0
Wednesday 25 Oct 2017 19:13

امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اور اسلام آباد کا ردعمل

امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اور اسلام آباد کا ردعمل
تحریر: تصور حسین شہزاد

لیجیئے صاحب! پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی بار امریکہ بہادر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور امریکہ کو اس کی حیثیت یاد کروائی ہے۔ امریکہ وزیر خارجہ انڈیا کے دورے پر آئے تو افغانستان اور پاکستان سے بھی ہوتے گئے۔ اس دوران امریکی وزیر خارجہ یہ سوچ کر آئے تھے کہ اس بار بھی پاکستان والے سر جھکا کر ان کی ہر بات کو تسلیم کر لیں گے اور امریکہ کی جی حضوری میں اپنا مفاد بھی (پرویز مشرف کی طرح) پلیٹ میں رکھ کر ریکس ٹلرسن کو پیش کر دیں گے، مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ شائد ہوا کر رخ تبدیل ہو گیا ہے۔ حالات نے لگتا ہے کسی اور انداز میں کروٹ لے لی ہے۔ پاکستان کو لگتا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ نائن الیون کے بعد اس وقت کی حکومت نے امریکا کیساتھ بڑا سمجھوتہ کیا، جس کا نتیجہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے، ہمارا اقتدار امریکہ کے مرہون منت نہیں، ہم کروڑوں عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں اور عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے۔ اس لئے گذشتہ 2 ماہ سے امریکہ سے کوئی سمجھوتہ کیا اور نہ ہی امریکی رائے پاکستان پر مسلط ہونے کی اجازت دی۔ ٹرمپ کی دھمکی کا ہم پر کوئی اثر نہیں، امریکی وزیر خارجہ کو وائسرائے نہیں مانتے اور ہم امریکی صدر کی دھمکیوں کے سامنے پورے قد سے کھڑے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورہ پاکستان پر سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ امریکا کیساتھ تعلقات 70 سال پرانے ہیں، اس لیے مناسب ہوگا کہ اس معاملے پر ایوان میں بحث ہو۔ پاکستان نے امریکہ کو واضح طور پر پیغام دیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، افغانستان میں اتحادی افواج کو ناکامیاں ملیں، اس وقت بھی افغانستان کے 40 فیصد حصے پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔ افغانستان بھارت کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے اور نئی دہلی کابل کے ذریعے پاکستان میں دراندازی کر رہا ہے۔ ماضی میں بندے بیچنے کے بدلے کیا کیا فوائد حاصل کیے گئے جبکہ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے امریکا کیساتھ بڑے سمجھوتے کیے جس کا نتیجہ ہمیں آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان نے امریکا کو کہا کوئی امداد نہیں چاہیے، ہم افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے اپنے خرچے پر باڑ لگا رہے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ نے پہلی بار اتنی واضح انداز میں گفتگو کی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ امریکہ کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ بھی تھوڑا اپنے گریبان میں جھانکے کہ اس نے 16 برس میں افغانستان میں کیا کارنامے سرانجام دیے ہیں۔

خواجہ آصف نے روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان کو تنہا چھوڑنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تیس چالیس سال کی دوستی میں امریکہ نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے اور پاکستان مشکل حالات سے سر اٹھا کر نکلے گا۔ وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کیساتھ دوستی بھی رکھنا چاہتے ہیں لیکن اعتماد اور عزت و وقار کیساتھ۔ ہمیں ان سے کوئی معاشی امداد اور اسلحہ نہیں چاہیے، کچھ نہیں چاہیے، بس صرف اور صرف احترام چاہیے، جس میں وہ عزت سے بات کریں اور ہم بھی ان کیساتھ عزت اور احترام کیساتھ پیش آئیں گے، ہمارے 70 سال کے تعلقات ہیں اور انھیں ہم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کھلے بندوں پاکستان کو دھمکیاں دے چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشتگردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔ ان کے مطابق 20 غیر ملکی دہشتگرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کیلئے بہت سودمند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشتگردوں کا ساتھ دے گا تو اس کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ امریکی صدر کا پاکستان کے بارے میں کہنا ہے کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انھی دہشتگردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کیلئے بہت سود مند ثابت ہو گی لیکن اگر وہ مسلسل دہشتگردوں کا ساتھ دے گا تو اس کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اپنے اس بیان میں امریکی صدر نے تسلیم کیا ہے کہ "ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انہیں دہشتگردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں" مطلب کچھ دہشت گرد ہمارے (امریکہ کے) دوست ہیں، کچھ دہشتگرد دشمن ہیں، پاکستان دشمن دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس سے امریکہ کا دوہرا معیار نے نقاب ہوتا ہے کہ جو دہشتگرد خود امریکہ تیار کرئے وہ "اچھے" اور جو کوئی خود معرض وجود میں آئے ہوں وہ "برے" دہشتگرد ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ "یک طرفہ محبت" ہے جو صرف ہم ہی کرتے ہیں۔ اس دوستی کا گوشوارہ دیکھیں تو سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں ملے گا۔

امریکہ وہ بچھو ہے، ڈسنا جس کی فطرت ہے، اور ہم ہیں کہ سمجھ ہی نہیں رہے تھے، مگر اب کے پاکستان وزیر خارجہ کے تیور دیکھ کر لگ رہا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی اصلیت کا ادراک ہو گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہاں بھی وہی روایتی مطالبے کو دوہرایا کہ پاکستان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرے۔ اس کے برعکس افغانستان کے 40 فیصد علاقے پر طالبان قابض ہیں، وہاں امریکہ بھی موجود ہے لیکن مجال ہے امریکہ نے کبھی طالبان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو۔ عجب ہے کہ وہاں امریکہ خود طالبان کیخلاف کوئی اقدام نہیں کر رہا اور ادھر پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرے۔ امریکہ کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ جب تک وہ اپنا دوہرا معیار ختم نہیں کرتا دہشتگردی ختم نہیں ہو سکتی۔ داعش کو خود بنا کر عراق و شام پر قبضے کی کوشش کی، وہاں سے عبرتناک شکست ملی تو اسے افغانستان میں پناہ دے دی کہ عراق و شام کے بعد داعش کا اگلا ہدف پاکستان ہے۔ ایک طرف داعش کی مکمل سرپرستی کی جا رہی ہے دوسری جانب پاکستان کو کہا جا رہا ہے کہ داعش افغانستان و پاکستان دونوں کیلئے خطرہ ہے، لہذا دونوں ملک مل کر (امریکی اسلحہ خرید کر) داعش کیخلاف کارروائی کریں۔

امریکہ کا ہدف ایران، عراق، شام، پاکستان نہیں بلکہ اس کا ہدف اسلام ہے، اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کیلئے مسلمانوں میں ہی شدت پسند گروپ بنائے گئے اور پھر ان کی شدت پسندی کا الزام اسلام پر دھر دیا۔ دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام ہی شدت پسند مذہب ہے، اس معاملے میں امریکہ کیساتھ برطانیہ بھی اس کا ہم نواء ہے۔ برطانیہ کے کسی شہر میں دہشتگردی ہو، وزیراعظم ٹریزامے اسلام پر ہی برستی ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دہشتگردی کا یہ درخت انہوں (برطانیہ) نے خود کاشت کیا تھا۔ دوسری جانب امت مسلمہ کی حالت یہ ہے کہ
پانی پینے، پلانے پر جھگڑا
کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا
مسلمان تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر دست و گریباں ہیں۔ ان کی باہمی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہوتیں، بقول امام خمینی (رہ) ہم ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے پر جھگڑ رہے ہیں اور دشمن ہمارے ہاتھ کاٹنے کے منصوبے بنا چکا ہے۔ امت مسلمہ کو متحد ہونا ہوگا اور اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو شناخت کرنا ہوگا، کیوں کہ کھلے دشمن سے چھپا ہوا دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ آج بھی کچھ نام نہاد مسلم ممالک امریکہ کے ہم نوا اور آلہ کار ہیں۔ آج بھی برما ہو یا کشمیر، فلسطین ہو یا یمن، جارحیت کی مذمت تک نہیں کی جاتی بلکہ ان سارے معاملات میں کہیں نہ کہیں نام نہاد مسلمانوں کا ہی عمل دخل ہوتا ہے، یمن کے مسلمان، مسلمانوں کے ہی ستم کا نشانہ ہیں، فلسطینیوں کو یہودیوں سے زیادہ خطرہ اپنے ہی عرب بھائیوں سے ہے جو خاموش رہ کر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ ظلم پر خاموش رہنا بھی اس کی مدد کے مترادف ہوتا ہے۔ ایسے خاموش مسلمانوں کا کردار امت کیلئے سوالیہ نشان ہے کہ یہ کن کیساتھ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 679179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش