0
Saturday 18 Nov 2017 12:58

علوم و مراکز دینی کے احیاء میں امام رضا (ع) کا کردار

علوم و مراکز دینی کے احیاء میں امام رضا (ع) کا کردار
تحریر: محمد جان حیدری

عصر رضوي ميں علم کا حال
مورخين امام رضا (ع) کے دور کو علمی باليدگی، وسعت اور اسلامی تہذيب کی عالمگيريت کے حوالے سے سنہرا دور سمجھتے ہيں، اسے اسلامی ادوار ميں ايک تابناک اور سب سے حيرت انگيز دور قرار ديتے ہيں۔ اس دور ميں مسلمانوں کی علمی اور سائنسی پبشرفت نے کرہ خاکی پر اپنا تسلط جما ليا تھا۔ مختلف شعبوں ميں علمی و سائنسی سرگرميوں ميں قابل قدر اضافہ ہوا تھا، اس تاريخی دور ميں اسلامی تہذيب کی ترقی اور فروغ نقطہ عروج تک جا پہنچا تھا۔ اس عصر ميں فروغ يافتہ علمی، ثقافتی مظاہر اور نشانيان ہميں مسلمانوں کی علمی حالت کے بارے ميں بہتر انداز سے اس دور کے مسلمانوں کی علمی پوزيشن سے آگہی ميں مدد پہنچاتی ہيں، ہم يہاں ان میں سے بعض مظاہر کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔

علمی نشستوں کا انعقاد
ان نشستوں کے عوامل ميں اضافہ اور رکاوٹوں ميں کمی کا اہتمام کيا جاتا تھا، تاکہ اہل نظر آسانی اور آزادی سے تحقيق و مطالعہ کرسکيں۔ مختلف شعبوں ميں علمی حلقے تشکيل ديئے جاتے تھے اور مختلف علمی موضوعات پر بحث ہوتی تھے۔ اسلامی دنيا کے مختلف علاقوں ميں متعدد کتب خانوں کي بنياد رکھی گئی؛ مسلم علماء کے لئے تحقيق اور تحصيل علم کے بھرپور مواقع فراہم کئے گئے اور اسلامی علماء اور دانشوروں کو اسلامی مملکت ميں اکٹھا کيا گيا۔ حکومت نے تقريباً تيس بڑے اور اونچی سطح کے مدارس قائم کئے تھے، جن ميں مدرسہ نظاميہ سب سے زيادہ مشہور ہوا۔ ان مدارس ميں عمومی کتب خانے قائم کئے گئے، جن ميں سب سے مشہور کتب خانہ دارالحکمہ تھا۔(1)

تحريک ترجمہ
امام رضا (ع) کے دور کی علمی تحريکوں ميں سے ايک اہم تحريک، جس نے مسلمانوں کے علمی ارتقاء ميں اہم کردار ادا کيا، وہ بيرونی زبانوں ميں موجود کتابوں کے عربی زبان ميں تراجم تھے۔ طب، رياضيات، فلسفہ، سياسی علوم Political Science، علم نجوم Astrology وغيرہ، جيسے درآمد شدہ علوم ميں تحقيق نے علمی تحقيقات کے جذبے کو تقويت پہنچائی۔ "ابن نديم" اپني کتاب الفہرست ميں کئی کتابوں کا ذکر کرتے ہيں اور خاص طور پر تحريک ترجمہ کے بارے ميں لکھتے ہيں کہ مأمون نے روم کے بادشاہ کے نام اپنے مراسلوں کے ضمن ميں ان سے درخواست کی تھی کہ خيرسگالی اور تعاون کے عنوان سے اپنے گوداموں ميں ذخيرہ ہونے والی کتابوں کو بغداد بھيجنے کی اجازت دے ديں۔ روم کے بادشاہ نے ابتدا ميں ممانعت کی، مگر بالآخر اس درخواست کا مثبت جواب ديا اور مأمون نے حجاج بن مطر، ابن بطريق اور دارالحکمہ کی سرپرست «سلم» کو کئی ديگر ماہرين کے ہمراہ روم روانہ کيا اور انہوں نے وہ تمام کتابين دارالحکمہ ميں منتقل کر ديں۔(2) ان کتابوں کے تراجم نے مسلمانوں کے علمی حلقوں کي بڑی مدد کی؛ تمام اسلامی ممالک ميں نئی علمی آراء ظہور پذير ہوئیں، تنقيد اور جائزوں کو وسعت ملی، اسلامی معاشرے کے علمی ارتقاء ميں ان تراجم نے اہم کردار ادا کيا۔ اگرچہ ان کتابوں کے بعض موضوعات و مباحث، جو اسلامی افکار و عقائد سے متصادم تھیں اور ان ميں الحاديات کا شائبہ تھا، جو عالم اسلام کے علمی حلقوں کے افکار ميں اعتقادی مسائل کا باعث بنے۔

رصدگاہ (Observatory) (ستاروں کي حرکت کا مشاہدہ کرنے کیلئے مناسب مقام) کی تعمير اور علمی نقشہ جات کي ترسيم:
اس دور کے علمی مظاہر ميں سے «عالمی نقشہ جات» کی ترسيم و تياری اور رصدگاہوں کی تعمير جيسے اقدامات بھي تھے۔ مأمون نے حکم ديا تھا کہ پوری دنيا کا نقشہ تيار کيا جائے، اس حکم کی تعميل ہوئی، اس نقشے کو «نقشۂ مأمون» (يا صور المأمونيہ) کا نام ديا گيا اور يہ پہلا عالمی نقشہ تھا، جو عباسيوں کے دور ميں رسم کيا گيا۔ اسی طرح مأمون نے ہی رصدخانے کی تعمير کا بھی حکم ديا، جو بغداد کے ايک محلے ميں تعمير ہوا، جس کا نام شمسائيہ رکھا گيا-(3)

علم تفسیر:
امام رضا (ع) کے زمانے مرسوم علوم و فنون اور ان کی طرف مفکرين کی توجہ بھی ہمارے لئے امام رضا (ع) کے دور کی علمی حالت اور اس زمانے کے لوگوں کے علمی شغف کے ادراک ميں ممدّ و معاون ثابت ثابت ہوسکتی ہے۔ اس زمانے ميں علم تفسير علوم مرسومہ ميں سے ايک تھا، اس زمانے کے علماء اس علم کی طرف خاص توجہ ديا کرتے تھے اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اور آپ (ص) کے اوصياء کے سوا کوئی بھی قرآن مجيد کے تمام ظواہر اور بواطن کے ادراک کا دعویٰ نہيں کرسکتا ہے(4)؛ لہذا اس علم کا مشعل فروزان فطرتاً امام رضا (ع) اور ديگر ائمہ ہدايت (ع) کے فيض و برکت سے روشن تھا اور اسی بنا پر علماء اور دانشوروں نے امام رضا (ع) کے افاضات کے سائے ميں علم تفسير کا زبردست خيرمقدم کيا۔

علم حدیث:
"علم حديث" بھی اس دور کے علوم مرسومہ ميں سے ايک تھا، شيعيان اہل بيت (ع) اور شيعہ علماء نے ائمہ طاہرين کی فيض رسانی کی بدولت معتبر احاديث کی تأليف اور تدوين کے سلسلے ميں ديگر مکاتب کے علماء پر سبقت حاصل کی۔ اس زمانے ميں شيعہ علم حديث کے سلسلے ميں شيعہ علماء کا تخليقی کارنامہ يہ تھا کہ امام رضا (ع) کے اصحاب ميں سے ايک گروہ نے معتبر احاديث کو ايک بڑی کتاب ميں فراہم کيا۔ يہ مسلمين اور خاص طور پر شيعيان اہل بيت (ع) کے لئے پہلی جامع کتاب حديث تھی۔ يہی کتاب جوامع اربعہ يا کتب اربعہ کی تدوين کے لئے بنياد قرار پائی اور عالم اسلام کے تين بڑے علماء يعنی «شيخ الطائفة ابی جعفر محمد بن الحسن الطوسی» (متوفى 460ھ) «رئيس المحدثين شيخ صدوق ابى جعفر محمد بن على بن الحسين بن بابويه قمی» (متوفى 381ھ) اور « ثقة الاسلام أبى جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق الكلينی» (متوفى سنہ 328 يا 329ھ) نے شيعہ مکتب کی بنيادی کتابوں يعنی «الکافی»، «الاستبصار»، «التہذيب» اور «من لايحضرہ الفقيہ» کی تأليف اور تدوين ميں اس کتاب سے استفادہ کيا-(5)

حوالہ جات
امام رضا (ع) کي زندگی ميں باريک بينانہ تحقيق، شريف قرشی، ج2، ص283
الفہرست، ابن نديم، ص392)
امام رضا (ع) کی زندگی ميں باريک بينانہ تحقيق، ج2، ص286
التبيان فی تفسير القرآن، محمد بن حسن طوسی، ج1، ص4)
مقدمہ النفع و الہدايہ، ص10)
خبر کا کوڈ : 684309
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش