0
Tuesday 21 Nov 2017 19:00

داعش کی شکست دراصل امریکہ و اسرائیل کی شکست

داعش کی شکست دراصل امریکہ و اسرائیل کی شکست
تحریر: صابر ابو مریم

داعش نامی گروہ کہ جس کا پہلی مرتبہ نام شام میں 2011ء کے وسط میں سنا گیا تھا اور اس گروہ کا نعرہ تھا کہ شام و عراق میں اسلامی خلافت کا نظام قائم کرنا۔ اس اسلام کے نام لیوا گروہ نے شام میں مسلح جدوجہد کا آغاز ایسے وقت میں کیا کہ جب تیونس سمیت مصر اور دیگر عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر عروج پر تھی اور اس گروہ کے منظر نامہ پر آنے کے بعد جہاں ایک طرف اسلامی بیداری کی تحریک کو نقصان پہنچا، وہاں ساتھ ہی عالم اسلام اور بالخصوص اسلام کے خوبصورت چہرے کو ایک مرتبہ پھر بری طرح مسخ کرتے ہوئے اسلام کو مجموعی طور پر دنیا کے سامنے بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی، داعش نے شام و عراق میں دولت اسلامیہ یعنی اسلامی خلافت کے نظام کی بنیاد ڈالنے کا نعرہ لگایا، لیکن اس داعش نامی گروہ کا ہر فعل اسلام اور اسلامی خلافت کے اصولوں کے برعکس جاتا رہا۔ بہرحال یہ دہشت گرد گروہ 2011ء سے شام میں تباہ کن بربادی شروع کرنے کے بعد 2014ء میں عراق میں داخل ہوا، اسی طرح 2016ء میں لبنان کے جنوبی و شمالی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی، تاکہ پورے خطے کو نقصان پہنچایا جائے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اس خطے میں سب سے زیادہ اہم اہداف کس ملک کے ہیں؟ مختصر تاریخ کا مطالعہ اور تحقیق کے بعد ہر ذی شعور اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اس خطے کا غیر مستحکم ہونا دراصل امریکہ اور براہ راست اسرائیل کے مفاد میں ہے اور یہی کام داعش کے ذمہ لگا کر امریکہ اور اسرائیل نے انہیں پہلے شام پھر عراق اور بعد میں لبنان میں اتارا، اب حالیہ تازہ خبروں کے مطابق انہی چند ایک بچے کھچے دہشت گردوں کو امریکی و صیہونی حمایت میں افغانستان تک پہنچایا گیا ہے، تاکہ اگلا ہدف افغانستان اور پھر اسی طرح پاکستان میں موجود داعش کے سلیپنگ سیلز کو جگانا اور پاکستان کو انارکی کی طرف لے جانا ہے۔(خاکم بدھن)

تحریر کے آغاز میں بیان کرنا ضروری ہے کہ آج تا دم تحریر ذرائع ابلاغ پر یہ خبریں نشر کی جا رہی ہیں کہ داعش نامی دہشت گرد گروہ کا شام و عراق سے مکمل خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ تحریر اسی پیراہے میں لکھی جا رہی ہے، تاکہ قارئین کی خدمت میں عرض کی جا سکے کہ آخر یہ داعش نامی دہشت گرد فتنہ کس طرح اسلام و مسلمین کے خلاف سرگرم عمل تھا اور اپنے غیر ملکی آقاؤں امریکہ و اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کا خون بہانے میں مصروف تھا۔ بہرحال داعش کے وجود نے نہ صرف عرب دنیا میں اسلامی انقلابی بیداری کو امریکی ایماء پر متاثر کیا بلکہ مصر میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے کا زمینہ بھی فراہم کیا، لیبیا میں عدم استحکام پیدا کرنے اور امریکی بالا دستی قائم کرنے میں داعش کا کردار سرفہرست تھا۔ دوسری طرف شام و عراق میں معصوم انسانوں کے خون سے بدترین انداز سے ہولی کھیلی جاتی رہی، جس کی تاریخ میں اس سے زیادہ بدترین مثالیں نہیں ملتی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکی ایماء پر خطے میں اسلامی بیداری کا راستہ روکنا اور خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے اہداف کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے والی لبنانی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ اور فلسطینی حماس کو بھی ختم کرنا تھا، جسے امریکہ و اسرائیل گذشتہ کئی برس کی ناپاک سازشوں کے ذریعے انجام نہیں دے پائے تھے۔

داعش کے وجود اور اس کے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والی سفاکانہ کارروائیوں نے اوائل اسلام اور اسلام کی آمد کے زمانے کے حالات کو تازہ کر دیا تھا کہ جب مشرکین و کفار اسلام کے خلاف سازشیں کرتے نظر آتے تھے اور منافقین مسلمانوں کی صفوں میں چھپ کر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں ہی کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا کرتے تھے، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے چچا سیدالشہداء امیر حمزہ (رض) کی لاش کا مسلہ کیا جانا اور ہندہ کا ان کا جگر نکال کر چبانا، ایسے ہی واقعات داعش کے اس خارجی گروہ کے ہاتھوں انجام پذیر ہوئے، تقریباً 6 سال قبل ٹھیک اسلام کے اوائلی زمانے کی طرح ایک خطرناک فتنہ کھڑا کیا گیا، جس کے پیچھے اسلام دشمن عناصر بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے ایک ویرانگر فتنہ پورے عالم اسلام میں پھیلانے کی کوشش کی گئی، جس کو داعش کا نام دیا گیا تھا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ و اسرائیل کی جانب سے داعش کو اس لئے وجود بخشا گیا، تاکہ پورے عالم اسلام میں نفاق اور فرقہ واریت کو ہوا دی جائے، جبکہ دوسری طرف دنیا کے مسلمانوں کی مسئلہ فلسطین و القدس کی طرف بڑھتی ہوئی توجہ کو ختم کیا جائے، تاکہ صیہونیوں کے خلاف کم سے کم مزاحمت سامنے آئے۔ داعش کا وجود اس لئے قیام عمل میں لایا گیا تھا، تاکہ اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے اور داعشی دہشت گردوں نے ابتداء میں عراق اور شام کے ہزاروں جوانوں کو تہہ و تیغ کرکے اس ممالک کے شہروں اور دیہاتوں سمیت ہزاروں مربع کلومیٹر پر قبضہ جمالیا تھا اور ہزاروں سڑکیں، پل، ورکشاپس، فیکٹریاں، تیل اور گیس کے متعدد ذخائر، اسکول، ہسپتال، رہائشی مکانات اور بنیادی ڈاھانچے مکمل طور پر تباہ کردئیے گئے تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب تباہ کاریوں کی انہیں اسلام محمدی نے اجازت دی تھی؟ ہرگز نہیں اسلام محمدی ہرگز ایسا اسلام نہیں ہے کہ جس کا چہرہ داعش کے دہشت گردوں نے پیش کیا۔ عراق اور شام میں داعش کی جانب سے کی جانے والی تباہ کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا حساب لگانا انتہائی مشکل کام ہے، لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم 500 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ داعش دہشت گردوں کے مظالم قابل بیان نہیں ہیں، دہشت گردوں نے درندگی کی انتہا کر دی تھی، جیسے چھوٹے چھوٹے بچوں کا سرقلم کرنا، زندہ انسان کی کھال اتارنا، مردوں کو ان کی ناموس کے سامنے زندہ جلانا، جوان لڑکیوں کو اغوا کرکے خرید و فروش کرنا وغیرہ۔ عراق اور شام کے مظلوم عوام داعشی سفاکانہ مظالم کے سامنے بالکل بے بس ہوکر گھر بار سب کچھ چھوڑ کر دوسرے علاقے اور ملکوں کی طرف ہجرت کی اور جو نہ جاسکے ان کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ داعشی دہشت گردوں نے جس علاقے میں قدم رکھا، وہاں کی تمام آثار قدیمہ، مساجد، امام بارگاہوں، چرچ سمیت دیگر مذاہب کے عبادت گاہوں کو بموں سے اڑا دیا، جس میں ہزاروں بے گناہ نمازی اور عبادت گزار شہید ہوگئے۔ داعش نے 6 ہزار سے زائد مسلم نوجوانوں کو اسلام کے نام پر فریب دے کر خودکش حملے کروائے، جس میں مساجد، مدارس، طبی مراکز، مسلمانوں کے عمومی اجتماعات کے مراکز، فیکٹریاں وغیرہ کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں مسلمان جام شہادت نوش کرگئے۔ ان تمام تر ظلم و تشدد کے پیچھے امریکی حکام کا ہاتھ تھا، جیسے کہ حال ہی میں امریکی اعلٰی عہدہ دار( صدر ٹرمپ) نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ داعش کو امریکی سابق حکمرانوں نے بنایا۔ اب بھی امریکی داعش کی بھرپور مدد کر رہے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ داعش کا آج اکیس نومبر 2017ء کو شام و عراق سے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے، دراصل یہ اعلان داعش کی شکست کا نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل کی شکست کا ہے کہ جنہوں نے داعش کی پرورش کی اور اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتے ہوئے اسلام و مسلمین کے خلاف سازشوں کا بازار گرم کیا، ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام کیا، اس جرم میں جہاں امریکی و صیہونی شریک ہیں، وہاں خطے کی خلیج عرب ریاستوں نے بھی امریکہ کے ساتھ عہد وفا نبھاتے ہوئے داعش کی مالی و مسلح معاونت سمیت افرادی قوت پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے، جس کی قلعی حالیہ دنوں قطری شہزادے حمد بن جاسم نے بی بی سی کو دیئے اپنے ایک انٹرویو میں کھول دی ہے اور بتا دیا ہے کہ داعش کو امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ساتھ ترکی، قطر، سعودی عربیہ، اردن اور دیگر کئی خلیج ریاستیں مدد فراہم کر رہی تھیں، بہرحال اب شام و عراق سے اس فتنہ کا خاتمہ یعنی امریکہ و اسرائیل کو ایک اور شکست کا سامنا ہوا ہے، جو یقیناً داعش کی شکست نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل کی شکست ہے۔ ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ داعش کی شکست کے بعد اس کے حامی (امریکہ و اسرائیل) نئے منصوبوں پر کام کریں گے۔ شام و عراق میں داعش کا قیام دراصل گریٹر اسرائیل کی تشکیل اور علاقائی ممالک کی سرحدوں کی توڑ پھوڑ کے لئے بنایا گیا تھا، جسے براہ راست امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب سمیت دیگر عرب حکومتوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان عرب ممالک نے عراق اور شام کی تباہی کے لئے اربوں ڈالر صرف کئے ہیں۔ داعش کی شکست درحقیقت امریکہ، اسرائیل اور تمام ایسے عرب حکومتوں کی شکست ہے، جو داعش کی حمایت کر رہے تھے، لہذا مذکورہ ممالک داعش کی شکست کے بعد خطے کے امن کو تباہ و برباد کرنے کے لئے نئے منصوبوں پر کام کریں گے۔ لہذا ان کے شوم منصوبوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 684948
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش