1
0
Sunday 29 Oct 2017 00:30

زیارت امام حسین(ع)۔۔۔۔ گر تو برا نہ مانے

زیارت امام حسین(ع)۔۔۔۔ گر تو برا نہ مانے
تحریر: ارشاد حسین ناصر

زیارت امام حسین (ع) و شہدائے کربلا ایک ایسی خواہش ہے، جو ہر مومن کے دل میں ہر دم مچلتی رہتی ہے، ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، کربلا میں سید الشہداء (ع) کے روضہ مبارک کا طواف کروں۔ اسی خواہش، تڑپ اور پیاس کو بجھانے کیلئے ہم نے سنا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی قربانی دیا کرتے تھے، اپنا ایک بازو کٹوا دیا کرتے تھے، تاریخ میں جبر و ستم کی داستانیں بہت زیادہ ملتی ہیں اور ظالموں کا بھی شمار ممکن نہیں، مگر جو ظلم کربلا میں ہوئے یا اس کے بعد ان کو ماننے والوں کیساتھ ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آئمہ طاہرین (ع) اور معصومین (ع) نے ابا عبد اللہ الحسین (ع) کی زیارت کی بہت زیادہ اہمیت اور تاکید بتائی ہے، اسی لئے تو شیعہ مکتب میں روز اربعین کی دو مناسبتیں بہت ہی اہم ہیں، ایک 20 صفر 61 ہجری کو صحابی رسول(ص) حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیسویں دن مدینہ سے کربلا آنا اور امام عالی مقام کے مرقد کی زیارت کرنا اور ایک مشہور روایت کے مطابق اہل بیت کے خانوادے کا بھی اسی دن کربلا میں داخل ہونا۔ دوسرا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی مشہور حدیث کہ جس کے مطابق امام علیہ السلام نے صفوان بن مہران جمال کو اربعین کے دن امام حسین کی زیارت کرنے کی تاکید کی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دن تعلیمات اہل بیت (ع) میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور پھر زیارت اربعین کا متن کہ جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے منقول ہے، بھی اس دن کی فضیلت کو بیان کرتا ہے۔ اس زیارت میں بہت بلند مرتبہ معارف بیان کئے گئے ہیں۔

اسی اہمیت اور تاکید کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم لوگ زیارت اربعین کیلئے سال بھر انتظار کرتے ہیں اور اس دن کو کسی بھی صورت امام حسین (ع) کے قبہ اطہر کے نیچے نماز ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اربعین اس وقت ایک ایسا عالمی اجتماع کی شکل اختیار کر گیا ہے، جو اپنی مثال آپ ہے، اس کے مقابل دنیا بھر میں ہونے والے بڑے مذہبی اجتماع حتٰی حج مبارک بھی کم رنگ نظر آتا ہے، حج میں شرکاء کی تعداد صرف بیس لاکھ تک ہوتی ہے، جن کو سنبھالنا آل سعود کی حکومت کیلئے ممکن نہیں ہوتا، ہر برس کوئی حادثہ یا سانحہ ہو جاتا ہے، جس میں ہزاروں حاجی جاں بحق ہو جاتے ہیں، اگر کوئی حادثہ نہ بھی ہو تو ایسے ہی بڑھاپے کے باعث صرف ہمارے ملک کے جاں بحق ہونے والے حجاج کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے، جبکہ اس کے مقابل اربعین پہ دنیا کے ہر ملک سے لاکھوں نہیں کروڑوں عقیدت مند شریک ہوتے ہیں اور کربلا میں امام حسین (ع) کے روضے پہ حاضری دیتے ہیں، جبکہ لاکھوں لوگ جن میں ہر عمر اور صنف سے تعلق رکھنے والے عام و خاص سب پیادہ روی کرتے ہوئے کربلا پہنچتے ہیں۔ ان میں کم سے کم اسی کلو میٹر سفر والے بھی ہوتے ہیں اور ایسے کاروان بھی دکھائی دیتے ہیں، جو سینکڑوں میل سفر کرکے اپنی حاضری کو یقینی بناتے ہیں۔ اس پیادہ روی میں بنایا گیا ماحول کئی کتب کا متقاضی ہے، اگر ہم اس ماحول اور راستے میں پیش آنے والے احساسات و جذبات، واقعات و مشاہدات کو لکھنا چاہیں تو اوراق کم پڑ جائیں، یہ بذات خود الگ موضوع ہے، اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔

اس وقت ہمارا موضوع یہ ہے کہ جہاں ہم دشمنوں کی طرف سے ان گنت مشکلات، مسائل اور خطرات سے دوچار رہتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کے بعض اپنوں کی طرف سے اس سفر مبارک کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں اور مشکلات کے باعث سخت اذیت اور افسوس کا شکار ہیں، سب سے بڑی مشکل تو پیسے جمع کرنا ہوتا ہے، مگر اس سے کہیں بڑی مشکل اہل پاکستان بالخصوص اہل لاہور یعنی جن کا ویزہ لاہور میں واقع ایرانی قونصلیٹ سے پراسس ہوتا ہے، انہیں در پیش رہتی ہے۔ جیسے جیسے ہر برس اربعین امام حسین (ع) پہ جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ایسے ہی ویزہ کی مشکلات ہر برس بڑھ جاتی ہیں، گذشتہ برس سخت سردی اور دھند میں رات کے آخری پہر لوگوں کو نہر کنارے سخت سردی میں ویزوں کے حصول کیلئے رسوا ہوتے دیکھا کرتا تھا۔ بہت سے قافلہ سالاروں کے ٹکٹس ضائع ہوگئے اور ان کے ویزے نہیں لگائے گئے تھے، لوگ کوئٹہ اور تفتان جا کر بیٹھے تھے، مگر ویزے ندارد۔ ویزوں کا انتظار کرتے کرتے سوکھ گئے، بعض لوگوں کی تو جمع پونجی بھی زیارت سے پہلے پاکستان میں ہی خرچ ہوگئے۔ سوچا اس بار کچھ صورتحال بہتر ہوگی، اس بار قونصلیٹ نے ڈرپباکس ایشو کر دیئے ہیں، مخصوص لوگوں کے پاس نمائندگی دی گئی ہے، جو قونصلیٹ کی عملی مدد کریں گے، مگر یہ نظام بری طرح فیل ہوگیا۔ اب اس وقت بھی لوگوں نے پندرہ پندرہ دنوں سے ویزے جمع کروائے ہوئے ہیں، مگر ان کے ویزے سٹمپ نہیں ہوئے۔ کسی کیساتھ ایسا ہوا ہے کہ اس کے دو سو پاسپورٹ تھے، جن میں سے آدھے نکل آئے اور آدھے رہ گئے۔

قونصلیٹ جمہوری اسلامی ایران لاہور کو ایام اربعین میں ایمرجنسی سٹاف بھرتی کرکے مومنین کو سہولت دینی چاہیئے، لوگ ایران سے محبت کرتے ہیں، اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے جس طرح زیارات کو محفوظ اور روضوں کو تعمیر کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، مگر یہاں صورتحال ایسی ہے کہ جس سے اہل پاکستان کے دلوں میں ایران کی محبت پیدا ہونے کے بجائے نفرت کا عنصر بڑھ رہا ہے، مایوسی کی کیفیات اور ناامیدی کے سائے گھنے ہو رہے ہیں، وہ لوگ جنہیں عام شیعہ چلتے پھرتے ایران کا نمائندہ سمجھتے ہیں، یعنی ایران کے حامی اور انقلابی طبقہ انہیں بھی اس صورتحال میں اپنی قوم کے سامنے دفاع کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ صرف ایک بات ہی دیکھ لی جائے کہ یہی وہ زائرین ہیں، جنہوں نے زیارت پہ جانے کی خواہش میں اس اکیسویں صدی میں بھی اپنی جانوں کی قربانی دی ہے اور اپنے پیاروں کی لاشوں پر ماتم کیا ہے، حکمران تو جس طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں، ان کا شمار ہی نہیں اور ان کا معاملہ ویسے بھی جدا ہے، اپنوں کو تو یہ زیب نہیں دیتا کہ جس زیارت کی اس قدر تاکید کی گئی ہے، اس کی راہ میں آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، جس کا دکھ یقینی طور پہ زیادہ ہوتا ہے۔

اس وقت بہت ہی گھمبیر صورتحال چل رہی ہے، میں نے ذاتی طور پہ کئی ایک قافلہ سالاروں سے رابطہ کیا ہے، جو سب کے سب صرف زیارت کا کام کرتے ہیں، ان کے ٹکٹس ہوچکے ہیں، بہت سے کوئٹہ اور کئی ایک تفتان پہنچ چکے ہیں، مگر ویزوں کی وجہ سے بہت پریشان ہیں اور ناامید بھی۔ ہم قافلہ سالاروں کی وکالت نہیں کرتے کہ یہ ایک ایسی مخلوق ہے، جن میں بہت سی کالی بھیڑیں بھی ہیں، مگر وہ لوگ جنہیں زیارت کیلئے گھر کی کوئی قیمتی چیز بیچنی پڑی ہے اور بائی روڑ کا خطرہ مول لے کر وہ جا رہا ہے، اگر اس کا ویزہ قونصلیٹ کی وجہ سے نہ لگ سکا یا وقت پہ نہ پہنچ سکا تو اس زائر امام حسین (ع) پہ کیا گذرے گی اور امام حسین (ع) جن کے متعلق ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ہر زائر کا خیال رکھتے ہیں، اللہ اپنے فرشتوں کی ڈیوٹیاں لگا دیتا ہے، جب زائر گھر سے نکلتا ہے تو یہ جو رپورٹنگ ہو رہی ہے، اس کا سامنا کم از ایک سمجھدار، ایک مومن، ایک عزادار، ایک حسینی، ایک مومن، ایک پیرو حسین کیسے کرسکتا ہے۔؟ لہذا زائرین کو اتنا ہی تنگ کیا جائے، جتنی برداشت ہے۔ امام حسین (ع) کی ذات بابرکات اور مبارک ہستی سے عشق کرنے والوں کے ساتھ اہل عراق کا سلوک اور انداز واقعی بے مثال ہے، جس انداز میں اہل عراق کے بچے، بوڑھے، جوان، خواتین، زائرین کیلئے اپنا خلوص نچھاور کرتے ہیں، دنیا میں یہ جذبہ و احساس کسی دولت اور سرمائے سے نہیں خریدا جا سکتا، ہماری گزارش ہے کہ اہل ایران و پاکستان بھی اہل عراق کی طرح خود کو زائرین کی خدمت کیلئے وقف کریں اور انہیں تکلیف یا اذیت دینے کے بجائے راحتیں اور آسائشیں میسر کریں۔ امام حسین (ع) کی ذات تمام زائرین جن کی تڑپ تھی، خواہش تھی، انہیں زیارت سے مشرف فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 679920
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Irfan
Pakistan
سلام
جی بالکل، پاکستان میں سکیورٹی حکام کو اور اسکے ساتھ ساتھ ایرانی دفتر خارجہ کو بھی شیعہ علمائے کرام، قائدین الگ الگ خطوط بھی لکھیں اور ایران سے متعلق دفتر رھبری کو بھی شکایات سے مطلع کریں۔
ابد واللہ یا زھراؑ ماننسیٰ یا حسینا
تم پر سلام اے سید الشہداؑ کے زائرین۔
ہماری پیشکش