0
Wednesday 15 Nov 2017 21:24

جدید امریکی صہیونی سازش اور آل سعود کا کردار

جدید امریکی صہیونی سازش اور آل سعود کا کردار
تحریر: حسین شیخ الاسلام

خطے میں فتنہ انگیزی امریکہ اور اسرائیل کی مستقل پالیسی کا حصہ ہے اور آل سعود رژیم بھی اس میں بھرپور کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ مشرق وسطی کو ایسے خطے میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے جو مکمل طور پر اسرائیل سے دوستی اور امریکہ سے تعاون پر آمادہ ہو۔ لیکن اس خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک نے ان تمام امریکی صہیونی منصوبوں کو ناکامی کا شکار کر دیا ہے۔ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بپھرے ہوئے عوام کے ہاتھوں امریکہ کے حمایت یافتہ ڈکٹیٹرز کی سرنگونی اس بات کا باعث بنی ہے کہ امریکی حکام خطے میں اپنا اثرورسوخ ختم ہونے کے شدید خطرے کا احساس کرنے لگیں۔ لہذا امریکہ، اسرائیل اور ان کے حامی ممالک نے خطے میں اسلامی مزاحمت کے حامی ممالک جیسے ایران، عراق، شام اور لبنان میں بدامنی پھیلا کر عدم استحکام پیدا کرنے اور آخرکار ان ممالک کو کمزور کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ دوسری طرف امریکہ خطے میں آل سعود رژیم جیسی رجعت پسند حکومتوں کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر چل رہا ہے تاکہ اس طرح خطے میں تناو اور عدم استحکام پیدا کیا جا سکے جو اسرائیل کے فائدے میں ہے۔

دوسری طرف گذشتہ چند برس کے دوران خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ایران کے مرکزی کردار کے پیش نظر امریکی حکام اس خوف کا شکار ہو چکے ہیں کہ مغربی ایشیا کے عرب خطے میں ایران کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے جس کے باعث ایران خطے میں فیصلہ کن طاقت بنتا جا رہا ہے۔ اسی طرح خطے میں ایران کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ سعودی حکام کو بھی برداشت نہیں ہو رہا کیونکہ وہ اسے اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتے ہیں لہذا آل سعود رژیم امریکہ کی حمایت اور مدد کے ذریعے عالمی سطح پر یہ تاثر دینے کے درپے ہے کہ ایران خطے کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے اور ایران سے مقابلے کی فضا قائم کر کے کم از کم میڈیا کی حد تک اپنا کردار بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہتی ہے۔

اس وقت مشرق وسطی کا خطہ سیاسی استحکام اور امن کی جانب گامزن ہے اور یہ امر امریکہ، اسرائیل اور سعودی حکومت کے فائدے میں نہیں لہذا وہ خطے میں مسلسل بحران پیدا کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں تاکہ ان بحرانوں کی آڑ میں اپنے سیاسی اہداف حاصل کر سکیں۔ امریکی حکام کی پرانی عادت ہے کہ وہ خطے کے ممالک کو ایران کے خلاف اکساتے رہتے ہیں جبکہ سعودی عرب خطے میں امریکی صہیونی منصوبوں اور پالیسیوں کے ٹھیکیدار کے طور پر عمل کرتا آیا ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور عراق کے زیر انتظام کردستان میں علیحدگی پسند عناصر جیسے فتنوں کی شکست کے بعد اب سعودی عرب نے لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے استعفی کا فتنہ کھڑا کر رکھا ہے۔

البتہ یہ فتنہ بھی ناکامی کا شکار ہو گا کیونکہ اس وقت لبنان کے تمام سیاسی گروہوں اور جماعتوں میں وحدت اور اتحاد کی فضا قائم ہو چکی ہے اور سعودی حکام کے احمقانہ اقدامات کا نتیجہ شکست کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ لبنان کی تمام سیاسی شخصیات اور جماعتیں اس بات پر اتفاق رائے رکھتی ہیں کہ ان کے درمیان کسی قسم کے تناو کا فائدہ صرف اور صرف دشمن ملک اسرائیل کو ہی ہو گا لہذا وہ آپس میں تعاون کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اسی طرح لبنان کے تمام سیاسی گروہ اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان، اسرائیل اور داعش جیسے دہشت گرد عناصر سے مقابلے اور لبنان کی قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت کیلئے ایک اہم ضرورت ہے۔

سعودی حکام ایران پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ یمن کو میزائل فراہم کر رہا ہے حالانکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے چاروں طرف سے یمن کا محاصرہ کر رکھا ہے اور ہوائی راستے بھی بند کر رکھے ہیں۔ چونکہ خود سعودی عرب ملکی ضرورت کی تمام اشیا باہر سے درآمد کرتے ہیں لہذا وہ تصور کرتے ہیں کہ دیگر ممالک بھی اسی طرح ہیں اور اگر یمن کے پاس ریاض تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں تو وہ بھی یقینا اسے ایران نے ہی دیئے ہوں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یمن کی غیرت مند اور محنتی قوم سعودی جارحیت کے خلاف اپنے پاوں پر کھڑی ہے اور ملکی دفاع کیلئے ضروری سازوسامان خود بنانا شروع ہو گئی ہے۔

مختصر یہ کہ اگرچہ خطے میں فتنہ انگیزی کا اصل منشا امریکہ اور اسرائیل ہیں لیکن آل سعود رژیم بھی ان سے بھرپور تعاون کرنے میں مصروف ہے۔ سعودی حکام اس حقیقت سے غافل ہیں کہ خطے میں وہ جو آگ لگانے میں مصروف ہیں اس کا دھواں خود ان کی اپنی آنکھوں میں بھی جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 683611
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش