0
Thursday 9 Nov 2017 13:08

ڈی آئی خان، ظلم و بربریت کا شکار ہونیوالی حوا کی بیٹی انصاف کی منتظر!

ڈی آئی خان، ظلم و بربریت کا شکار ہونیوالی حوا کی بیٹی انصاف کی منتظر!
رپورٹ: ایس علی حیدر

ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کلاں کے علاقہ گرہ مٹ میں ایک خاندان پر ہولناک قیامت گزر گئی۔27 اکتوبر 2017ء گرہ مٹ میں لڑکے کی گاؤں کی لڑکی سے دوستی کی سزا اس کی 16 سالہ بہن کو دیتے ہوئے ایک گھنٹے سے زائد بھرے بازار و گاؤں کی گلیوں میں لڑکی کو برہنہ پھرایا گیا۔ اس موقع پر لڑکی ایک گھنٹے تک مدد کو پکارتی رہی لیکن اس کی مدد کو کوئی بھی آگے نہیں بڑھا۔ 27 اکتوبر 2017ء بروز جمعہ کی صبح ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کے علاقہ چودہوان کے گاؤں گرہ مٹ میں رونما ہونے والا محض ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ مقتدر قوتوں اور ریاست کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ تھا، جس کی گونج صدیوں تک دامان کی مٹی سے اٹھ کر سندھ کی لہروں میں ارتعاش پیدا کرتی رہے گی۔ جاگیردارانہ نظام کی باقیات تلے پنپتے ہوئے یہ واقعہ ضلع ڈیرہ سے کوسوں دور تحصیل درابن کے تھانہ چودہوان کی حدود میں واقع گاؤں گرہ مٹ کا ہے، جہاں تضحیک آمیز انسانی فعل سے 16 سالہ یتیم و بے آسرا بچی کو مسلح افراد نے برہنہ کرکے مسلسل ایک گھنٹے تک گاؤں کی گلیوں میں بھگایا۔ 16 سالہ یتیم و بے آسرا شریفاں بی بی کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا، متاثرہ بچی کو بستی کے کسی بھی گھر میں پناہ نہ مل سکی۔ اس تنازعے نے گرہ مٹ میں سیال برادری اور کومب برادری کے درمیان اس وقت جنم لیا، جب کومب برادری کی جانب سے سیال برادری کے ساجد نامی لڑکے پر مخالفین کی لڑکی کے ساتھ محبت کا الزام لگایا گیا۔ تنازعے نے شدت اختیار کی تو علاقہ کی معروف سیاسی شخصیت اور تحصیل ناظم ہمایوں خان نے دونوں فریقین میں ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے سیال برادری پر کومب برادری کی بدنامی کے ازالہ کی خاطر پنچائیت میں 2.5 لاکھ روپے جرمانہ کی ادائیگی کے بعد معاملہ رفع دفع کرا دیا۔

اس مصالحت میں ہمایوں خان المعروف مونی خان کے ساتھ بکھی وارڈ کے کونسلر چن شیخ المعروف چن شاہ بھی موجود تھے۔ کومب برادری نے سیال برادری سے تاوان کی رقم تو لے لی مگر اپنے دل سے کدورت ختم نہ کرسکے۔ انتشار کا یہ لاوہ کومب برادری کے اندر ہی اندر پکتا رہا، جس کا نشانہ 27 اکتوبر بروز جمعۃ المبارک سیال برادری سے تعلق رکھنے والے ساجد سیال کی بہن شریفاں بی بی اس وقت بنی، جب وہ گاؤں کے ایک چشمے سے پینے کا پانی بھر کر گھر کو لوٹ رہی تھی۔ کومب برادری کے مبینہ طور پر 9 مسلح افراد نے ساجد سیال کی 16 سالہ بہن شریفاں بی بی کو پکڑ لیا اور قینچی سے اس کے لباس کو تار تار کرکے برہنہ بچی کو ایک گھنٹہ تک گاؤں کی گلیوں میں دوڑاتے رہے، جبکہ معصوم بچی کو شدید وحشیانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ بےحسی و سنگ دلی پر سماعت و بینائی اس وقت ششدر رہ گئی، جب مظلوم شریفاں بی بی کو برہنہ حالت میں گاؤں کے کسی بھی گھر کی دہلیز پر پناہ نہیں ملی۔ اسلحہ بردار انسان نما بھیڑیوں کے خوف سے گاؤں کے ہر گھر سے شریفاں بی بی کو پناہ کی بجائے دھتکار دیا گیا۔ ایک گھنٹے تک یہ شرمناک و انسانیت سوز مناظر گرہ مٹ کی سرزمین نے دیکھے۔ حواس باختہ شریفاں بی بی گاؤں کی گلیوں میں بھاگتی ایک ایک چوکھٹ پر پناہ اور امداد مانگتی رہی، لیکن مسلح افراد کے شکنجے میں پھنسی اس بے آثرا بچی کے نالوں پر کسی ذی روح نے کان نہیں دھرے بلکہ یتیم بچی جس کے گھر میں داخل ہوتی، گاؤں والے اسے باہر نکال دیتے یا مسلح افراد اسے خود ہی گھسیٹ کر باہر نکال پھینکتے۔

جمعہ کے دن جہاں ایک طرف گرہ مٹ کی گلیوں میں انسانیت شرمسار ہو رہی تھی تو دوسری طرف علاقہ مکین رضائے الٰہی کی خاطر خضوع و خشوع سے جمعہ نماز کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ستم ظریفی کی انتہا یتیم و بے یار و مددگار کو بے آبرو کرکے گلیوں میں پھرانے سے بدلے کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تو ظالم درندوں نے مبینہ طور پر برہنہ بچی کی ویڈیو کلپ بھی بنا ڈالی۔ قیامت در قیامت افتاد تب ٹوٹی گاؤں والے تو مارگزیدہ تھے، تھانہ میں پولیس نے داد رسی کی بجائے معاملہ کو غلط رخ دینے کی کوشش کی۔ ایس ایچ او تعاون کی بجائے قانون کی دھجیاں پامال کرتے ہوئے مسلسل ملزمان کو بچانے کی کوشش کرتا رہا۔ مظلوم لڑکی جب اپنے ورثاء کے ساتھ انصاف کی خاطر مقدمہ درج کروانے تھانہ چودہوان پہنچی تو وہاں پولیس نے مسلح غنڈوں کے ساتھ ملک کر پہلے سے شریفاں بی بی کے بھائی خلاف جھوٹی ایف آئی آر 209 کر رکھی تھی۔ پولیس نے ایف آئی آر 210 میں حقائق چھپانے کی خاطر من گھڑت کہانی لکھ کر ملزمان کو بچانے کی کوشش کی اور قانون پر عوامی اعتماد کو بری طرح سے مجروح کیا۔ ایس ایچ او چودہوان نے اور اس کے عملے نے متاثرہ بچی کے خاندان سے ناروا سلوک کیا۔ متاثرہ بچی کے ورثاء کو جھاڑ کر مسلسل جھوٹا قرار دینے اور ذہنی طور پر ٹارچر کرنے کی کوشش کرتے رہے، جس کی اہل علاقہ نے مذمت بھی کی۔ متاثرہ بچی شریفاں بی بی اور اس کی والدہ نے میڈیا کو بتایا کہ یتیم بچی پر ظالموں نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ شریفاں بی بی کو برہنہ کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ متاثرہ بچی اور اس کی کزن کے کانوں سے طلائی زیورات تک اتار لئے۔

شریفاں بی بی کی والدہ نے بتایا کہ جب چودہوان تھانے پہنچے تو ایس ایچ او چودہوان اور تھانے کے عملے نے سفید بالوں کا حیاء تک نہیں کیا اور ہمیں جھوٹا قرار دینے کے ساتھ ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیار کیا۔ اس حوالے سے واقعہ میں جانبداری برتنے پر متاثرہ لڑکی کے بھائی نے آئی جی پولیس کو تحریری شکایت بھی کر دی۔ میڈیا پر خبر آنے کے بعد وزیراعلٰی خیبر پختونخوا پرویز خٹک اور آئی جی پولیس خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے شہر گرہ مٹ میں 16 سالہ لڑکی کو برہنہ کرکے شہر میں گھمانے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے سخت سے سخت کارروائی کا حکم صادر کیا۔ آر پی او کو حکم ملنے کے بعد چودہوان پولیس کو 2 دن کے بعد ہوش آیا کہ گیم ہاتھ سے نکل چکی ہے تو نامزد 9 ملزمان میں سے 8 کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس تمام واقعہ سے پہلے ملزمان کی جانب سے ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی، جس کو بعدازاں محکمہ پولیس نے بوگس قرار دے کر کینسل کر دیا ہے، جس کی تصدیق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر راجہ عبد الصبور نے کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ لڑکی کے خاندان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کینسل کر دی گئی ہے۔ ایک ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود واقعے کا مرکزی ملزم سجاول پولیس کی گرفت میں نہیں آسکا۔ گرہ مٹ میں رونما ہونے والے اندوہناک واقعے کا تفصیلی جائزہ لینے اور اس کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا جا سکتا ہے کہ جس غیر محفوظ معاشرے میں بہن، بیٹی کی عزت محفوظ نہیں، وہاں کیا متاثرہ بچی کا کھویا ہوا وقار بحال ہوسکے گا۔ 16 سالہ لڑکی کے قینچی کے ذریعے کپڑے پھاڑ کر اسے برہنہ کرکے گاؤں میں گھمانے اور تشدد کے واقعہ نے پورے علاقہ پر سکتہ طاری کر دیا ہے۔

پولیس کی تساہلی اور جانبدارانہ رویئے نے متاثرہ خاندان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ 16 سالہ لڑکی شریفاں بی بی کا کہنا ہے کہ وہ دیگر 2 لڑکیوں کے ہمراہ تالاب سے پانی بھر کر واپس گھر جا رہی تھی کہ سجاول نامی شخص نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے مجھے زبردستی اٹھا کر ملزم سیدو کے گھر لے گئے، اس دوران ملزم شاہجہان نے میرے کپڑے پھاڑ دیئے اور مجھے گھسیٹا، جس سے میں پورے جسم میں درد محسوس کرتی ہوں۔ شریفاں بی بی کا کہنا تھا کہ ملزمان میں سے کسی نے مجھے جنسی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔ 16 سالہ لڑکی شریفاں بی بی دختر ساون نے اپنے ورثاء کے ہمراہ رپورٹ درج کرائی کہ وہ دیگر 2 لڑکیوں کے ہمراہ تالاب سے پانی بھر کر واپس جا رہی تھی کہ سجاول نامی ملزم کے گھر کے قریب پہنچنے پر ملزم شاہجان ولد احمد ناصر ولد فیضو، اسلم ولد فیضو، سجاول ولد احمد اقوام سیہڑ جبکہ ثناء اللہ کے گھر سے گلستان، رمضان پسران احمد، سیدو ولد فیضو، ثناء اللہ ولد کالو اور اکرام ولد ساون جو کہ مصلح تھے، نے مجھے زبردستی اٹھا کر ملزم سیدو کے گھر لے گئے۔ اس دوران ملزم شاہجان نے قینچی سے میرے کپڑے پھاڑ دیئے اور مجھے گھسیٹا جس سے میں اپنے پورے جسم میں درد محسوس کرتی ہوں۔ مذکورہ ملزمان نے میری عفت میں خلل ڈالا۔ مذکورہ لڑکی کا کہنا تھا کہ میں بھاگ بھاگ کر ایک ایک گھر میں اللہ کیلئے پناہ مانگتی رہی، لیکن گاؤں کے کسی بھی گھر یا شخص نے مجھے آسرا نہیں دیا۔ مجھے گھسیٹنے سے میرے دائیں گھنٹے اور دائیں بازو پر خراشیں آئی ہیں۔ بعدازاں ملزمان مجھے جنگل میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ شریفاں بی بی نے وجہ عداوت بتاتے ہوئے کہا کہ 3 سال قبل میرا بھائی ملزم شاہجان کی بیٹی کے ساتھ بدنام ہوا تھا، جس کا خانگی فیصلہ بھی ہوچکا ہے، لیکن پھر بھی مجھے انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔

عینی شاہدین اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ لڑکی بالکل برہنہ ہمارے گھر میں پناہ کیلئے داخل ہوئی، لیکن ہم اس کی مدد نہ کرسکے اور ملزمان دوبارہ اس کو اٹھا کر لے گئے۔ شریفاں بی بی کی کزن کا کہنا تھا کہ ہم پانی بھر کر آرہے تھے کہ اسلحہ سے لیس آدمیوں نے جن کے پاس قینچی بھی تھی، انہوں نے اسلحے کی نوک پر میری کزن کے کپڑے پھاڑ دیئے اور برہنہ کرکے گھماتے رہے، میں نے اپنی کزن کو دوپٹہ دیا تو ظالموں نے وہ بھی اتار لیا اور ایک گھنٹے تک گاؤں کی گلیوں میں مارتے پیٹتے رہے، جو کہ ظلم و وحشت اور بربریت کی انتہا ہے۔ حقیقت جو کچھ بھی ہو، لیکن ڈیرہ کے ایک دور دراز گاؤں میں نوجوان لڑکی کو برہنہ کرکے ایک گھنٹے تک گاؤں کی گلیوں میں گھمانا اور تشدد کا نشانہ بنانا ایک المناک واقعہ ہے۔ مظلوم بچی کی چچی نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ جب میں نے یہ خبر سنی تو میں ننگے پاؤں اور بغیر دوپٹے کے گھر سے بھاگی کہ کسی کو آواز دوں کہ اللہ کیلئے ہماری امداد کرو۔ سجاول نامی شخص نے مجھ پر اسلحہ تانتے ہوئے کہا کہ اپنے گھر کے مردوں کو بلا لاو۔ مقامی لوگوں کے مطابق متاثرہ لڑکی کو ایک گھنٹے تک برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گاؤں کی گلیوں میں حوا کی بیٹی برہنہ حالت میں پامال ہوتی رہی۔ زدوکوب ہوتی شریفاں بی بی کے سر پر گاؤں کا کوئی مرد دوپٹہ تک نہ رکھ سکا۔ اگر آگے بڑھ کر کسی نے اللہ کے واسطے امداد کرنے کی کوشش بھی کی تو اسے اسلحے کی نوک پر خاموش کرا دیا گیا۔

ڈیرہ کے ایک دور دراز گاؤں میں نوجوان لڑکی کو برہنہ کرکے گاؤں کی گلیوں میں گھمانا اور تشدد کا نشانہ بنانا ایک المناک واقعہ ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزیراعلٰی پرویز خٹک اور آئی جی صلاح الدین محسود کے نوٹس لینے کے بعد چودہوان پولیس نے ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 354-149-148 کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ کاہلی کا اعلٰی مظاہرہ کرتے ہوئے باقی ماندہ 7 میں سے مزید 6 افراد کو حراست میں لے لیا گیا، سانحے کے مرکزی ملزم سجاول کو پولیس تاحال گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق مقدمے کے مرکزی ملزم کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس تمام واقعہ سے پہلے ملزمان کی جانب سے ایک جھوٹی ایف آئی آر نمبر 209 درج کرائی گئی تھی، جس میں ملزمان کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ متاثرہ لڑکی کے بھائی ساجد سیال نے ملزمان کی خاتون (متو بی بی) کے ساتھ چھیڑ خانی کی ہے۔ محکمہ پولیس کے ایکشن لینے کے بعد ایس پی انوسٹی گیشن ثناء اللہ مروت نے باقاعدہ تحقیق کرنے کے بعد پہلی ایف آئی آر کو بوگس قرار دے کر کینسل کر دیا۔ اگر پہلی ایف آئی آر بوگس ہے تو ابھی تک تھانہ چودہوان کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں کیوں نہیں لائی گئی۔ ایس پی انوسٹی گیشن ثناء اللہ مروت نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس سائنسی بنیادوں پر تفتیش کر رہی ہے۔ حاجی ثناء اللہ محکمہ پویس کے دیندار آفیسر ہیں، لیکن انہیں چاہیئے تھا کہ اپنے ماتحتوں کو پہلے ہی سے اس بات کا پابند کریں کہ تفتیش کو سائنسی بنیادوں پر پرکھنا چاہیئے۔

اب سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، جبکہ تاحال مقدمے میں 7-ATA کا اندراج بھی نہیں ہوسکا اور نہ ہی ایس ایچ او چودہوان کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی ہوسکی ہے۔ تاحال محکمہ پولیس کی اعلٰی سطح کے اسٹاف نے اس معاملے کو عام نوعیت کا سمجھ کر چھوڑ دیا حالانکہ غلط ایف آئی آر دینے اور غلط تحقیق کرنے پر سب سے پہلے آئی جی پولیس خیبر پختونخوا کو نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او چودہوان کو معطل کرنا چاہیئے تھا اور اعلٰی سطح کی تحقیقاتی ٹیم سے انکوائری کرائی جاتی۔ 10 دن گزرنے کے باوجود سانحے کا مرکزی ملزم پولیس کی گرفت سے دور ہے۔ ڈیرہ شہر کے دور دراز گاؤں میں لڑکی کی حرمت سے کھیلنے کے انسانیت سوز واقعے کی حقیقت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افسانے کا روپ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مبینہ طور پر متاثرہ لڑکی کے خاندان پر بااثر اور سیاسی عناصر کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ کیس کی پیروی کو معطل کرتے ہوئے مصالحت کر لی جائے، تاکہ ملزمان سزا سے محفوظ رہیں، تو دوسری طرف واقعے کو گرہ مٹ کی مٹی میں ملا کر ہمیشہ کیلئے خاموشی کی چادر اوڑھا دی جائے، تاکہ تبدیلی اور انصاف کے بلند و بانگ دعوے کرتی صوبائی حکومت مزید بدنامی سے بچ سکے۔ ضلع ڈیرہ کے بعض حلقوں میں چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ میڈیا کی جانب سے بات کو بڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مقتدر حلقوں اور اداروں کو چاہیئے کہ Convention on the Rights of the Child کے آرٹیکلز کا مطالعہ ضرور کریں، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست بین الاقوامی قوانین پر عمل کرتے ہوئے بچوں کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنائے گی۔

Child Protection Act بین الاقوامی سطح پر اہمیت کا حامل ہے اور پوری دنیا میں بچوں کے حقوق اور حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان سمیت کئی ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہوئے ہیں، جس کی رو سے کمسن بچوں و بچیوں کے تحفظ اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں پر جسمانی، جنسی، سماجی، نسلی و دیگر امتیازی سلوک سے غیر محفوظ بچوں کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کمسن بچوں کے ہر طرح کے حقوق کو تحفظ دینے والے بین االاقوامی قانون 54 آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔ آرٹیکل نمبر 3 کے مطابق ریاست اور ریاست کے تمام ستونوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ بچوں کے تحفظ کو ہر صورت ممکن بنائے۔ آرٹیکل 19 کی روح سے بچوں کے استحصال سے گریز کیا جائے گا۔ جسمانی اور ذہنی تشدد، چوٹ یا بدسلوکی اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ 54 آرٹیکل پر مشتمل اس معاہدے میں آرٹیکل 19 میں واضح ہدایات کی گئی ہیں کہ بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے والی ہر ریاست کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ کمسن بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ شومئی قسمت کہ حکومت کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا ڈھول پیٹنے والی کسی سماجی تنظیم نے بھی اس علاقے کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی متاثرہ بچی کی کسی قسم کی مدد کرسکے۔ وطن عزیز پاکستان میں اس قسم کے کئی واقعات نظروں سے اوجھل اور سماعت سے دور ہوتے ہوں گے۔

آر پی او سید فدا حسن شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو بریف کرتے ہوئے کہا کہ نامزد 9 ملزمان میں سے 8 کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور عدالت سے ان ملزمان کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔ مرکزی ملزم سجاول جو ابھی تک مفرور ہے، اس کیلئے پولیس نے مختلف ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں اور بہت جلد وہ بھی پولیس کی حراست میں ہوگا۔ آر پی او نے کہا کہ ثبوتوں اور شواہد کی روشنی میں عدالت میں چالان دینے کے مقررہ وقت سے پہلے ملزم کو گرفتار کر لیں گے۔ پولیس کسی پارٹی کا کردار ادا نہیں کریگی بلکہ حق کا ساتھ دیگی۔ پولیس ملزمان کو سزا دلوا کر عبرت کا نشان بنائے گی۔ فدا حسین شاہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر اس تمام کارروائی کی نگرانی کر رہے ہیں، تاکہ پولیس کی کارروائی کے عمل کو شفاف طریقے سے سرانجام دیا جاسکے۔ پولیس کی غفلت اور کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، جہاں بھی کوئی پولیس آفیسر ملوث ہوا، اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ متاثرہ بچی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پولیس متاثرہ بچی سمیت اس کے گھر والوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے، جب تک عدالت اس کیس کا فیصلہ نہیں سنا دیتی۔ ملزمان کے حوالے سے انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ مقدمے میں 354-A کی دفعات بھی شامل کر دی ہیں۔ اس واقعہ میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر متاثرین کی حق رسی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ظلم و بربریت کا شکار بنت حوا انصاف کی منتظر ہے کہ کیا معاشرہ میں اس کا کھویا ہوا مقام کبھی بحال ہوسکے گا؟ حوا کی بیٹی آج بھی غیر محفوظ ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ بچوں کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنائیگی۔
خبر کا کوڈ : 682180
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش