QR CodeQR Code

روسی صدر کا دورہ ایران، چند اسٹریٹجک پہلو

4 Nov 2017 15:20

اسلام ٹائمز: موجودہ حالات میں جب پوسٹ داعش ایرا کا آغاز ہو چکا ہے، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ایک بار پھر تہران آئے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بار ان کے دورے کا بنیادی ترین مقصد ایران سے مل بیٹھ کر خطے کے نئے آرڈر کا نقشہ تیار کرنا ہے۔


تحریر: محمد رضا مرادی

ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ صرف بحیرہ کیسپیئن سے مربوط مسائل ہی ایران اور روس کے درمیان مشترکہ امور تصور کئے جاتے تھے لیکن عرب دنیا میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور ماسکو اور تہران کے مشترکہ مفادات نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو اسٹریٹجک نوعیت میں تبدیل کر دیا اور آج صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ خطے کا کوئی بھی اہم ایشو ایران اور روس کے تعاون کے بغیر قابل حل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خطے کے اہم امور کے بارے میں ایران اور روس کے سربراہان مملکت کی ملاقاتیں انتہائی اہم اور معنی خیز ثابت ہو رہی ہیں۔ بدھ یکم نومبر کے دن روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایران کا دورہ کیا جس کا مقصد ایران، روس اور آذربائیجان کے درمیان سہ فریقی سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔

اگرچہ اس بار بھی روسی صدر کا دورہ ایران دوطرفہ امور کیلئے انجام نہیں پایا لیکن خطے پر حکمفرما فضا کے باعث اس دورے کے سیاسی اور سکیورٹی پہلو دیگر امور پر حاوی رہے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اس سے قبل 2015ء میں ایران آئے تھے۔ اس دورے میں بھی روسی صدر کا مقصد گیس برآمد کرنے والے ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔ ولادیمیر پیوٹن نے تہران پہنچتے ہی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایئرپورٹ سے سیدھا اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی رہائشگاہ کا رخ کیا اور ان سے ملاقات کی۔ اگرچہ اس ملاقات میں انجام پانے والی گفتگو میڈیا پر نہیں آئی لیکن یہ ملاقات غیر معمولی طور پر دو گھنٹے تک جاری رہی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ولادیمیر پیوٹن کا دورہ تہران کون کون سے پہلووں کا حامل ہے؟

فیصلہ کن دورہ
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا دورہ ایران ہمیشہ اہم پہلووں اور نتائج کا حامل رہا ہے کیونکہ عام طور پر سفارتی لحاظ سے اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں کا دورہ تب ہی انجام پاتا ہے جب انتہائی اہم اور فیصلہ کن فیصلے انجام پانے ہوں۔ مثال کے طور پر روسی صدر کا گذشتہ دورہ ایران گیس برآمد کرنے والے ممالک کے سربراہی اجلاس کے سلسلے میں انجام پایا لیکن اسے شام سے متعلق ایران اور روس کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کے حوالے سے خاصی شہرت حاصل ہوئی۔ اس دورے میں ولادیمیر پیوٹن جیسے ہی تہران ایئرپورٹ پہنچے سیدھے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کیلئے گئے۔ ان کا یہ اقدام کریملن کے لیڈران کی پوری تاریخ میں ایک بے سابقہ قدم تھا۔ اسی دورے میں ایران کے سابق وزیر خارجہ اور آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے اس ملاقات کو ایران کی تاریخ کی اہم ترین ملاقات قرار دیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ملاقات کی اہمیت مزید ابھر کر سامنے آئی اور کچھ ہی ہفتے بعد روس نے شام کے بحران میں براہ راست فوجی مداخلت کا آغاز کر دیا۔ شام میں ایران اور روس کی فوجی کمان کا مشترکہ کنٹرول روم تشکیل پایا اور اس طرح دونوں ممالک میں اسٹریٹجک تعاون کا آغاز ہو گیا۔

ایک سال بعد ایران نے روس کو ہمدان شہر میں واقع شہید نوژہ ایئربیس استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی اور یوں ایران اور روس کے درمیان شام سے متعلق فوجی تعاون اپنے عروج تک جا پہنچا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ پہلی بار تھی جب ایران نے اپنے بیرونی دشمن کے خلاف فوجی کاروائی کیلئے اپنے کسی ایئربیس کے استعمال کی اجازت ایک دوسرے ملک کو دی ہو۔ درحقیقت روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دورہ ایران کے بعد خطے کے حالات ایسے دگرگوں ہوئے جو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے منصوبے میں تعیین شدہ اہداف کے بالکل خلاف تھے۔ اس دورے کے بعد داعش کے خلاف ایران اور روس کے درمیان تعاون کے نتیجے میں دہشت گرد عناصر کا قلع قمع ہونا شروع ہو گیا اور خطے سے متعلق امریکہ کا روڈ میپ شدید متاثر ہونے لگا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ شام کے بحران نے عیاں کر دیا ہے کہ خطے میں امریکہ کا مطلوبہ آرڈر ختم ہو چکا ہے اور اب خطے کی تقدیر کا فیصلہ امریکہ کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ ایران اور روس کے درمیان تعاون کے نتیجے میں روس ایک لمبے عرصے کے بعد مشرق وسطی میں دوبارہ لوٹ آیا اور اب خطے کے جدید آرڈر میں اہم رکن کے طور پر پہچانا جانے لگا ہے۔ دوسری طرف ایران نے بھی خطے سے متعلق اپنی سرگرمیوں کے ذریعے ظاہر کیا ہے کہ وہ خطے کے نئے آرڈر میں اہم ترین کھلاڑی ثابت ہو گا۔ موجودہ حالات میں جب پوسٹ داعش ایرا کا آغاز ہو چکا ہے، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ایک بار پھر تہران آئے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بار ان کے دورے کا بنیادی ترین مقصد ایران سے مل بیٹھ کر خطے کے نئے آرڈر کا نقشہ تیار کرنا ہے۔

روس چاہتا ہے شام میں داعش کے خاتمے کے فوراً بعد شام میں سرگرم تمام گروہوں کو ماسکو میں جمع کر کے سیاسی مذاکراتی عمل کا آغاز کرے۔ یہ مسئلہ ایران اور روس میں تعاون کا نیا باب کھول دے گا۔ دمشق میں سیاسی عمل کے آغاز کے علاوہ ایران اور روس کے درمیان شام میں نئے سکیورٹی سیٹ اپ کے بارے میں بھی تعاون کے نئے مراحل شروع ہونے کا امکان ہے۔ شام میں نئے سکیورٹی سیٹ اپ کا قیام وہ امر ہے جس نے گذشتہ چند ماہ سے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل شام میں داعش کے خاتمے کے بعد ایران کی موجودگی سے شدید خوفزدہ ہے اور اسرائیلی حکام کئی بار اس بارے میں روسی حکام سے اپنی پریشانی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے رواں سال جولائی میں اپنے روس دورے کے دوران صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات میں اس بات کا اظہار کیا کہ شام میں ایران کی موجودگی ہمارے لئے پریشان کن ہے۔ دوسری طرف روسی روزنامے پراواڈا نے انہیں دنوں اس بات کا اعلان کیا کہ ولادیمیر پیوٹن نے اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے پریشانی کے اظہار پر اس بات پر زور دیا کہ ایران مشرق وسطی میں روس کا اسٹریٹجک اتحادی ہے جبکہ اسرائیل ہمارے لئے صرف اہم شریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے حالیہ دورہ ایران کا نتیجہ گذشتہ چند برس کے دوران خطے میں تشکیل پانے والے اس نئے اتحاد کے مزید مستحکم ہونے کی صورت میں نکلے گا۔

امریکہ کی گوشہ گیری
حال ہی میں امریکہ نے ایران اور روس دونوں کے خلاف نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ مزید برآں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی پر زور دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اس بین الاقوامی معاہدے کے بارے میں فیصلے کا حق کانگریس کو سونپ رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کا مقصد ایران کو گوشہ گیر کرنا ہے اور بہت سے ممالک امریکی ردعمل کے خوف سے تہران سے اپنے تعلقات محدود کر دیں گے۔ لیکن موجودہ حالات میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا دورہ ایران انتہائی اہم معنی رکھتا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا دورہ ایران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس بات کے اعلان کے محض چند روز بعد انجام پایا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدے کی پابندی نہیں کی۔ اس وقت امریکی صدر نے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان انجام پائے جوہری معاہدے کے بارے میں حتمی فیصلے کا حق کانگریس کو دے رکھا ہے اور حتی یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر مذکورہ بالا معاہدے میں امریکہ کی مرضی کے مطابق تبدیلیاں نہ کی گئیں تو وہ بذات خود اس معاہدے کے خاتمے کا اعلان کریں گے۔

دوسری طرف ایران سے بین الاقوامی جوہری معاہدے میں شامل یورپی ممالک نے واضح طور پر اس معاہدے کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے روس اور ایران کی جانب سے اس معاہدے کا کسی قسم کی تبدیلی قبول کرنے کے قابل نہ ہونے پر مبنی موقف کی بھی حمایت کی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایران کا دورہ کر کے عملی طور پر اس معاہدے کی بقا پر زور دیا ہے۔ درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف حالیہ اقدامات کے ذریعے خود امریکہ کی گوشہ نشینی کا مقدمہ فراہم کر دیا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن نے دنیا کی ایک سپرپاور کے صدر مملکت ہونے کے ناطے ایران کا دورہ کر کے ایران کو گوشہ نشین کرنے پر مبنی تمام امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ نیوز چینل "بلومبرگ" نے روسی صدر کے دورہ ایران کے بارے میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دورے کا اہم ترین مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ماسکو اور تہران کا مشترکہ ردعمل ظاہر کرنا ہے۔ اس چینل کے تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ایران اور روس جوہری توانائی کے میدان میں آپس میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں کیونکہ وائٹ ہاوس اور امریکی سیاسی لیڈران کے حالیہ موقف کے باعث بین الاقوامی سطح پر ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والا معاہدہ چیلنجز کا شکار ہو چکا ہے۔

نتیجہ
شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عراق اور شام میں داعش کا خاتمہ 2015ء میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دورہ ایران کے نتائج اور ثمرات میں سے ایک ہے۔ کیونکہ اس دورے کے بعد داعش کے خلاف ایک علاقائی اتحاد تشکیل پایا اور اس نے امریکہ کی سربراہی میں نام نہاد داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد کی اہمیت ختم کر دی۔ اس علاقائی اتحاد کی تشکیل کے بعد داعش کی شکست اور پسماندگی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب جب عراق اور شام میں داعش اپنی آخری سانسیں لینے میں مصروف ہے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ایک بار پھر تہران آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ داعش کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والے پوسٹ داعش ایرا میں پیش آنے والے سکیورٹی امور ایران اور روس کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کے محتاج ہیں۔

دوسری طرف امریکہ اور سعودی عرب جنہوں نے خطے میں اپنے دلخواہ نئے آرڈر کی حکمفرمائی کیلئے بھاری اخراجات برداشت کئے اب مکمل ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی طرح نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو گوشہ نشین کرنے اور مغربی طاقتوں اور ایران میں منعقدہ جوہری معاہدے کی حیثیت اور اعتبار ختم کرنے کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہو چکی ہیں۔ مختصر یہ کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے حالیہ دورہ تہران کے بعد شام کے سیاسی بحران حتی یمن کی سیاسی صورتحال میں بڑی تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے۔ اب سعودی عرب بھی بہت حد تک روس کی جانب جھکاو اختیار کر چکا ہے اور حال ہی میں سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے ماسکو کا دورہ کیا جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ تہران ریاض تعلقات میں کشیدگی کم کرنے اور دیگر علاقائی ایشوز پر غور کیا گیا ہو گا۔ لہذا ولادیمیر پیوٹن کا دورہ ایران، ایران پر دباو ڈالنے میں امریکہ کی گوشہ نشینی، شام میں پوسٹ داعش ایرا کے سکیورٹی امور کی منصوبہ بندی اور علاقائی سطح پر تشکیل پانے والے داعش مخالف اتحاد میں مزید استحکام جیسے پیغامات کا حامل ہے۔


خبر کا کوڈ: 681273

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/681273/روسی-صدر-کا-دورہ-ایران-چند-اسٹریٹجک-پہلو

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org