0
Thursday 23 Nov 2017 01:48

آل سعود کی کارگزاری(2)

آل سعود کی کارگزاری(2)
تحریر: عمران خان

کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ تعلقات قائم ہوئے۔ مصری عوام ہمیشہ فلسطینی مسلمان بھائیوں کے ساتھ اور اپنی حکومت کے اس فیصلے کیخلاف رہے، جس کا اظہار  عرب سپرنگ میں تحریر اسکوائر پر شاندار عوامی اجتماعات کی صورت میں کیا۔ انہی مظاہروں کے نتیجے میں انتخابات ہوئے اور اخوان حکومت وجود میں آئی اور مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ مصر میں اخوان حکومت پوری اسلامی دنیا کیلئے قابل قبول تھی، مگر اسی حکومت سے سب سے زیادہ تکلیف اسرائیل کو تھی۔ صدر مرسی نے اپنا پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا اور آل سعود کو اپنے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی اور دنیا بھر میں حرمین کے مفادات کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا، مگر اس کے باوجود سعودی عرب نے اسرائیل مخالف اس حکومت کی شدید مخالفت کی اور اس کے خاتمے کیلئے اپنے وسائل کا استعمال کیا۔ یہی نہیں جنرل سیسی کہ جس نے اخوان حکومت پہ شب خون مارا اور عسکری قوت کے بل بوتے پہ اقتدار پایا تھا۔ اسی آمر جنرل کی سعودی عرب نے کھل کر مدد کی۔ مصر میں جس حکومت سے اسرائیل و امریکہ خوش ہیں، وہی حکومت آل سعود کی آنکھ کا تارا ہے۔

شام میں بشارد حکومت اور آل سعود کے مابین براہ راست ایسا کوئی بھی تنازعہ اتنی شدت کے ساتھ موجود نہیں تھا کہ بشارد حکومت کے خاتمے کیلئے سعودی عرب اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے اور امریکہ سے آن دی ریکارڈ یہ مطالبہ بھی کرے کہ وہ شام پہ بھی عراق اور افغانستان کی طرح فوجی کارروائی کرے۔ شام میں بشارد حکومت سے بھی اصل تکلیف اسرائیل کو تھی، کیونکہ اسرائیل کے پہلو میں موجود بشارد حکومت اسرائیل کے خلاف تمام مزاحمتی قوتوں کی پشت پناہ اور مددگار تھی۔ شام کے بحران کو ہوا دینے، دہشت گردوں کی مالی، فکری، عسکری اور نظریاتی مدد کی۔ یمن میں حوثی قبائل کہ جن کا نعرہ اور عزم ’’ہم اسرائیل اور امریکہ کیلئے موت ہیں‘‘ کو کمزور کرنے اور انہیں حکومتی نظم و نسق سے باہر رکھنے کیلئے یک طرفہ جنگ کا آغاز کیا۔ سعودی حملوں اور ناکہ بندی کے باعث بہت بڑے انسانی بحران نے جنم لے لیا ہے، دنیا بھر کے آزاد ادارے انسانی بنیادوں پہ اس جنگ کو روکنے کی اپیل کر رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کے مرکز سمجھے جانے والے سعودی عرب نے ماہ رمضان میں حملے روکنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاحال اس جنگ کے مقاصد واضح نہیں ہیں کہ سعودی عرب اس جنگ سے حاصل کیا کرنا چاہتا ہے؟ جنگ میں پچاس ہزار سے زائد بچے اب تک شہید ہوچکے ہیں۔

انقلاب ایران کو تمام تر حربے استعمال کرنے کے باوجود جب امریکہ محدود یا کمزور نہیں کر پایا تو بظاہر کمپرومائز کی جانب مائل ہوا۔ نتیجے میں چھ بڑی قوتوں کے ساتھ ایران کا ایٹمی معاہدہ طے پایا۔ امریکہ ایران تصادم میں ایران کو دنیا کے باشعور عوام کی عمومی تائید و حمایت حاصل رہی جبکہ اسلامی ممالک کے عوام کی خصوصی ہمدردیاں اور جذبات ایران کے حق میں رہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے جتنے بھی بڑے سے بڑے عوامی مظاہرے برپا ہوئے، وہ امریکہ، اسرائیل کی مخالفت میں اور بالواسطہ ایران یا ایرانی عزائم کی تائید میں رہے۔ انقلاب کو زیر کرنے کا جو کام امریکہ نہیں کر پایا، وہی کام سعودی عرب سے لینے کیلئے نام نہاد کثیر الملکی فوجی اتحاد ترتیب دیا۔ جسے اسلامی اتحاد کا نام دیا، مگر یہ ڈور بھی منڈھے چڑھنے سے پہلے ہی متنازعہ ہوکر رہ گئی۔ فوجی قوت رکھنے والے بڑے مسلمان ملک یا تو اس اتحاد میں شامل نہیں، جیسے ایران، شام، عراق یا پھر ان کی شمولیت مشروط ہے، جیسے کہ مصر اور پاکستان۔ فوجی اتحاد میں کئی ممالک وہ بھی شامل ہیں، جن کی اپنی فوج ہی نہیں اور بعض ایسے ملک بھی شامل کہ جنہوں نے عسکری ساتھ دینے کی حامی ہی نہیں بھری۔ اس اتحاد کے پہلے اجلاس کی صدارت امریکی صدر نے کی اور اعلامیہ میں کہا گیا کہ اتحاد کا مقصد دہشتگردوں کی سرکوبی ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ جس اجلاس کا یہ اعلامیہ ہے، اس کی صدارت امریکی صدر کر رہا ہے۔ وہی امریکہ کہ جو داعش کا تخلیق کنندہ ہے، اتحاد کی سربراہی سعودی عرب کر رہا ہے، وہ سعودی عرب کہ جو جھبۃ النصرہ سمیت درجنوں دہشت گرد گروہوں کا بانی اور حمایتی و مددگار ہے۔ اسلامی دنیا کی اس سے بڑھ کر توہین کیا ہوگی کہ پہلے اسلام کے نام پہ مسلمان نوجوان افرادی قوت کو امریکی مقاصد کا ایندھن بنا کر جہاد جیسے مقدس فریضے کو بدنام کیا اور اب عسکری اتحاد کے نام پر سعودی عرب نے اسلامی دنیا کی عساکر پلیٹ میں رکھ کر امریکہ کو پیش کرنے کی کوشش کی۔

دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ لبنان اسرائیل کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ حزب اللہ اسرائیلی سرحدوں کے پھیلاؤ میں بنیادی رکاوٹ بھی بنی اور اسرائیل کو متعدد بار اپنی جنگی استعداد اور حکمت عملی کی بدولت خاک چاٹنے پہ مجبور بھی کر چکی ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ سمیت صیہونی ریاست کے پالیسی ساز جس قوت و طاقت کو اپنا حریف اول ڈکلیئر کرتے ہیں اور اسرائیل کا جنگی پروگرام جس ملک کو دشمن سمجھ کے ترتیب دیا گیا ہے، وہ ایران اور حزب اللہ ہی ہے۔ لبنان اسرائیل کے خلاف فقط حزب اللہ کا ہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کے حق میں تمام تر مقاومتی تحریکوں کا ایک منبع ہے۔ اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کا یہ اہم مورچہ گرانے کیلئے سعودی عرب سرگرم ہے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق لبنان پہ اپنے دباؤ کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اب دنیا بھر کے عوام بالخصوص مسلمانوں کو حق و باطل کے مابین تفریق کرنے میں بہت آسانی ہوچکی ہے۔ بنیادی طور پر لبنان اور حزب اللہ کیخلاف محاذ کھول کے آل سعود نے اپنے پاؤں پہ کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑی پہ اپنا سر مارا ہے، کیونکہ اس تنازعہ میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی اخلاقی اور نظریاتی حمایت و مدد ایران و حزب اللہ کے ساتھ ہیں۔ حزب اللہ و ایران مخالف حالیہ سعودی سرگرمیوں سے عوامی نفرت کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ سعودی عرب کا یہ اقدام بھی اپنے ملک و قوم کے مفاد میں ہونے کے بجائے اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ یہاں بھی سعودی عرب کا کردار امریکہ، اسرائیل کے رفیق کار کے بجائے آلہ کار کے طور پر سامنے آرہا ہے، جو کہ پورے عالم اسلام کیلئے تکلیف دہ ہے۔ آل سعود کے جرائم و گناہوں کی فہرست یوں تو طویل ہے، مگر ایک مختصر خلاصہ کچھ یوں بھی ہے۔

سرزمین حجاز پر سب سے پہلا قتل عام 1745ء میں تکفیری مکتب فکر کے بانی محمد بن عبد الوہاب نے کیا کہ جس میں 17000 عرب سنی مسلمان قتل کئے گئے۔ 1903ء میں عبدالعزیز بن آل سعود نے سنی قبیلے مطیر کے 160 بیگناہ مسلمانوں کو قتل کیا۔ 1904ء کے اوائل میں عبدالعزیز بن آل سعود نے قبیلہ شمر کے 800 بیگناہ سنی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ 1904ء کے اواخر میں عبد العزیز بن آل سعود نے پھر اسی قبیلے کے 2500 بیگناہ سنی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے ساتھ ساز باز کرکے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ عبدالعزیز نے حنفی سنی مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائیں۔ اسی یہودی ایجنڈے کی تکمیل میں1917ء میں تقریبا 2 لاکھ سنی مسلمان آلسعود کے مظالم کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔ 1918ء میں عبدالعزیز بن آل سعود کی فوج نے سرزمین حجاز کا قبضہ حاصل کرنے کیلئے ایک ہزار سے زائد سنی مسلمانوں کا قتل کیا۔ 1920ء میں آل سعود کی فوج نے کویت کے مختلف قبائل اور بادیہ نشینوں سمیت 3000 کے لگ بھگ عرب مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ 1920ء سے 1930ء تک عسیر کے علاقے کو زیر کرنے کیلئے 3500 سنی مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق عبدالعزیز بن آل سعود کی فورسز نے 45000 کے قریب سنی مسلمانوں کا جس بیہمانہ اور سفاکانہ انداز میں قتل عام کیا، اسکی مثال عرب قبائل کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 1930ء سے لیکر 1941ء کے درمیان برطانوی اور فرانسیسی استعمار کیساتھ ملکر عراق میں خلافت اسلامیہ کی بحالی کیلئے اٹھنے والی تحریک کو کچلنے کیلئے 8000 عراقی مسلمان کا خون بہایا۔

1940ء میں آل سعود نے تیل کی آمدنی سے مالی معاونت سے علمین نامی جنگ میں برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے ہاتھوں 12000 سے زائد مصری عربی مسلمانون کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگین کئے۔ 1948ء میں عبد العزیز بن آل سعود کے دستخط شدہ معاہدے کے تحت فلسطین کو یہودی مسکینوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاہدے کی وجہ سے 1948ء سے لیکر 2017ء تک دو ملین سے زائد فلسطینی مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 12 ملین سے بھی زیادہ پوری دنیا میں بے گھر اور دربدر ہوچکے ہیں۔ 1956ء میں مصر پر اسرائیلی، برطانوی اور فرانسیسی مشترکہ حملہ کی سازش میں بھی آل سعود شریک تھے اور اسی طرح پھر فلسطین کے شہر خان یونس کا ہولناک سانحہ پیش آیا کہ جس میں 500 سنی مسلمانوں کو یہودیوں نے بے دردی سے ذبح کیا۔ جس میں سعودیہ کی خیانت کا انکشاف بعد میں مصری عرب لیڈر جمال عبد الناصر نے بھی کیا۔ 1961ء میں برطانیہ اور خلیجی ممالک کے تعاون سے عراقی رہنما اور صدر عبدالکریم قاسم کے خلاف ایک انقلاب برپا کیا کہ جس کے نتیجہ میں صدر عبدالکریم قاسم کی پھانسی کے ساتھ ساتھ 30 ہزار سے زائد سنی عراقی مسلمان قتل ہوئے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر، اردن، شام، عراق اور لبنان سمیت تمام عرب ممالک اس لئے شکست سے دوچار ہوئے کہ سعودیہ عین موقع پر پیچھے ہٹ گیا اور یوں 25 ہزار شہید اور 50 ہزار زخمیوں کا سبب سعود عرب بنا۔ البتہ اسی شکست کے پیش نظر مراکش کے دارالحکومت خرطوم میں ہونیوالے عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں مالی امداد کی۔ 1973ء میں سعودی شہزادہ فیصل کہ جس نے امریکہ اور یورپ کو تیل کی ترسیل روک دی تھی، کی سربراہی میں مصر اور شام نے عرب ممالک کی حمایت سے اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور اسرائیل کو شکست کا سامنا ہوا، لیکن جنگ کے اختتام کے ساتھ ہی امریکی اور اسرائیلی سازش کے تحت کچھ آل سعود نے فیصل کو تیل کی ترسیل کے جرم میں راستے سے ہٹا دیا۔

1979ء میں تہران میں موجود اسرائیلی سفارتخانے کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اسرائیلی پرچم کی جگہ فلسطینی پرچم لہرایا جاتا ہے، البتہ یہاں سعودی عرب کھل کر کہتا نظر آتا ہے کہ ایران عرب ممالک کے مسائل میں مداخلت کر رہا ہے۔ 1980ء میں امریکہ، اسرائیل، یورپ، سعودیہ اور خلیجی ممالک کی مالی اور عسکری امداد کے بل بوتے پر عراق ایران کے خلاف جنگ چھیڑ دیتا ہے، جو 8 سال تک جاری رہتی ہے، جس میں 1 ملین سے زائد عرب مسلمان مارا جاتا ہے۔ جس کا اعتراف کویت پر حملے کے بعد خود صدام حسین نے کیا تھا کہ ایران کے خلاف جنگ پر مجھے امریکی اسرائیلی اشاروں پر چلتے ہوئے بھڑکانے والا سعودیہ تھا۔ ایران کے خلاف جنگ کا سبب ایران کی فلسطین حمایت پالیسی تھی۔ 1988ء میں ایران عرق جنگ کے خاتمے پر سعودی عرب القاعدہ نامی بدنام زمانہ تنظیم کی بنیاد رکھتا ہے اور اسے افغانستان منتقل کرتا ہے کہ جس کے مظالم کے نتیجے مین 3 ملین کے قریب افغانی مسلمان لقمہ اجل بنتے ہیں۔ 1990ء میں سعودیہ اور خلیجی ممالک عراق کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو صدام حسین کویت پر دھاوا بول دیتا ہے کہ جس میں 1 ہزار سے زائد کویتی شہری قتل ہو جاتے ہیں۔ 1990ء میں امریکہ کی قیادت میں سعودی اور خلیجی ممالک کی مالی امداد سے کویت کی آزادی کیلئے بدرع الصحرا نامی آپریشن شروع کیا گیا اور 1991ء میں آصفہ الصحرا نامی فوجی کارروائی شروع کی جاتی ہے کہ جس میں 2 لاکھ سنی عرب مسلمان قتل ہو جاتے ہیں۔ 1992ء میں سعودی فورسز قطری سرحد پر حملہ آور ہوتی ہیں اور 50 سنی مسلمانوں کو قتل کرتی ہیں۔

10 سال سے مسلسل پابندیوں کے بعد 2003ء میں امریکہ سعودی ریالوں کے بل بوتے پر عراق کی آزادی کے نام پر عراق پر حملہ آور ہوتا ہے اور 10 سال تک امریکی تسلط میں مسلسل ظلم و ستم کا بازار گرم رہتا ہے جس میں 1 ملین سے زائد عراقی سنی مسلمان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ 2004ء سے لیکر 2017ء تک وہابی تکفیری مذہب کی مختلف جہادی تنظیموں نے جس ظالمانہ اور وحشیانہ انداز سے عراقیوں کا قتل عام کیا، اسکی مثال نہیں۔ ذبح، مساجد اور بازاروں سمیت دیگر پبلک پلیسز پہ خودکش دھماکوں سے تباہی انکی حیوانیت کے مظاہر ہیں۔ 2006ء میں اسرائیل امریکی اور سعودی تعاون سے لبنان کے خلاف اس لئے جنگ چھیڑتا ہے کیونکہ ایران حزب اللہ کو سپورٹ کرتا ہے۔ 2008ء میں سعودی خاموشی کے سایہ میں اسرائیل غزہ پر حملہ آور ہوتا ہے کیوں؟ کیونکہ اسرائیل کی مزاحمت حماس کرتی ہے اور حماس کو ایران سپورٹ کرتا ہے۔ 2009ء میں محروقہ نامی فوجی کارروائی کے ساتھ سعودیہ یمن پر حملہ کرتا ہے۔ 2011ء سعودی فورسز بحرین میں اٹھنے والی پرامن عوامی تحریک کو کچلنے کیلئے بحرین میں داخل ہوتی ہیں۔ 2011ء میں سعودی سکیورٹی فورسز قطیف کے علاقے پر دھاوا بولتی ہیں کہ جس میں جانی اور مالی نقصان کی تفصیلات آج تک منظر عام پر نہیں آ سکیں۔

2012ء میں اسرائیل ایک بار پھر ایران کی حماس کو سپورٹ کا بہانہ بناتے ہوئے غزہ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ 2012ء اور 2017ء کے درمیان سعودی نظریئے کی دہشت گرد تنظیموں نے عراق، شام، لیبیا، مصر اور یمن سمیت دیگر مسلم ممالک میں مکمل آزادی کے ساتھ مسلمان، مسیحی اور دیگر اقلیتوں کا ذبح کرکے، جلا کر، تلوار سے، سرقلم کرکے اور خودکش دھماکوں جیسی وحشیانہ کارروائیوں کے ذریعے بے رحمانہ قتل عام کیا۔ 2015ء میں سعودی فوج اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر یمن کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کرتی ہے، جس میں ابھی تک پچاس ہزار بچے گولہ بارود کے ذریعے اور خوراک و ادویات کی عدم دستیابی کے باعث شہید ہوچکے ہیں۔ 2017ء میں سعودی عرب قطر کا محاصرہ کرتا ہے اور ابھی تک اس محاصرہ کے اسباب واضح نہیں کرسکا۔ اسی 2017ء کے آخر میں سعودی عرب نے اسرائیلی خدمت گزاری کی انتہا کرتے ہوئے لبنان اور حزب اللہ کیخلاف نیا محاذ کھولنے کا اعلان کیا اور لبنانی وزیراعظم کو بلیک میل کرکے استعفٰی دلایا۔ آل سعود کی کارگزاری حرمین شریفین کی خدمت کی غماز ہے یا یہود و نصاریٰ کی، اس کا تعین آپ کریں اور یہ فیصلہ بھی کریں کہ حرمین شریفین کی خدمت کا اعزاز کن ہاتھوں میں ہونا چاہیئے۔ مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے نگہبان ہاتھوں میں یا یہود و نصاریٰ کے خدمت گزاروں اور آلہ کار ہاتھوں میں۔ اس فیصلے کا حق بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے پاس ہونا چاہیئے کہ وہ آزادانہ طریقے سے اپنے اہم ترین مقامات مقدسہ یعنی حرمین شریفین کی خدمت کی ذمہ داری بھی اپنی مرضی سے اہل ہاتھوں میں سونپ سکیں۔
"تمام شد"
خبر کا کوڈ : 684638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش