2
0
Sunday 12 Nov 2017 16:44

محمد بن سلمان کو سعودی بادشاہ بنانیکی کوششیں تیز

محمد بن سلمان کو سعودی بادشاہ بنانیکی کوششیں تیز
تحریر: عرفان علی

نوٹ: قبل اس کے کہ اس تحریر کا آغاز کروں، قارئین کی توجہ اپنے ہی ایک مقالے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں: 10 مارچ 2016ء کو اس ناچیز نے ’’سعودی عرب پاکستان سے کیا چاہتا ہے‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مقالے کے آخری پیراگراف میں لکھا تھا کہ ’’سعودی عرب کو لاحق خطرات میں سب سے بڑا خطرہ سعودی شاہی خاندان کے اہم افراد کے اختلافات ہیں۔ موجودہ بادشاہ بھی عمر رسیدہ ہیں اور جلد ہی نئے بادشاہ ان کی جگہ براجمان ہوں گے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ ان کا بیٹا جو اس وقت نائب ولی عہد ہے، اسے اپنی زندگی میں ہی بادشاہ بنا دیں، لیکن ان کے بھتیجے محمد بن نائف ولی عہد ہیں اور وہ اس راستے میں کانٹے کی طرح کھڑے ہیں۔ مجھے تو یمن جنگ کے حوالے سے بھی شک ہے کہ کہیں سعودی شاہی خاندان ایک دوسرے کے مخالفین کو مار کر اسے یمن جنگ کے کھاتے میں نہ ڈال دیں، کیونکہ کئی مرتبہ خبریں آئی ہیں کہ یمن سے جنگ کرتے ہوئے فلاں سعودی شہزادہ زخمی ہوگیا۔ دوسرا بڑا خطرہ داعش یا القاعدہ یا کسی بھی اور عنوان سے کام کرنے والے وہابی دہشت گرد ہیں، جو اب اپنے سرپرست بادشاہی خاندان سے متنفر ہوکر ان کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ موجودہ ولی عہد پر 2009ء میں تیسرا قاتلانہ حملہ ہوا تھا، تب وہ مملکت کی اندرونی انٹیلی جنس مباحث کے سربراہ تھے اور حملہ وہابی دہشت گردوں نے ہی کیا تھا۔ ممکن ہے کہ اب جو حملہ ہو، وہ خود شاہی خاندان کے اختلافات کی وجہ سے کیا جائے اور الزام دہشت گردوں پر ڈال دیا جائے۔ سعودی عرب کو ایران، شام یا یمن کے حوثیوں سے نہیں بلکہ ہم مسلک وہابی دہشت گردوں سے ہی حقیقی خطرہ لاحق ہے اور پاکستان سمیت کوئی بھی ملک اس کا تدارک نہیں کرسکتا، کیونکہ اس گھر کو آگ لگے گی گھر کے چراغ سے!‘‘) (اس وقت ولی عہد محمد نایف تھے اور وقت نے ثابت کیا کہ میری بات حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے)

چار نومبر 2017ء کو سعودی خبر رساں ادارے نے خبر جاری کی کہ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بدعنوان افراد کے احتساب کے لئے ایک اعلٰی سطحی اینٹی کرپشن کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا اور اس کا سربراہ اپنے لاڈلے بیٹے محمد بن سلمان کو مقرر کیا ہے اور اسی دن سعودی عرب کے بعض بااثر شہزادوں، وزراء، وہابی علماء اور نامور کاروباری افراد سمیت 208 افراد کو تحویل میں لیا گیا۔ اٹارنی جنرل شیخ سعود الموجب کے مطابق ان میں سے سات افراد کو پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا ہے، جبکہ 201 افراد بدستور تحویل میں ہیں۔ سعودی عرب میں مالی بدعنوانی سے نمٹنے کے لئے الھیءۃ الوطنیہ لمکافحۃ الفساد یعنی قومی اینٹی کرپشن پہلے سے موجود تھا، لیکن اس کے ہوتے ہوئے ایک ادارے کا آناً فاناً بنایا جانا اور اسی ادارے کی جانب سے بغیر کسی تاخیر کے دو سو سے زائد افراد کو تحویل میں لے کر دنیا پر یہ ظاہر کرنا کہ کئی عشروں کے دوران ایک سو بلین ڈالر کی مالی بدعنوانی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، یہ دعویٰ اور اس پورے عمل کی شفافیت تاحال دنیا کی نظر میں مشکوک ہے۔ خاص طور پر اہل پاکستان احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کے بہت سارے ڈراموں کے ناظر رہ چکے ہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوار حکومت میں ایک دوسرے کے احتساب پر زور دیا جاتا رہا، لیکن سزا کے بغیر مقدمات چلتے رہتے۔ ان دونوں کی اس روش سے بیزاری ظاہر کرکے اقتدار پر قبضہ جمانے والے جنرل پرویز مشرف نے بھی سات نکاتی ایجنڈا میں کرپشن کے خلاف اقدامات کا ڈھنڈورا پیٹا اور 2002ء کے الیکشن کے وقت ایسے تمام سیاستدانوں کو اپنی صدارت کی چھتری تلے میر ظفر اللہ جمالی کی وزارت عظمٰی کے تحت بننے والی حکومت میں وزیر بناکر ان کی مبینہ کرپشن سے چشم پوشی کرلی تھی، آفتاب شیرپاؤ، پی پی پی کا پیٹریاٹ گروپ جس کے روح رواں راؤ سکندر اقبال اور فیصل صالح حیات تھے، یا چوہدری برادران وغیرہ، سبھی پرویز مشرف کے لاڈلے بن گئے۔ احتساب کے اس پاکستانی ماڈل کے پیش نظر ہمیں بھی یہی خدشہ ہے کہ زبردستی سعودی ولی عہد بننے والا شہزادہ محمد بن سلمان بھی اپنے سیاسی مخالفین سے یہ چاہتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کے بادشاہ بننے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ اس خدشے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک محمد بن سلمان اپنے مخالفین کو لالچ اور دباؤ سے ہی اپنا ہمنوا بناتے رہے ہیں۔

سی این این کے انٹرنیشنل ڈپلومیٹک ایڈیٹر نک رابرٹسن کے مطابق شاہی خاندان کے ایک سینیئر فرد نے انہیں بتایا تھا کہ محمد بن سلمان اگر یمن جنگ میں ناکام ہوا تو پھر سعودی شہزادے ولی عہد کو دستبردار ہونے کا کہیں گے، لیکن اسی فرد سے دوبارہ اس سال ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ محمد بن سلمان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوگا، سب خاموش رہیں گے کیونکہ کسی بھی شہزادے کے پاس اتنی طاقت اور دولت نہیں ہے۔ چند ماہ بعد اسی سینیئر فرد کو سعودی ولی عہد نے ایک اہم منصب پر فائز کر دیا تھا۔ یعنی مخالفین کی ہمدردیاں اس طرح خریدنے کا ایک عمل جاری ہے۔ البتہ بعض بدقسمت شہزادے ایسے ہیں کہ ان کا زندہ رہنا ہی محمد بن سلمان کے اقتدار کے لئے مستقل خطرے کی گھنٹی تصور کیا جائے گا، جس میں سابق بادشاہ عبداللہ کا بیٹا شہزادہ متعب سرفہرست اس وجہ سے ہے کہ وہ سعودی عرب کی مسلح افرادی قوت نیشنل گارڈ کا وزیر تھا۔ شاہ فہد کا بیٹا اگرچہ عمر میں چھوٹا ہے، لیکن اس کے بارے میں افواہ یہ ہیں کہ اسے مار دیا گیا ہے، البتہ سعودی حکام کہتے ہیں کہ وہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ اچھی حالت میں بھی ہے۔ سابق ولی عہد شہزادہ مقرن کا ایک بیٹا یمن کی سرحد کے قریب ایک مشکوک ہیلی کاپٹر کریش میں مرا ہے۔ بادشاہ سلمان نے پہلے مرحلے میں اپنے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ہٹاکر بھتیجے محمد بن نایف کو ولی عہد بنایا تھا اور جون میں اس کو بھی زبردستی ہٹاکر بالآخر اپنے لاڈلے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد بنا دیا۔ یعنی محمد بن سلمان پہلے ہی دو ولی عہد شہزادوں کو اپنی راہ سے ہٹوا چکا ہے۔ اس کے باوجود ان دونوں کا زندہ رہنا ہی محمد بن سلمان کے لئے مستقل خطرہ ہے۔ یقیناً سوال یہ ہوگا کہ یہ شہزادے کس حیثیت میں خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، جبکہ انہیں انکے عہدوں سے ہٹا دیا جائے تو پھر بھی ان سے خطرہ کیسے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سعودی نیشنل گارڈ بھی ایک طرح کی فوج ہے اور اس میں تقریباً ایک لاکھ فوجی تربیت یافتہ قبائلی سعودی شامل ہیں، جن میں اکژیت سابق بادشاہ عبداللہ کے اپنے ننھیالی قبیلے شمر(shammar)کے افراد کی ہے اور وہ بادشاہ عبداللہ اور ان کے بعد انکے بیٹے متعب کی بیعت میں تھے۔ 1950ء کے عشرے سے عبداللہ بن عبدالعزیز اس نیشنل گارڈ کے سربراہ رہے تھے اور ان کے بعد انکے بیٹے متعب ان کے جانشین بنے۔ سعودی عرب کی زمینی فوج دو لاکھ سے کچھ زائد افرادی قوت کی حامل ہے اور وزیر دفاع کی حیثیت سے محمد بن سلمان کے ماتحت ہے، لیکن نیشنل گارڈ کی وفاداری سابق بادشاہ عبداللہ کے خاندان سے وابستہ ہے۔ اسی طرح محمد بن نایف کے والد نایف بن عبدالعزیز سعودی وزیر داخلہ تھے، وہاں محمد بن نایف انکے جانشین قرار پائے۔ وزارت داخلہ کی بیوروکریسی انکے والد اور خود انکے وفاداروں پر مشتمل ہے۔ مقرن بن عبدالعزیز سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ ان کے وفادار بھی سعودی سکیورٹی اداروں میں موجود ہیں۔ عہدوں سے ہٹائے جانے کے باوجود یہ سعودی شہزادے اس لئے سیاسی خطرہ ہیں کہ سعودی حکمران اداروں میں انکے وفادار بھی بغاوت برپا کرکے ان کو دوبارہ طاقتور بناسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں جو شہرت ولید بن طلال کی ہے، وہ شاید دیگر کی نہ ہو۔ اس ارب پتی شہزادے کو قید کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کہیں یہ اپنی آزاد خیالی، سیکولر ذہنیت اور مغربی ممالک میں لابنگ کے ذریعے خود بادشاہ یا بادشاہ گر کی حیثیت حاصل نہ کرلے۔ وزراء، نائب وزراء، سابق وزراء اور بحریہ کے سربراہ کو ہٹانے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ صرف محمد بن سلمان کے سو فیصد وفادار افراد کو آگے لایا جائے، ایسے افراد کہ جو شاہی خاندان کے دیگر افراد کے وفادار نہ ہوں۔

کاروباری شخصیات کو تحویل میں لینے کا مقصد بھی احتساب نہیں ہے، بلکہ محمد بن سلمان نے غیر ملکی مشاورتی اداروں بالخصوص میک کنسے کے توسط سے جو وژن 2030ء بنایا ہے اور بحر احمر پر اردن کی سرحد سے قریبNEOMنامی جو نیا سعودی شہر وہ بنانا چاہتے ہیں، اس میں ابتدائی نوعیت کی سرمایہ کاری کے لئے زبردستی کا تعاون کاروباری افراد سے درکار ہے۔ اب تک سعودی عرب کے شاہی خاندان نے جو کچھ کمایا ہے، وہ سعودی تیل کمپنی آرامکو سے کمایا ہے، دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس میں کس سعودی بادشاہ اور شہزادے کو کتنا حصہ ملا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ پہلی مرتبہ سعودی آرامکو کے صرف پانچ فیصد حصص فروخت کئے جائیں گے۔ اقتصادی اصطلاح میں اسےInitial Public Offeringکہتے ہیں، یعنیIPO۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے اسٹاک ایکسچینج بالخصوص نیویارک اور لندن اسٹاک ایکسچینج بھی سعودی آرامکو کی وہیں اپنے یہاں رجسٹریشن کروانا چاہتے ہیں، جیسا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی ایک ٹویٹ پیغام میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہو، لیکن مغربی اقتصادی معیارات کے مطابق اس کے مالی امور کی دستاویزات کا ہونا ضروری ہے، یعنی پیداوار، آمدنی، اخراجات، منافع کی تفصیلات اور یہ کسی عالمی تسلیم شدہ آڈٹ کمپنی کی تصدیق شدہ ہوں، لیکن سعودی عرب کے پاس ایسا کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ امریکی اور برطانوی حکومتیں اور قانون ساز اداروں کو سعودی آرامکو کی وہاںIPOکیلئے قوانین میں ترمیم کرنا ہوں گی اور مغربی تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ سعودی آرامکو کیIPOشاید چین یا روس میں زیادہ آسان ہو کہ وہاں اس سے ماضی کے ریکارڈ کا شاید نہ پوچھا جائے اور مطلوبہ رعایت آسانی سے میسر ہوسکے۔ گو کہ کہ یہ مرحلہ اگلے سال طے ہوگا، لیکن بہرحال سعودی بادشاہت کو دیگر ممالک سے سرمایہ کاری اور آرامکو کیIPOکے لئے اپنے مالی امور میں شفافیت تو لانا ہوگی اور کاروباری حضرات کے ذریعے ہی یہ ممکن ہوسکے گا، اس لئے بڑے سعودی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو بھی تحویل میں لیا گیا ہے، تاکہ ان پر کرپشن کا الزام لگا کر بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز، شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کے خاندان اور وفاداروں کو بچایا جاسکے۔

اقتصادی صورتحال کی خرابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے یمن جنگ شروع کر دی۔ 2015ء میں سعودی عرب فوجی اخراجات کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک تھا، یہ اخراجات روس اور نیٹو کے رکن ممالک سے بھی زیادہ اخراجات ہیں۔ اس کے فی کس فوجی اخراجات 6900 ڈالر سالانہ ہیں۔ یمن جنگ کے نقصانات بھی سعودی شاہی خاندان نے محمد بن سلمان کے کھاتے میں ڈال دیئے ہیں۔ اب وہ بدنامی سے بچنے کے لئے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے خارجی سطح پر ایران اور حزب اللہ کے خلاف الزامات لگا رہے ہیں تو داخلی سطح پر انکے اقتدار کے لئے چیلنج بننے والے شہزادوں کو لالچ اور دباؤ کے ذریعے خاموش کروا رہے ہیں۔ وہابی مولوی حضرات میں سے بعض کو اس لئے تحویل میں لیا ہے، تاکہ وہ سعودی عرب کو جدید مغربی ثقافت کے تحت تبدیل کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ مرد و عورت گلیوں بازاروں میں گھومیں پھریں یا کسی اسپورٹس اسٹیڈیم میں ساتھ بیٹھیں تو مذہبی ادارے ان کے خلاف کارروائی نہ کریں۔ وہابی مولویوں کے خلاف کارروائی اس لئے ضروری ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بارے میں دنیا بھر میں یہ مشہور ہے کہ دیگر ممالک میں مذہبی انتہاء پسندوں کو سعودی فنڈنگ ان کے ذریعے ہوتی تھی اور ان مذہبی انتہاء پسندوں نے امریکہ اور بعض مغربی ممالک میں بھی کارروائیاں کی تھیں۔ نائن الیون کے واقعہ کا الزام بھی سعودی بادشاہت اور سعودی وہابیوں پر عائد ہوا ہے اور امریکہ میں جسٹس اگینسٹ اسپانسر آف ٹیررازم ایکٹ (جسٹا) بھی سعودی عرب کے خلاف ہی منظور ہوا ہے۔ اس ایکٹ کی وجہ سے بھی سعودی آرامکو کی امریکی اسٹاک ایکسچینج میںIPOہونا مشکل امر ہے۔ مذہبی انتہاء پسندی کے الزام سے بچنے کے لئے سعودی عرب وہابی مولویوں کے خلاف نمائشی اقدامات پر مجبور ہوا ہے۔

سعودی عرب میں شاہی خاندان کی مالی بدعنوانی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے، لیکن کیا شہزادہ محمد بن سلمان اس الزام سے بری ہیں؟ پچھلے سال جنوبی فرانس میں پکنک مناتے ہوئے محمد بن سلمان نے 440 فٹ ایک امیرانہ چھوٹا جہاز (کشتی) خریدی تھی، جس کی مالیت 55 کروڑ امریکی ڈالر تھی۔ کیا محمد بن سلمان بتا سکتے ہیں کہ پچپن کروڑ ڈالر انہوں نے کہاں سے کمائے تھے؟ صدر ٹرمپ نے اس سال سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تو انہیں مہنگے تحائف دیئے گئے، جس کی مالیت پاکستانی اخبارات نوائے وقت، دی نیشن اور پاکستان ٹوڈے کے مطابق ایک بلین 20 کروڑ ڈالر تھی۔ سعودی عرب میں بے روزگاری کی غیر سرکاری شرح پچیس فیصد ہے، مالی بجٹ خسارے کا شکار ہے، غیر ملکی ملازمین کو ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار کرکے انہیں انکے وطن واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اسی بدترین صورتحال میں صرف ایک خریداری پر پچپن کروڑ ڈالر کا خرچہ، صرف ایک من پسند سفید فام نسل پرست صدر ٹرمپ پر ایک بلین بیس کروڑ ڈالر کے تحفے، کیا یہ مالی بدعنوانی نہیں ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا حتٰی کہ وہ امریکی جو آل سعود کی بادشاہت کے مخالف نہیں، سبھی کی نظر میں موجودہ احتساب کا عمل مشکوک ہے اور اس کا ہدف محمد بن سلمان کی بادشاہت کی راہ میں رکاوٹ تصور کئے جانے والے شہزادوں کو بے اثر کرنا ہے۔

البتہ محمد بن سلمان نے اس مرتبہ ایک تیر سے کئی شکار کر لئے ہیں اور میڈیا مالکان اور مولوی حضرات بھی اس لئے زد پر ہیں کہ کہیں سے بھی آل سلمان کے اقتدار کے مخالف شہزادوں کو مدد اور حمایت نہ مل سکے اور اس سارے غیر شفاف نام نہاد احتسابی عمل کا ہدف صرف ایک ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ آل سعود خاندان میں عبدالعزیز کے بعد سے اس کے بیٹوں سعود، فیصل، خالد، فہد، عبداللہ کے بعد اب سلمان بادشاہت کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عبدالعزیز کے بیٹوں کی زندگی میں ہی شاہ سلمان بادشاہت کو عبدالزیز کے پوتوں کی طرف منتقل کرنا چاہ رہے ہیں اور پوتوں میں بھی انہوں نے یہ منصب اپنے 32 سالہ بیٹے محمد بن سلمان کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے، جبکہ دیگر بڑے بیٹوں کی اولاد یعنی عبدالعزیز کے بڑے پوتے موجود ہیں۔ سابق بادشاہ فیصل کے بیٹے بشمول ترکی بن فیصل، سابق ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز کے بیٹے بشمول بندر بن سلطان وغیرہ بھی ابھی زندہ ہیں اور یہ سب کچھ شاہی خاندان کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر کیا جا رہا ہے، کیونکہ مشاورتی اجلاسوں میں کئی شہزادوں نے مخالفت کا اظہار کیا اور اس کے بعد ایسے مخالف شہزادوں پر کرپشن کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ شاہ سلمان کے بعد بادشاہت کی منتقلی کوئی آسان کام نہیں ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 682964
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام
کیا بات ہے عرفان صاحب، عربوں کے اندر کے اختلافات کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ بہرحال ظہور کا زمانہ قریب ہے، یہ لوگ جتنی بھی چبلیں مار لیں، جیسے حریری کا استعفٰی وغیرہ وغیرہ ۔۔ مگر حق چھا کر ہی رہی گا، یہ اللہ کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے۔ ان کے سارے مکر دہرے کے دہرے رہ جائیں گے۔
Pakistan
Thanks
ہماری پیشکش