2
0
Sunday 19 Nov 2017 11:38
کسی دن شیعہ بھی مجبور ہوکر بغاوت پر اتر سکتے ہیں

پاک ایران بارڈر پر فورسز کیجانب سے زائرین کیساتھ ناروا سلوک

پاک ایران بارڈر پر فورسز کیجانب سے زائرین کیساتھ ناروا سلوک
تحریر: مولوی منظور احمد

دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو، جو اپنے شہریوں کے ساتھ ملک کے اندر یا باہر ظالمانہ سلوک کا ارتکاب کرتا ہو۔ اگرچہ بعض اوقات ایسی صورتحال پیش آتی ہے، جب کوئی ملک اپنے ہی شہریوں کو کسی احتجاج کی بناء پر لاٹھی چارج یا آنسو گیس کا نشانہ بناتا ہے، تاہم ایسا کام کوئی جمہوری ملک نہیں بلکہ غیر جمہوری فوجی یا شاہی حکومتیں ہی کرتی ہیں۔ آج کل میڈیا کا دور دورہ ہے، ملک سے باہر بھی دنیا بھر کے حالات کا اسی آن میں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اپنے رایتی حریف و رقیب بھارت ہی کی مثال لیتے ہیں، جو ایک غیر مسلم جمہوری مملکت ہونے کے علاوہ وطن عزیز کا ازلی دشمن بھی ہے، اپنے شہریوں کا ملک کے اندر یا باہر یہ جتنا خیال رکھتا ہے، اس کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے۔ چند سال پیش جب اسکے شہریوں کے ساتھ عرب امارات میں کوئی زیادتی ہوئی، نیز ایک دفعہ سعودی عرب میں ایک ہندوستانی مزدور کو جب تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس نے اپنے شہریوں کے حقوق لینے تک سکھ کا سانس نہیں لیا، مسلسل سفارتی دباؤ کے ذریعے مذکورہ ممالک کو انصاف کی فراہمی پر مجبور کر دیا اور متاثرین کے لئے مطلوبہ معاوضہ لیکر ہی دم لیا، جبکہ ہمارے ملک کا رتبہ اس سے کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ وہ یوں کہ یہ ایک اسلامی جمہوری ملک ہے اور اسے اسلام کا قلعہ، اسلامی ایٹمی قوت نیز مسلمانوں کے حقوق کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ چاہئے تو یہ تھا کہ بھارت ہماری گرد تک بھی پہنچ نہ پاتا، مگر کیا کیا جائے کہ ملک پر ایسے حکمرانوں کا قبضہ و تسلط ہے جنہیں ملک سے زیادہ اپنے ہی مفادات عزیز ہیں۔

ملک کا بچہ بچہ اس بات سے واقف ہے کہ زیارات مقدسہ جاتے وقت وطن عزیز کے ذمہ داروں نے کوئٹہ اور پھر پاک ایران بارڈر (تفتان) پر زائرین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا۔ محب وطن شہریوں اور عاشقان محمد و آل محمد علیہم السلام کو ہفتوں تک کوئٹہ میں اور پھر تفتان میں کس طرح بھوکے پیاسے رکھا گیا۔ ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ اسی پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ زد و کوب کرکے اور دھکے دیکر خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ فورسز کی مہربانی یہاں تک پہنچ گئی کہ کمزور اور معذور افراد نیز بچوں اور خواتین کو پندرہ پندرہ گھنٹے قطاروں میں ایسے رکھا گیا کہ تھکاؤٹ، بھوک اور پیاس سے لوگ نڈھال اور بے ہوش ہوگئے، جس کی وجہ سے درجن بھر زائرین کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ان تمام تر حالات کی ویڈیوز نیٹ پر دستیاب ہیں۔ اسکا تذکرہ یہاں صرف مقدمتاً کیا گیا، جبکہ زیر نظر کالم لکھنے کا مقصد واپس آنے والے زائرین کے ساتھ وطن عزیز کے ذمہ داروں کا سلوک ہے۔

کل ہی کی بات ہے، چند زائرین تفتان کے راستے سے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ اطلاع پانے پر فوراً انکے ساتھ رابطہ کیا، تو نام نہ بتانے کی شرط پر ان کا کچھ یوں کہنا تھا: "ہم کل پانچ بندے تھے۔ بارڈر پر پہنچے تو وہاں بہت ہی کم لوگ تھے، چنانچہ نہایت آرام کے ساتھ دخول و خروج کی کارروائی مکمل ہوگئی۔ پاکستان میں داخل ہوتے ہی فورسز نے پاکستان ہاؤس جانے کا اشارہ کیا، ہم نے بڑی منت سماجت کرکے بس اڈہ جانے کی خواہش ظاہر کی، مگر انہوں نے فی کس 3000 روپے کی شرط رکھی۔ جس سے ہم نے معذرت کی تو انہوں نے ذلیل مستقبل سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا، کہ نہیں تو آپکو پندرہ بیس دن یا شاید ایک ماہ تک یہاں رکنا پڑے۔ یہاں تک کہ تمام قافلے واپس آجائیں اور پھر انکے لئے کانوائے کا بندوبست ہو تو انہی کے ساتھ تمہیں بھی جانے کا موقع ملے گا اور یہ کہ ان ایام میں تمہارا خرچہ اس سے کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ چنانچہ مرتے کیا نہ کرتے، بالآخر 2000 روپے پر بات پکی ہوگئی۔ مذکورہ رقم ملنے کے بعد ہمیں چھوڑ دیا گیا۔

رہائی پانے کے بعد بس اڈہ جا کر ایک بس ڈرائیور کے ساتھ بات کی تو انہوں نے کوئٹہ تک 2000 روپے کرایہ لینے کے بعد کہا کہ اپنے پاسپورٹ میرے پاس رکھوا دو۔ راستے میں اگر کسی نے پوچھا تو پاسپورٹ نہیں بلکہ صرف شناختی کارڈ ہی دکھانا اور کہنا کہ بارڈر تک آئے تھے۔ اب واپس جانا ہے۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ جگہ جگہ تلاشی تھی۔ ہم یہی کہتے رہے۔ تاہم ایک چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ دیکھ کر ہمیں بس سے اتارا گیا اور کہا کہ یہاں تم لوگ کیا کر رہے تھے۔ ہم اپنے ہی موقف پر ڈٹے رہے، لیکن وہ چھوڑنے والے نہیں تھے۔ کہا کہ اپنا ہی ملک ہے۔ ملک کے جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز موجود ہیں، ہم نے جرم کونسا کیا ہےِ؟ کہا کہ آپ لوگوں کے لئے بغیر کانوائے کے آنے جانے میں خطرہ ہے، چنانچہ تم بغیر کانوائے کے نہیں جاسکتے اور یہ کہ تم لوگوں نے کانوائے کا انتظار کیوں نہیں کیا۔ ہماری کسی حجت و دلیل کو تسلیم نہ کیا گیا۔ تاہم بس ڈرائیور بہت مہربان شخص تھا۔ وہ خود اتر گیا اور فورسز کے ساتھ پہلے تلخ لہجے میں بات کی۔ جب کچھ نہ بنا تو جیب گرم کرکے انہیں راضی کیا۔ یوں اس منزل کو عبور کرکے کوئٹہ کی جانب روانہ ہوگئے۔

اسی گاڑی میں ہمارے ساتھ تین اور افراد  بھی تھے، جو زیارات مقدسہ سے مشرف ہو کر واپس پاکستان آرہے تھے۔ راستے میں ایف سی کا سلوک دیکھ کر شاید انہیں بھی تسلی ہوگئی کہ ہم بھی انہی کے راستے کے راہی ہیں۔ چنانچہ انکے ساتھ بے تکلفانہ تعارف ہوگیا۔ تعارف کے بعد ایک دوسرے کے دکھ درد بھی بانٹ لگے۔ ہم نے انکا حال احوال پوچھا، تو انکا کہنا کچھ یوں تھا: "کافی دن پہلے ہم بارڈر پہنچ چکے تھے۔ پہلے دن ہم سے 5000 روپے کا مطالبہ ہوا، جو ہم دے نہ سکے۔ چنانچہ پاکستان ہاوس کے اندر ہمیں نظر بند ہونا پڑا اور پھر ایک ہفتہ یہاں گزارنا پڑا۔ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو فورسز کی بہت منتیں کیں۔ انہوں نے پھر 5000 والا اپنا پرانا مطالبہ دہرایا اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ نہیں تو ایک ماہ تک یہاں رکنا پڑے گا اور قافلوں کی واپسی پر تمہیں انہی کے ہمراہ جانا ہوگا۔ ہم نے کوشش کی بالآخر 2500 پر بات پکی ہوگئی۔ یوں اس زندان سے رہائی کا پروانہ مل گیا۔ انکا کہنا تھا کہ اپنے کئے پر بہت ندامت تھی، کہ اگر وہی پہلے دن 5000 روپے دیتے تو ایک ہفتہ مصائب جھیلنے نہ پڑتے، کیونکہ ان دس دنوں میں ہمارا خرچہ انکی مطلوبہ رقم سے بڑھ گیا تھا۔"

جس ملک میں شہریوں کی یہ حالت زار ہو اور انکے ساتھ یوں امتیازی سلوک ہو رہا ہو۔ ایسے ہی ملک کے شہریوں کا پیمانۂ صبر کسی دن لبریز ہو جاتا ہے اور پھر کسی دن وہ بغاؤت پر اتر آتے ہیں۔ جس کی واضح مثال بنگالیوں اور کشمیریوں کی ہے۔ بنگالیوں نے 23 سال جبکہ کشمیریوں نے 70 سال مصائب و مشکلات جھیلے، مگر آخرکار صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو بغاوت پر اتر آگئے۔ نتیجتاً بنگال تو بنگلہ دیش بن گیا جبکہ کسی دن، کشمیر (بھی) بنے گا پاکستان یا آزاد کشمیر۔ حکام بالا بلکہ تمام ذمہ دار ادارے ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگ انکے آنگن تک پہنچ جائے اور پھر اسے بجھانے کا کوئی ذریعہ ہی نہ ملے، کیونکہ اس ملک کی کم از کم ایک چوتھائی آبادی شیعہ ہی تشکیل دیتے ہیں۔ کسی دن یہ چوتھائی آبادی بغاؤت پر اتر آئی تو اسے ایک ایسے وقت میں سنبھالنا بالکل ناممکن ہوگا، جبکہ چاروں طرف دشمنوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ چنانچہ اٗس وقت مشرقی اور مغربی سرحدوں سے اعلانیہ کمک کی جائے گی اور پھر شیعہ بھی بنگالیوں اور کشمیریوں کی طرح مجبور ہونگے، اور ظلم سے نجات کے حصول کی خاطر شاید ہی کسی امداد کو ٹھوکر ماریں۔
خبر کا کوڈ : 684323
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Romania
بہت اچھی تحریر
kamil hussain doby
Pakistan
allah jazaye kher dai. thank you.
ہماری پیشکش