0
Monday 23 Oct 2017 11:14
اگر اب بھی نہ جاگیں تو

اہلیان کرم ہوشیار باش

اہلیان کرم ہوشیار باش
رپورٹ: روح اللہ طوری

پاراچنار کے حوالے سے آئے روز مختلف قسم کی عجیب غریب اور افسوسناک خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ 
*شورکو پر چھاپہ، ایف سی کے ہاتھوں چھوٹا بڑا اسلحہ نیز گھریلو استعمال کا معمولی سامان بھی غائب
*شورکو میں دھماکہ، حکومت مقامی قبائل پر غضبناک، گھروں پر چھاپے کے دوران اسلحہ برآمد
*شنہ درگہ میں چھاپہ، گھروں سے خواتین کے ذاتی استعمال کا سامان نو دو گیارہ
*خرلاچی دھماکہ، سرکار کے غضب کا نشانہ مقامی بنگش قبائل ٹھہرے
یہ سب کیا ہے۔؟ کیا کرم میں امن لانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے یا کرم کا امن چھیننے اور عوام کو ایک بار پھر 2007ء سے قبل والے دوراہے پر کھڑا کرنے اور طالبان و داعش کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ کئی اہم افراد، خصوصاً افغان پارلیمنٹ کے ایک اہم رکن حاجی عبد الظاہر قدیر کی جانب سے کرم ایجنسی کی آئندہ خطرناک صورتحال کے حوالے سے نہایت اہم بیان سامنے آچکا ہے، اہلیان کرم کی خاموشی نہایت افسوسناک ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور انڈیا کے تعاون سے پاکستان کے سرحدی علاقے کرم ایجنسی کے ارد گرد واقع افغان صوبوں کے سرحدی مقامات جیسے تورا بورہ وغیرہ میں طالبان اور داعش کے دہشتگرد بڑی سرعت کے ساتھ جمع ہو رہے ہیں۔ انہیں امریکہ اور انڈیا کی جانب سے اسلحہ کے کنٹینر فراہم کئے جا رہے ہیں اور یہ کہ آئندہ سال مارچ، اپریل میں وہ اپنی تیاری مکمل کرکے کرم ایجنسی کے راستے پاکستان پر حملہ کریں گے۔

ایسی خطرناک اور ایمرجنسی کی سی صورتحال میں بھی تمام اہلیان کرم بالخصوص طوری بنگش قبائل جتنی گہری نیند سو رہے ہیں، اسکی مثال پیش کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ حاجی عبد الظاہر قدیر نے کرم ایجنسی کے عمائدین اور علمائے کرام سے مخاطب ہوکر کہا ہے کہ پاراچنار کے ارد گرد داعش اور طالبان کی نقل و حرکت کے حوالے سے ایک قومی جرگہ کا انعقاد کراتے ہوئے معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اس بیان کو جاری ہوئے ایک ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے، مگر ہمارے عمائدین خصوصاً ذمہ دار قومی اداروں، تنظیموں بالاخص علمائے کرام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے۔ ہمارے یہ تمام بزرگ گھوڑے بیچ کر گہری نیند سو رہے ہیں۔ ہمارے پارلیمنٹیرین حضرات ساجد حسین طوری اور سجاد حسین طوری نیز دیگر وہ تمام سیاسی افراد جو انتخابات کے وقت کرم کا رخ کرکے اپنے لئے ووٹ کی بھیک مانگنے کے لئے عوم کے پاس انکی دہلیز پر جھکتے ہیں۔ اس ایمرجنسی کی سی صورتحال میں نظر نہیں آرہے۔ جن میں ریٹائرڈ چیف ائر مارشل سید قیصر حسین، ابرار حسین جان، اقبال سید میاں اور سجاد سید میاں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جنہوں نے ان حالات میں نہ کبھی قوم کے سامنے اپنی خدمات رکھی ہیں، نہ ہی قومی اداروں کے پاس کوئی حاضری دی ہے۔

یہ تھا تو دہشتگرد طالبان اور داعش کا مسئلہ، حالانکہ دہشتگرد تو دہشتگرد ہی ہوتے ہیں۔ انکی نظر نظریئے پر ہوتی ہے نہ عقیدے پر، حکومت پر ہوتی ہے نہ ہی عوام پر، بلکہ ذاتی مفادات کے حصول کے لئے وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتے، کیونکہ یہ لوگ اپنی ماں باپ اور اولاد کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان سے کسی قسم کا گلہ شکوہ کرنا حماقت میں شمار ہوگا، جبکہ یہاں سوچ اور فکر کرنے کے قابل امر یہ ہے کہ ہماری حکومت کے ارادے بھی اس قوم کے لئے کچھ کم خطرناک نہیں۔ وہ یوں کہ سرحد پر نہایت ابتر صورتحال کے باوجود انکی جانب سے آئے روز طوری بنگش قبائل پر چھاپے نہایت معنی خیز ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ الٹا طوریوں کے خلاف بم دھماکے کرانے والے افراد اور قوموں کے ساتھ گہرے مراسم کے الزامات سے آخر کیا مطلب لیا جاسکتا ہے۔ بوشہرہ کے رہائشی حجت حاجی اور ان کے تمام بیٹے 1987ء سے لیکر آج تک شدت پسندی کے لئے معروف ہیں۔ خصوصاً اسکا ایک مفلوج بیٹے فیاضو نے تو حد ہی کراس کر دی تھہ، طوریوں کی جانب سے بار بار شکایات کے باوجود تیس سالوں میں انکے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہ آسکی۔

بالآخر سبزی منڈی دھماکے میں اسکے ملوث ہونے کی جب واضح شہادتیں مل گئیں تو حکومت مجبور ہوگئی اور انکے خلاف 15 لاکھ روپے انعام رکھا گیا اور شاید اسی انعام کی مرہون منت یا کوئی بھی وجہ ہو، گذشتہ ماہ افغان سرحدی قصبے شہرنو میں اسے ہلاک کر دیا گیا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تقریباً 70 افراد کے قاتل شخص کا دوسرا بھائی محمد یاسین سرکاری دفاتر میں گھومتا پھرتا ہے۔ جس کا ماضی اسکے بھائی سے کہیں زیادہ داغدار رہا ہے۔ خفیہ اداروں کے ساتھ اس وقت محمد یاسین کے گہرے روابط ہیں۔ ایک ذمہ دار سرکاری شخصیت نے خفیہ والوں کے ساتھ انکے مراسم کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ محمد یاسین کے کہنے پر افراد کو منٹوں میں اندر اور باہر کیا جاتا ہے۔ اسے اہم سرکاری میٹنگوں میں مدعو کیا جاتا ہے۔ خود ہی غور کریں کہ آخر اس کا مطلب اور کیا لیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ حکومت کی شیعہ دشمنی نہیں تو کیا شیعوں کی خوشحالی، ترقی اور ہمدردی کے لئے ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 678533
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش