0
Thursday 26 Oct 2017 12:29

حماس اور حقیقی جہادی تشخص کی جانب بازگشت

حماس اور حقیقی جہادی تشخص کی جانب بازگشت
تحریر: حسن ہانی زادہ

حماس کے اعلی سطحی وفد کا دورہ تہران اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی سطحی عہدیداروں سے بات چیت اسلامی مزاحمت کی اس تنظیم کا اپنے حقیقی جہادی تشخص کی جانب بازگشت اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے مقابلے کیلئے علاقائی سطح پر ایک مستحکم مزاحمتی محاذ کی تشکیل کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔ جب 2011ء میں شام میں سکیورٹی بحران کا آغاز ہوا تو اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے شام سے متعلق انتہائی مختلف اور غیر متوقع موقف اختیار کیا جس کے باعث اسلامی مزاحمتی بلاک سے اس کا فاصلہ بڑھنا شروع ہو گیا۔ حماس کے سابق سیاسی عہدیداران کا خیال تھا کہ عرب دنیا میں پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک (مغرب کے بقول عرب اسپرنگ) درحقیقت اعتدال پسند اسلامی قوتوں کی مدد سے خطے کو اسلامائز کرنے کی امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ترکی میں ترقی و عدالت پارٹی کی کامیابی، مصر میں اخوان المسلمین کی کامیابی اور تیونس میں النہضہ پارٹی کی کامیابی کے پیش نظر حماس کے سیاسی لیڈران یہ تصور کرنے لگے کہ یہ تمام سیاسی تبدیلیاں امریکی ارادے اور خواہش کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہیں۔

لہذا مارچ 2011ء میں جب شام میں سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا تو حماس کے سیاسی رہنماوں نے غیر متوقع انداز میں حکومت مخالف شدت پسند عناصر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان کا یہ موقف اسلامی مزاحمتی بلاک خاص طور پر حماس اور ایران کے درمیان خلیج پیدا ہونے کا باعث بنا اور یوں ایک عرصے تک ایران، شام اور حزب اللہ لبنان سے حماس کے تعلقات تناو کا شکار ہو گئے۔ اس خلیج کی پیدائش کے بعد حماس کو نئے حامیوں کی ضرورت کا احساس ہوا جس کے نتیجے میں اس نے سعودی عرب، قطر اور ترکی کی جانب جھکاو ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد حماس کے سیاسی لیڈران کو اس حقیقت کا احساس ہو گیا کہ انہوں نے خطے کے سیاسی حالات کو صحیح طور پر سمجھنے میں غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ اچھی طرح جان چکے تھے کہ ترکی، سعودی عرب اور قطر اسرائیل کے خلاف جہادی سرگرمیوں میں انہیں مناسب پشت پناہی فراہم نہیں کر سکتے۔

یوں حماس کے سیاسی سیٹ اپ میں بنیادی تبدیلیوں کا آغاز ہونے لگا جس کے نتیجے میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل کو برطرف کر کے ان کی جگہ اسماعیل ہنیہ نے سنبھال لی اور صالح العاروری کو حماس کے سیاسی شعبے کا نیا نائب سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ حماس کے سیاسی شعبے کے نائب سربراہ کے طور پر صالح العاروری کا انتخاب جو اپنی عمر کے 20 سال اسرائیلی جیلوں میں بسر کر چکے ہیں، اس واضح پیغام کا حامل ہے کہ حماس سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ جہادی سرگرمیاں بھی جاری رکھے گی اور ہر گز جہادی میدان سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ صالح العاروری حماس کی تشکیل کے آغاز سے ہی ملٹری ونگ کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور انہوں نے حماس سے وابستہ بریگیڈز کی تشکیل اور ان کی فوجی کاروائیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ صالح العاروری اسرائیل سے سازباز کی پالیسی کے شدید مخالف تصور کئے جاتے ہیں۔

غزہ کی پٹی حماس کا گڑھ تصور کی جاتی ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے گذشتہ 12 برس سے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے جس کا مقصد اہالی غزہ کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر دیں اور سیاسی سازباز کا راستہ اختیار کریں۔ محاصرے کے شدید اثرات سے بچنے کیلئے حماس نے فتح سے مذاکرات کی ابتدا کی جس کا نتیجہ حماس اور فتح کے درمیان باہمی مفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ ان دونوں فلسطینی تنظیموں کے درمیان مفاہمتی عمل مصر کے زیر نظر انجام پایا اور بات چیت کے تمام مراحل قاہرہ میں منعقد ہوئے۔ اسرائیل نے فتح اور حماس کے درمیان مفاہمتی عمل قبول کرنے کی یہ شرط ظاہر کی تھی کہ حماس ایران سے دوری اختیار کرے اور ہر قسم کی فوجی اور جہادی سرگرمیاں بھی ترک کر دے لیکن حماس نے یہ دونوں شروط مسترد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ بیت المقدس کی مرکزیت میں ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل تک غاصب صہیونی رژیم کے خلاف اپنی جدوجہد ترک نہیں کرے گی۔ اس تناظر میں حماس کے اعلی سطحی وفد کا دورہ تہران درحقیقت اسلامی مزاحمت کی اس تنظیم کا اپنے حقیقی جہادی تشخص کی جانب بازگشت قرار دیا جا رہا ہے۔ مغربی اور عرب ذرائع ابلاغ کی جانب سے حماس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سیاسی سازباز کا راستہ اختیار کرنے پر مبنی بھرپور پروپیگنڈے کے باوجود یہ تنظیم بدستور پوری طاقت سے اپنی جہادی سرگرمیاں جاری رکھنے کا عزم کر چکی ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے حماس کے سابق سیاسی لیڈران سے بعض اختلافات سے ہٹ کر مسئلہ فلسطین کے بارے میں اصولی موقف اپنا رکھا ہے جو اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف سرگرم تمام فلسطینی گروہوں کی بھرپور مدد اور حمایت کرنے پر استوار ہے۔
خبر کا کوڈ : 679328
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش