2
1
Wednesday 8 Nov 2017 22:02

لبنان، سعد حریری کے استعفٰی کے بعد

لبنان، سعد حریری کے استعفٰی کے بعد
تحریر: عرفان علی

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مقیم سعد حریری نے چار نومبر 2017ء بروز ہفتہ لبنان کے وزیراعظم کے عہدے سے استعفٰی کا اعلان کیا جو العربیہ چینل نے نشر کیا۔ لیکن 8 نومبر بروز بدھ کی شب تک مغربی ذرایع ابلاغ کی خبریں اور تجزیے دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ لبنان کے عوام سمجھتے ہیں کہ ان سے زبردستی مستعفی ہونے کا اعلان کروایا گیا ہے۔ بدھ کو ایک لبنانی خبر رساں ادارے نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر جاری کی ہے جبکہ برطانوی روزنامہ ڈیلی میل نے سات نومبر کو اپنی خبر کی یہ سرخی لگائی:Did Saudi Arabia force Lebanon's PM to quit? Stunned Lebanese believe Saad Hariri was made to resign to wreck his ties with Kingdom's enemy-Iranکرسچین سائنس مانیٹر میں نکولس بلینفورڈ نے لکھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکومت نے سعد حریری کو اسی کام کی انجام دہی کے لئے بیروت سے طلب کیا تھا۔ امریکن یونیورسٹی آف بیروت میں شعبہ پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ھلال خشان کہتے ہیں کہ سعد حریری نے اپنے سیاسی حریفوں کی بہت سی شرائط تسلیم کی تھیں، تب جا کر وہ وزیراعظم بنے تھے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اتنی تگ و دو کے بعد حاصل ہونے والی وزارت عظمٰی بغیر سعودی دباؤ کے چھوڑ دیں۔

قطع نظر اس کے کہ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ یا ایرانی حکومت نے اس موضوع پر کیا کہا، جو کہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، دیگر لبنانیوں، غیر ملکی ماہرین اور دیگر ممالک کی حکومتوں کے ردعمل پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے۔ دیگر ممالک کے ردعمل سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سعد حریری کی خاطر لبنانی ریاست سے تعلقات منقطع کرنے کے موڈ میں نہیں۔ یورپین یونین کے ممالک کے لبنان میں متعین سفیروں کی طرف سے جو بیان 8 نومبر کو لبنانی دارالحکومت میں سامنے آیا ہے، اس کے مطابق انہوں نے لبنان کی خود مختاری، اتحاد، استحکام اور سلامتی کی بھرپور حمایت کی ہے۔ انہوں نے سارے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تعمیری مکالمہ کریں اور لبنان کے اداروں کو مستحکم کرنے اور آئین کے مطابق پارلیمانی انتخابات منعقد کروانے کے لئے پچھلے گیارہ مہینوں کی محنتوں کو ضایع نہ ہونے دیں بلکہ اسے جاری رکھیں۔ یورپی یونین کے سفیروں نے کہا ہے کہ یورپی یونین مضبوط شراکت داری کے فریم ورک کے تحت لبنان کا ساتھ دے گی اور معاونت جاری رکھے گی۔ لبنان میں متعین امریکی سفیر ایلزبتھ رچرڈ نے امریکی حکومت کی سینیئر ایگزیٹیو سروس کی رکن اور ڈپٹی انڈر سیکریٹری آف ایئر فورس انٹرنیشنل افیئرز ہیڈی گرانٹ کے ساتھ لبنانی فوج کے سربراہ جنرل جوزف عون سے ملاقات کی اور سرحدی آپریشن پر اخراجات کی مد میں امریکی حکومت کی جانب سے چار کروڑ انتیس لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا اعلان کیا۔ دوسری جانب روسی وزارت خارجہ نے سات نومبر کو بیان دیا کہ وہ ساری غیر ملکی قوتیں جن کا لبنان میں اثر و رسوخ ہے وہ تحمل سے کام لیں اور تعمیری موقف اپنائیں۔ یہ ردعمل بتا رہا ہے کہ یہ ممالک لبنان سے تعقات خراب نہیں کریں گے، حتٰی کہ امریکہ بھی ظاہری طور پر اس حد تک نہیں جائے گا کہ جس سطح پر سعودی عرب نے تعلقات خراب کر لئے ہیں۔

سعودی وزیر ثامر السبھان نے پچھلے ہفتے لبنان کے ایم ٹی وی چینل سے بات چیت میں کہا تھا کہ لبنان کے لئے حیرت انگیز تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ ان کا وہ بیان ہی یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کے تحت کیا جا رہا ہے۔ یہ سعودی وزیر ثامر السبھان عراق میں سعودی سفیر مقرر کئے گئے تھے تو عراق کے عوام و خواص نے ان کی متعصبانہ روش اور حرکتوں کی وجہ سے انہیں ناپسندیدہ قرار دے دیا تھا اور عراقی حکومت نے سعودی حکومت سے کہہ کر انہیں عراق نکالی دے دی تھی۔ یہ وہاں سے ناکام ہوکر نکلے تھے۔ ماہ اکتوبر2017ء میں انہوں نے امریکی عہدیدار کے ساتھ شام کے شہر رقہ کا دورہ کیا، جہاں امریکی حمایت یافتہ مسلح گروہوں (شام کی حکومت کے باغی دہشتگردوں) سے ملاقات کرکے انہیں مدد و حمایت کا یقین دلایا۔ سعودی عرب شام، عراق، لبنان اور پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا طویل ریکارڈ رکھتا ہے، اس کے باوجود مداخلت کا الزام ایران اور اس کے حامی گروہوں پر ڈالتا ہے۔ سعد حریری اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ انکے والد نے 1970ء کے عشرے میں تعمیراتی کمپنی اوگر قائم کی تھی، جس نے سعودی عرب میں کاروبار کرکے کافی منافع کمایا، لیکن اب یہ کمپنی دیوالیہ ہوچکی ہے۔ چونکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آج کل اپنے وفاداروں کا امتحان لے رہا ہے اور جو امتحان میں ناکام ہو جائے اسے سزا دے رہا ہے، اسی پالیسی کی زد پر سعد حریری بھی آچکے ہیں۔ نہیں معلوم کہ اتنی بڑی قربانی کے بعد بھی سعد حریری کی اوگر کمپنی بحال ہوسکے گی، لیکن لبنان کو سعودی عرب نے ایک اور مرتبہ سیاسی بحران اور داخلی انتشار میں دھکا دینے کی سازش کی ہے۔ لبنان اس وقت 75 بلین ڈالر کا مقروض ہے، جو کہ اس کے جی ڈی پی کا 140 فیصد ہے اور یہ قرضے کی بلند ترین سطح سمجھی جاتی ہے کہ کوئی ملک اپنی جی ڈی پی سے بھی کئی فیصد زیادہ رقم کا مقروض ہو جائے۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی لبنان کے بارے میں خبر دی ہے کہ لبنانیوں کی نظر میں حریری کا استعفٰی درحقیقت سعودی عرب کی طاقت کا کھیل یا ایک چال ہے۔ اے پی کی رپورٹ مزید کہتی ہے کہ لبنانیوں کی نظر میں سعودی عرب کہیں اور کی اپنی نیابتی جنگ کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے لبنان کے سیاسی توازن کو بگاڑ رہا ہے، کیونکہ جوں جوں شام میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی پیش قدمی میں اضافہ ہوا، امریکہ اور سعودی عرب نے سعد حریری پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا، تاکہ وہ حزب اللہ سے دوری اختیار کریں۔ اب ثامر السبھان نے 6 نومبر کو بیان میں پورے ملک لبنان پر الزام ڈال دیا ہے۔ العربیہ سے انٹرویو میں الزام لگایا ہے کہ لبنانی حکومت نے سعودی حکومت سے اعلان جنگ کر دیا ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ حتٰی کہ سعودی وزیر خارجہ کا یہ الزام بھی بے بنیاد ہے کہ حزب اللہ نے ایران کا تیار کردہ کوئی میزائل یمن سے بیٹھ کر سعودی عرب پر فائر کیا ہے، کیونکہ سعودی عرب نے یمن پر یکطرفہ جنگ مسلط کر رکھی ہے اور یمن کے عوام اور ان کی نمائندہ تنظیم حرکت انصار اللہ یمن کے دفاع میں مصروف ہے۔ ہم ماضی میں بھی اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ اب امریکی پالیسی یہ ہے کہ وہ براہ راست سعودی بادشاہت کو اپنے مخالفین کے سامنے لے آیا ہے، ماضی میں سعودی امریکی کاندھا استعمال کرتے تھے اور مرکزی کردار امریکہ ہی کا ہوتا تھا، لیکن اب امریکہ سعودی عرب کو ہی مرکزی کردار پر لے آیا ہے، خواہ وہ مسئلہ یمن ہو یا ایران اور شام کی حکومتوں کے ساتھ تعلقات ہوں یا اب قطر کی حکومت ہو، سعودی عرب احمقانہ انداز میں امریکہ کی جگہ لے رہا ہے، جبکہ وہ اس صلاحیت سے ہی محروم ہے کہ وہ کوئی جنگ لڑ کر جیت بھی سکے اور اس کی ناقابل تردید مثال خود یمن جنگ ہے، جہاں کسی ریگولر آرمی سے اس کا سامنا نہیں ہے۔

صورتحال کا ایک داخلی و خارجی رخ یہ ہے جو بیان ہوا اور دوسرا رخ یہ ہے کہ لبنان کے اسٹیک ہولڈرز سعد حریری کے استعفٰی کے بعد کے حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی مرتب کرنے میں مصروف ہیں۔ لبنان میں وزیراعظم سے زیادہ اہم عہدہ صدر کا ہوتا ہے۔ اس عہدے پر فائز میشال عون نے استعفٰی کے بعد سیاسی و عسکری حکام سے مشاورت کی۔ میشال عون سابق لبنانی صدور میشال سلیمان اور ایمیل لحود، سابق لبنانی وزرائے اعظم، نجیب میقاتی، فواد سنیورا ور تمام سلمان، سابق لبنانی اسپیکر حسین الحسینی، لبنانی جماعت القوات اللبنانیہ کے سربراہ سمیر جعجع، حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ محمد رعد، الحزب الدیقراطی اللبنانی کے رہنما طلال ارسلان، الحزب التقدمی الاشتراکی کے نمائندے تیمور جنبلاط ، مرادی تحریک کے سلیمان فرنجیہ، کتائب پارٹی کے سامی جمیل، تشنگ پارٹی کے ہیگوپ لکرادونیان، اور المستقبل کی رہنما بھیہ الحریری جو سعد حریری کی پھوپھی ہیں، ان سے بھی صدارتی بعبدہ محل میں ملاقاتیں کیں اور صورتحال پر مشاورت کی۔ سابق وزیراعظم میقاتی ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام کے حق میں ہیں، جبکہ سابق صدر میشال سلیمان ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے ذریعے پارلیمانی انتخابات کے حق میں ہیں، لیکن یہ حکومت قومی اتفاق رائے سے قائم کی جائے۔ میشال عون غیر ملکی سفیروں کے ساتھ نشست کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ حریری کی جماعت المستقبل کی ہفتہ وار نشست منگل سات نومبر کو ہوئی، جس میں اس جماعت کے پارلیمانی بلاک نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ سعد حریری کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ سبھی لبنانی اسٹیک ہولڈرز حریری کی واپسی کے منتظر ہیں۔ لبنان کا دارالفتویٰ بھی اس وقت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے، جہاں سعودی سفارتخانے کے چارج ڈی افیئرز ولید بن عبداللہ بخاری نے پانچ نومبر کو مفتی اعظم شیخ عبداللطیف سے ملاقات کی جبکہ فرانسیسی سفیر برونو فاؤچر، سابق لبنانی صدر امین جمایل، سمیر جعجع سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں نے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ سعد حریری کو مغربی انٹیلی جنس اداروں نے گمراہ کن اطلاع دی تھی کہ انہیں قتل کرنے کی سازش تیار کی جا چکی ہے۔ لبنان کی مسلح افواج کی جانب سے بھی بیان آچکا ہے کہ انہوں نے اب تک جو گرفتاریاں کیں اور تفتیش کی ہے، ان میں سے کسی کا بھی تعلق حریری کے خلاف کسی سازش سے نہیں ہیں اور داخلی جنرل سکیورٹی کے سربراہ میجر جنرل عباس ابراہیم نے ال میادین چینل سے بات چیت میں بھی یہ وضاحت کی کہ ایسی کوئی اطلاع کسی طرف سے بھی نہیں ملی کہ حریری کو قتل کرنے کی سازش کسی نے تیار کر رکھی ہے۔ لبنان کی مسلح افواج کا یہ تردیدی بیان سعد حریری کے اس دعوے کو جھوٹا ثابت کرتا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔ اگر انکی جان کو کوئی خطرہ بھی ہوا تو وہ انہی دشمنوں سے ہوگا، جنہیں وہ دوست سمجھنے کی غلطی کرتے آئے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر نے 6 نومبر کو ٹویٹ بیان میں کہا ہے کہ حریری کے استعفٰی کے بعد لبنان اب پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ سعودی وزیر یہ بتائیں کہ جمعہ کے روز ایران کے سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی سے ملاقات کے فوری بعد سعد حریری کو ریاض کیوں طلب کیا گیا تھا اور ایک دن بعد استعفٰی کا اعلان یہ ثابت کرتا ہے کہ سعد حریری کی ایرانی حکام سے ملاقاتیں سعودی بادشاہت کو ناگوار گذر رہی تھیں! ثابت یہ ہو رہا ہے کہ لبنان کے داخلی امور میں مداخلت ایران نے نہیں بلکہ سعودی عرب نے کی ہے۔

دوسری طرف پیر کے روز ہی حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ سے لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسل نے پانچ گھنٹے طویل ملاقات کی ہے، دونوں نے لبنان کے اتحاد، امن و سلامتی و استحکام پر تاکید کی۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے لبنانی صدر سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران ہمیشہ کی طرح لبنانی قوم کے ساتھ کھڑا رہے گا اور لبنان کے ثبات و استقرار کو تقویت دینے کے لئے کسی تعاون سے دریغ نہیں کرے گا۔ بدھ 8 نومبر کو ایرانی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے سعودی عرب کے الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ تم ایران کی طاقت اور مقام و مرتبے کو بخوبی پہچانتے ہو اور یہ بھی کہ تم سے زیادہ بڑی قوتیں (بالخصوص امریکہ) ایران کے خلاف کچھ نہیں کرسکیں۔ البتہ انہوں نے سعودی عرب پر واضح کیا ہے کہ ایران خطے کے امن و سلامتی کے لئے دیگر ممالک کے بارے میں نیک خیالات رکھتا ہے اور سعودی عرب یہ سمجھتا ہے کہ ایران اسکا دوست نہیں ہے بلکہ امریکہ و اسرائیل سعودی عرب کے دوست ہیں تو یہ تفکر سنگین خطا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سعودی بادشاہت پر ایرانی صدر کی نصیحت اثر نہیں کرے گی اور تباہی کی جس راہ کو اس نے اپنے لئے چن لیا ہے، اسی پر چلے گی۔ اب تک کی صورتحال کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ لبنان کی پیچیدہ داخلی سیاست کے باوجود لبنانی سعودی عرب کی لبنان دشمن پالیسیوں کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 682219
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Agha kamran
Pakistan
bohot khoob jazakallah
Pakistan
Thanks
ہماری پیشکش