1
0
Saturday 18 Nov 2017 16:16

سعودی عرب میں بڑی تبدیلی، الٹی گنتی شروع

سعودی عرب میں بڑی تبدیلی، الٹی گنتی شروع
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

ان دنوں سعودی عرب کے سیاسی حالات عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا سعودی عرب بنیادی تبدیلیوں کا شکار ہوا چاہتا ہے یا مستقبل میں جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں وہ اس ملک میں حکمفرما سیاسی نظام کی بنیادوں کو کوئی دھچکہ نہیں پہنچائیں گی؟ اگر یہ تبدیلیاں بنیادی نوعیت کی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سیاسی نظام میں بھی تبدیلی آئے گی جبکہ دوسری طرف اس سے یہ بھی ظاہر ہو گا کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران نظر آنے والی تبدیلیاں محض علامات تھیں اور اصل تبدیلی اب ظاہر ہونے والی ہے۔ تحریر حاضر میں اس مفروضے کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ یہ تبدیلیاں بنیادی نوعیت کی ہیں اور اب تک محسوس ہونے والی سیاسی تبدیلیاں محض علامات تھیں جو ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

1)۔ موصولہ رپورٹس اور خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران تقریباً 50 شہزادوں اور اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں کو برطرف کر کے گرفتار کر لیا ہے اور ان کی تمام مال و دولت اور جائیداد ضبط کر لی ہے۔ ان افراد میں سابق سعودی فرمانروا ملک عبداللہ کے بیٹے اور ولید بن طلال بھی شامل ہیں۔ اس بات کے پیش نظر کہ سعودی عرب انتہائی حساس دور سے گزر رہا ہے یہ اقدام امریکی حکام کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسری طرف ایسی صورتحال میں جب ملک شدید مسائل اور مشکلات کا شکار ہے، پچاس سے زائد حکومتی عہدیداروں کی گرفتاری ملک کو غیر متوقع بحرانوں سے روبرو کر سکتا ہے۔ چونکہ کافی غور و فکر اور تحقیق کے بغیر عراق میں فوجی مداخلت کے انتہائی نقصان دہ نتائج کی وجہ سے امریکی حکام شدید تنقید کا سامنا کر چکے ہیں لہذا اب ان کی جانب سے عراق سے زیادہ اہم مسئلے میں دوبارہ وہی غلطی دہرائے جانے کا امکان بہت کم ہے۔ امریکی ادارے پینٹاگون اور سی آئی اے گذشتہ چالیس برس سے سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔

لہذا یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سب کے باوجود سعودی عرب میں یہ تبدیلیاں کیوں رونما ہو رہی ہیں اور مستقبل میں بھی کیوں جاری رہیں گی؟ اس سوال کا جواب خود محمد بن سلمان نے بیان کیا ہے۔ سعودی ولیعہد نے تقریباً دو ہفتے قبل ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ تمام سعودی حکومتیں ایران سے متعلق امور کے تجزیہ و تحلیل میں غلطی کا شکار ہوئیں لہذا ایران سے مقابلے کیلئے بھی غلط راستے اختیار کئے گئے لیکن انہوں نے ایران کا مقابلہ کرنے کیلئے سعودی عرب کی پالیسیوں میں تبدیلی کا پکا ارادہ کر رکھا ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا یہ بیان ایران کے مقابلے میں سعودی حکومتوں کی مسلسل شکست کا واضح اعتراف ہونے کے علاوہ ایران کے خلاف سعودی عرب کی میڈیا وار کے نئے مرحلے کے آغاز کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ البتہ آیا محمد بن سلمان اپنی نئی پالیسیوں کے ذریعے ایران کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کر پائیں گے یا نہیں؟ اس بارے میں کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کیونکہ خود محمد بن سلمان کی جانب سے ایرانی حجاج کی سکیورٹی یقینی بنائے جانے کے وعدے کے علاوہ دیگر کئی ایسے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خود بھی ایران کے خلاف دباو کی پالیسی پر یقین نہیں رکھتے۔

2)۔ جیسا کہ محمد بن سلمان نے انٹرویو میں کہا، سعودی عرب میں تبدیلیاں اور انہیں واضح طور پر ایران کے اسلامی انقلاب سے مربوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک میں ایسی صورتحال حکمفرما ہو جو یہ ظاہر کرے کہ محمد بن سلمان بھرپور عوامی حمایت سے برخوردار ہیں۔ ایران کا اسلامی انقلاب جسے چالیس برس گزر جانے کے باوجود بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے کے مقابلے میں عوامی حمایت سے برخوردار نہ ہونا آل سعود رژیم کیلئے اہم کمزوری تصور کی جاتی ہے۔ دوسری طرف محمد بن سلمان نے اپنے نام سعودی فرمانروا کا شاہی حکم جاری کرنے اور اس کے نیچے باپ کے دستخط قرار دینے کے بعد "کرپشن کے خلاف آپریشن" کے نام سے میدان میں آئے اور پلک جھپکتے ہی اپنے بھائیوں اور چچازاد چالیس افراد کو گرفتار کر لیا اور اعلان کیا کہ مزید افراد کو گرفتار کیا جائے گا۔ اسی طرح سعودی عرب کی شاہی عدالت نے سلطنتی خاندان کے 285 افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں جنہیں آئندہ چند روز میں گرفتار کیا جائے گا۔

محمد بن سلمان کے ان تمام اقدامات کا مقصد عوامی حمایت اور محبوبیت حاصل کرنا تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ان کے اقدامات سے عوام کی بڑی تعداد خاص طور پر جوانوں کو بہت خوشی حاصل ہوئی لیکن ساتھ ساتھ آل سعود کی کرپشن کے بارے میں بھی زبانیں کھلنے لگیں۔ ایک امریکی روزنامہ لکھتا ہے کہ اگر کرپشن کا خاتمہ مقصود ہے اور اس کی خاطر ان افراد کو گرفتار کیا گیا ہے تو سب سے پہلے سلمان بن عبدالعزیز اور اس کے بیٹے کو گرفتار کیا جانا چاہئے تھا کیونکہ وہ باقی شہزادوں سے زیادہ کرپٹ ہیں۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سطحی طور پر ہی سہی عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کر کے اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلے کی صلاحیت پیدا کر سکے۔ لیکن خود سلطنتی خاندان میں ہی محمد بن سلمان کے شدید مخالف شہزادے موجود ہیں جبکہ ان کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات انتہائی سطحی نوعیت کے ہیں جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلنے کی کوئی امید نہیں۔

3)۔ امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل بعض دیگر حکومتوں جیسے بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات سے مل کر مشترکہ طور پر حزب اللہ لبنان کے خلاف نئی جنگ شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ اس منصوبے کی بنیاد امریکہ میں رکھی گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 13 ستمبر 2017ء کو تقریر کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان پر دباو بڑھانے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ لبنان میں اس تنظیم کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد 3 اکتوبر 2017ء کو اسرائیلی حکام نے اعلان کیا کہ وہ کسی قیمت پر گولان ہائٹس کی پہاڑیوں کے قریب قنیطرہ خطے میں حزب اللہ لبنان کی موجودگی برداشت نہیں کریں گے اور اس تنظیم کے جنگجووں کو شام سے نکال باہر کرنے کیلئے فوجی کاروائی کریں گے۔ اس اعلان کے ایک دن بعد لبنانی وزیراعظم سعد حریری کو ریاض بلایا گیا جہاں انہیں زبردستی اپنا استعفی نامہ پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔

اس منصوبے کا مقصد حزب اللہ لبنان کو اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ شام میں موجودگی اور لبنان میں امن و امان میں سے ایک کا انتخاب کرے۔ امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک یہ تصور کر رہے تھے کہ شام میں داعش کے قریب الوقوع خاتمے کے پیش نظر حزب اللہ لبنان اپنے اوپر دباو کے نتیجے میں شام کا محاذ ترک کر کے اپنی تمامتر توجہ لبنان پر مرکوز کر دے گی۔ یوں شام کا محاذ حزب اللہ لبنان جیسے طاقتور کھلاڑی سے خالی ہو جائے گا اور شام کے مسئلے میں مغربی مداخلت کا دروازہ کھل جائے گا۔ لیکن حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا کہ وہ شام کا محاذ ترک نہیں کرے گی جبکہ اسرائیل کی جانب سے لبنان کے خلاف نئی جنگ شروع کرنے کی دھمکیاں محض گیدڑ بھبکیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان نے سعودی عرب کی جانب سے سعد حریری کو زبردستی استعفی دینے پر مجبور کرنے کی بھی شدید مذمت کی اور ان کی جان کو خطرہ ہونے پر پریشانی کا اظہار بھی کیا۔ حزب اللہ لبنان کے اس عقلمندانہ ردعمل سے امریکی صہیونی منصوبہ خاک میں مل گیا لہذا چند روز قبل سعد حریری نے دوبارہ انٹرویو دیتے ہوئے ملک واپسی کا اعلان کیا ہے۔

لہذا یہ کہنا درست ہو گا کہ لبنانی معاشرے اور وزیراعظم سعد حریری پر سعودی دباو درحقیقت طے شدہ امریکی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کا مقصد خود لبنان نہیں بلکہ شام کے مسئلے پر اثرانداز ہونا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے شام انتہائی حساس مرحلے سے گزر رہا ہے اور اس ملک کی سیاسی صورتحال پر اثرانداز ہونے کیلئے امریکہ حزب اللہ لبنان کو اپنے راستے کی اصلی ترین رکاوٹ سمجھتا ہے اور اسے برطرف کرنے کیلئے ہاتھ پاوں مارنے میں مصروف ہے۔ لیکن نہ تو امریکہ اور نہ ہی سعودی عرب اور اسرائیل اس حقیقت سے غافل نہیں کہ ان کے مدمقابل ایک انتہائی منظم اور ذہین انقلابی تنظیم ہے۔ ایسی تنظیم جس میں درپیش مشکل حالات کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جیسا کہ لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے جبری استعفی کے بارے میں سید حسن نصراللہ سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے انتہائی بہترین انداز میں ریاض، تل ابیب اور واشنگٹن کی مشترکہ سازش کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ سید حسن نصراللہ جانتے تھے کہ ایران یا حزب اللہ لبنان کے خلاف نئی جنگ کے آغاز اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف سعودی سربراہی میں تشکیل پانے والے علاقائی اتحاد کی کامیابی کے دعوے کھوکھلے ہیں ایک بلف سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔

4)۔ سعودی اور امریکی حکام اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے اس پر دباو کی پالیسی سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ایران کے اندر انقلابی اداروں اور قوتوں پر دباو، عراق میں عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی پر دباو اور لبنان میں حزب اللہ پر دباو۔ لیکن اب تک انہیں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہو سکی۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ انہیں اس ضمن میں کام کرنے والے افراد نہیں مل سکے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علاقائی سطح پر طاقتور ہونے کی خواہش ہر ملک میں عمومی مطالبے کے طور پر موجود ہے جبکہ اسلامی مزاحمتی قوتوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کسی میں نہیں۔ جب علاقائی سطح پر امریکہ کے مقابلے میں طاقتور ہونے کے حامی زیادہ ہوں اور امریکی اور برطانوی فوجیوں کو خیر مقدم بھی نہ کہا جائے تو اندرونی سطح پر بھی اسلامی مزاحمت کی کامیابیاں بڑھ جائیں گی۔

لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطی کا خطہ انتہائی بنیادی قسم کی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اور ان تبدیلیوں کا مرکز اسلامی مزاحمتی بلاک اور امریکی سعودی اتحاد ہے۔ گذشتہ ہفتے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ لبنان یقیناً خطے میں باقی رہے گی جبکہ بہت جلد خطے سے آل سعود رژیم کا خاتمہ ہونے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 684179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

لالاجان
Pakistan
خوبصورت، معلوماتی اور دلچسپ رپورٹ ہے۔
ہماری پیشکش