیوں کے بعد اب حماس کا دوبارہ مقاومتی محاذ کے اصل ساتھیوں سے گرم تعلقات کی ازسر نو بحالی اتنی اسان نہیں ہے۔
عرفان
جی آپکا بھی شکریہ. اگر آپ کا مبارک اسم گرامی بھی رائے کے ساتھ ہوتا تو زیادہ خوشی ہوتی۔
Pakistan
زیردست تجزیہ عرفان بھائی
عرفان
تمام دوستوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ رائے کے ساتھ اپنا نام ضرور لکھیں۔ تمام رائے دہندگان کا شکریہ
ہماری پیشکش