0
Sunday 29 Oct 2017 20:53

شام بحران کے بارے میں شیخ حمد بن جاسم کے اہم انکشافات

شام بحران کے بارے میں شیخ حمد بن جاسم کے اہم انکشافات
تحریر: عبدالباری عطوان

قطر کے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ حمد بن جاسم آل ثانی نے حال ہی میں سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بعض اہم حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اس انٹرویو میں شام بحران کے بارے میں چند اہم انکشافات کئے ہیں۔ اس انٹرویو کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟ کیا سعودی عرب کی ناراضگی کا ازالہ ہو سکے گا؟ شیخ حمد بن جاسم کا انٹرویو عام شہریوں اور اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں دونوں کیلئے خاص دلچسپی کا حامل ہے کیونکہ انہوں نے اس میں انتہائی سادہ اور بے باک انداز میں گفتگو کی ہے۔ شیخ حمد بن جاسم دیگر عرب رہنماوں کے برعکس جب بھی کوئی بیان یا انٹرویو دیتے ہیں بہت سے حقائق فاش کر دیتے ہیں۔

شیخ حمد بن جاسم نے سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے شام بحران کے بارے میں بعض ایسے حقائق بیان کئے ہیں جن کی روشنی میں وہ سعودی عرب کی جانب سے قطر پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں سکیورٹی بحران شروع ہونے سے قبل انہوں نے سعودی عرب کے سابق فرمانروا ملک عبداللہ سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں انہیں اس منصوبے کی تفصیلات بیان کیں جو قطر نے امریکہ اور ترکی کے تعاون سے شام میں مداخلت کیلئے تیار کر رکھا تھا۔ ملک عبداللہ نے اس منصوبے کو بہت سراہا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا: "ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ سے مکمل تعاون کریں گے۔"

اس انٹرویو کا اہم نکتہ یہ ہے کہ قطر کے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ حمد بن جاسم نے واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ترکی، امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے شام میں مداخلت کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے شام میں دہشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ کو ہر قسم کی مالی اور فوجی مدد فراہم کی اور یہ کہ ان کی یہ تمام سرگرمیاں امریکہ کی اطلاع اور تعاون سے انجام پائیں۔ بعد میں جب النصرہ فرنٹ نے مشخص شدہ اہداف سے ہٹ کر عمل کرنا شروع کیا تو امریکہ نے اسے دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر دیا اور اس کی مدد بند کر دی۔

نہیں معلوم سعودی حکام ان فاش ہونے والے حقائق کے مقابلے میں کیا ردعمل ظاہر کریں گے؟ اور کیا حمد بن جاسم کے یہ اعترافات قطر اور سعودی عرب میں موجود اختلافات میں کمی کا باعث بنیں گے یا نہیں؟ البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ ان حقائق کا اعتراف شام حکومت اور اس کے حامی ممالک کی جانب سے سراہا جائے گا کیونکہ یہ گذشتہ چند سالوں کے دوران ان کے اپنائے گئے موقف کی تصدیق کا باعث بنا ہے۔ شام حکومت اور اس کے حامی ممالک اس ملک میں سکیورٹی بحران کے آغاز سے ہی یہ دعوی کر رہے تھے کہ شام میں پیدا ہونے والی بدامنی درحقیقت امریکی سربراہی میں تیار ہونے والی اس سازش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد موجودہ صدر بشار اسد کو سرنگون کرنا اور شام کے حصے بکھڑے کرنا ہے۔

شام ایک "شکار" ہے جسے دنیا کے 60 سے زیادہ "شکاری" ممالک امریکہ کی قیادت میں "فرینڈز آف سیریا" کے روپ میں شکار کرنا چاہتے ہیں۔ شام کے خلاف اس سازش میں سعودی عرب اور قطر کا کردار شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی فوجی اور مالی مدد کرنے پر مشتمل تھا جبکہ دیگر عرب ممالک کا کردار تماشائی کی حد سے زیادہ نہیں بڑھا۔ البتہ اس بیچ بعض ایسے مسائل پیدا ہوئے جن کے باعث یہ شکار سعودی عرب اور قطر کے ہاتھ سے بچ نکلا۔ یہاں ہم شکار کا لفظ استعمال کرنے پر اپنے شامی بھائیوں سے معذرت خواہی کرتے ہیں۔ شام کی نجات کا حقیقی سبب حکومتی نظام اور اداروں خاص طور پر سکیورٹی اور فوجی اداروں کی جانب سے مزاحمت کا مظاہرہ اور مشکل ترین حالات میں عوامی حمایت سے برخوردار ہونا ہے۔ ایسے حالات میں جب دنیا کی سب سے بڑی میڈیا اور پروپیگنڈہ مشینری شام حکومت کے خلاف سرگرم عمل تھی جبکہ شام کے ذرائع ابلاغ کی نشریات عرب سیٹ سمیت تمام عرب سیٹلائٹس سے ختم کر دی گئی تھیں۔

بہرحال شیخ حمد بن جاسم نے سب کو سات برس قبل کے حالات یاد کروائے اور خاص طور پر اس وقت کا ذکر کیا جب وہ 15 ارب ڈالر کا پیکج لے کر دمشق گئے اور شام حکومت کو اس شرط پر یہ رقم دینے کی پیشکش کی کہ وہ ایران سے دور ہو جائے اور "اعتدال پسندانہ عرب" محاذ سے ملحق ہو جائے۔ قطر کے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ حمد بن جاسم نے اس سے پہلے فائنینشیل ٹائمز سے انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب جو ہم پر ایران سے قربت کا الزام عائد کرتا ہے آج خود روس سے تعلقات بڑھانے میں مصروف ہے اور اس طرح بالواسطہ طور پر شام سے بھی قریب ہو چکا ہے اور صدر بشار اسد کے برسراقتدار رہنے پر بھی راضی ہو چکا ہے۔ یہی سعودی حکومت قطر کے خلاف اس لئے پابندیاں عائد کر چکا ہے کہ وہ ایران سے اچھے تعلقات کا مالک ہے۔

بہت سوں نے شام کے بارے میں غلط سیاسی فیصلے کئے اور بہت سے اب بھی اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف امریکی اور اسرائیلی بلاک میں شامل ہو کر زیادہ بڑی غلطی کا مرتکب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں بخوبی جان لینا چاہئے کہ اگر وہ شام، لیبیا اور خاص طور پر عراق کے مسئلے میں ایک بار غلطی کرنے کے بعد کم نقصان برداشت کر کے عارضی طور پر نجات پا چکے ہیں تو ضروری نہیں دوسری بار غلطی کرنے کے بعد بھی اتنی آسانی سے نجات حاصل کر پائیں گے۔

شام کی صورتحال روز بروز تیزی سے بہتر ہو رہی ہے اور دمشق میں آئے روز مختلف ممالک کے سفارتی وفود کی آمدورفت لگی ہوئی ہے۔ تاجر اور بڑی کمپنیاں بھی سرمایہ کاری کیلئے شام جا رہے ہیں کیونکہ اب وہاں جنگ سے تباہ شدہ شہروں کی تعمیر نو کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ حال ہی میں لبنان کے وزیراعظم سعد حریری جو شام کے صدر بشار اسد کے شدید مخالف تصور کئے جاتے ہیں اور سعودی عرب کے انتہائی قریبی اتحادی ہیں، نے شام میں نیا سفیر تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اردن کا پارلیمانی وفد بھی دمشق دورے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

لہذا سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات میں تناو کی بنیادی وجہ قطر کے ایران اور ترکی سے اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔ قطر کے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں، یا تو ایران سے اپنے تعلقات ختم کر کے سعودی عرب سے ملحق ہو جائے یا ان تعلقات کو باقی رکھے جس کے نتیجے میں ریاض سے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ شیخ حمد بن جاسم کی وضاحت اور بیانات کا ان کے ہمسایہ ملک سعودی عرب پر کوئی گہرا اثر پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔ شیخ حمد بن جاسم اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا پچاس سال پہلے والے فرمانروا سے بہت مختلف ہیں اور حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 680090
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش