0
Friday 24 Nov 2017 10:09

خارجہ پالیسی بہتر بنانے کی ضرورت

خارجہ پالیسی بہتر بنانے کی ضرورت
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
 
پاکستان کے گرد و پیش کی دنیا بڑی تیزی سے تغیر پذیر ہے۔ امریکہ اور ہندوستان ایک دوسرے کے زبردست حلیف بن کر جنوبی ایشیاء میں چین کی پیش قدمی کو روکنے کیلئے مشترکہ سٹرٹیجک حلیف ہیں۔ حال ہی میں ہندوستان کے صدر نریندر مودی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی پذیرائی عنایت کی اور صلاح الدین صاحب جیسے کشمیری مجاہد کو دہشت گرد قرار دینے پر مودی کی خوشی دیدنی تھی اور انہوں نے غیرسفارتی انداز میں انتہائی بھونڈے طریقے سے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی بانہوں میں لپیٹ لیا۔ شیطان بزرگ امریکہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیکر پاکستان کی کڑی نگرانی پر مامور کر کے اسے اس خطے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے تاکہ اپنے مفادات پورے کر سکے، لہٰذا علاقائی ممالک باہمی دوستی کا ہاتھ بڑھا کر متحدہ دفاعی محاذ تشکیل دیں، عالمی سرغنہ اور اُسکے پٹھو یاد رکھیں کہ پاکستان نے بھارتی بالادستی نہ پہلے کبھی قبول کی نہ آئندہ کرے گا، اسلام میں عہد و پیمان کی اہمیت مسلم ہے، جسکی خلاف ورزی مفافقت کا شعار ہے، مسلمان اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹتا، اسی لئے ایفائے عہد کرنے والے کو کریم گردانا گیا ہے، ازلی دشمن بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کیلئے ہر قومی و عالمی فورم پر دہشتگردی کے الزامات لگا کر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہا ہے۔
 
کچھ عرصہ قبل نریندر مودی نے عرب امارات اور سعودیہ سمیت مختلف مسلم ممالک کے دورے کر کے اُن کا اعتماد حاصل کیا اور جس قدر بھی ہو سکا پاکستان مخالف ہرزہ سرائی کی۔ بھارتی اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ ابو ظہبی نے بھارت کو پوجا پاٹ کیلئے مندر بنانے کی جگہ دی اور سعودیہ نے تو مودی کو سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا، جبکہ یہ ممالک پاکستان کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور بھارت کیطرف زیادہ جھکاؤ رکھتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی کاہلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر ہمارے حصے کے دریاؤں کے پانی پر بھی قابض ہو گیا ہے، افغانستان پہلے ہی بھارت کی گود میں منی بھارت بن چکا ہے اور اب امریکہ نے اُسے مزید اتھارٹی دے کر زیادہ طاقتور بنا دیا ہے، افغان سرزمین پر 64 کے قریب بھارتی قونصل خانے دہشتگر دی کے تربیت خانے ہیں، جو پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں مکمل ملوث ہیں۔ برکس کانفرنس میں بھی پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگا گیا، جاپان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک نے بھی پاکستان مخالف بیان دیئے، غرضیکہ بھارتی مشینری پاکستان کیخلاف زور شور کیساتھ کام کر رہی ہے۔ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تقاضے کیا ہیں۔ 

انہیں کس طرح پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ کیا امریکہ سے تعلقات کو اس حد تک بگاڑ لینا چاہیے کہ وہ ہندو ستان کے ساتھ مل کر ہماری جغرافیائی سرحدوں پر حملے شروع کردے؟ کیا چین روس، ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر ہم خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں؟ ان تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ریاست کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ایسے عوامل پر رکھیں جو ہمارے سیاسی جغرافیائی، دفاعی، ثقافتی معاشی حالات کی آئینہ دار ہو، یہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتی ہے وقت اور ضرورت کے تحت اس میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے, تاہم بنیادی نظریات اور قومی مفادات ہر صورت میں برقرار رہتے ہیں ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل عوام کے اذہان میں موجود افکار کی روشنی میں ترتیب دینی چاہیے اور یہ بڑی حد تک انسانی رویوں، رجحانات، عقائد ، رواجات اور روایات سے جنم لیتی ہے اور کسی بھی ملک کی نظریاتی سمت اور خارجہ پالیسی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور خارجہ پالیسی کسی بھی قوم کے بین الاقوامی رویے کی عکاسی کرتی ہے اور یہ بنیادی طور پر عوامی امنگوں کی بنیاد قومی پالیسی کا وہ حصہ ہوتی ہے جسکا تعلق بیرونی حالات سے ہوتا ہے۔
 
یہی وجہ ہے کہ اگر حکومتی عمائدین عوام کے ذہنی رجحانات اور سوچ و فکر کے برعکس خارجہ پالیسی کے خدوخال ترتیب دیں گے تو عوام میں ردِعمل پیدا ہوگا ۔ مثلا عوام اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سابق وزیراعظم نواز شریف کے وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی اور سٹیل ٹائیکون سجن جندال کے ساتھ تعلقات کو پسندیدگی سے نہیں دیکھتے تھے۔ اسی طرح پرویز مشرف کا امریکیوں کے سامنے سرنڈر کر دینا بھی عوام کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ عوام اور بعض سیاسی لیڈروں کی شدید آرزو تھی کہ میاں نواز شریف ہندوستانی جاسوس کلبھوشن کے خلاف کوئی بیان جاری کریں مگر انہوں نے اسکو درخور اعتنانہ سمجھا جس کی وجہ سے وہ اپنی خارجہ پالیسی کے متعلق وژن کو عوام کے ذہنی افکار اور سوچ و فکر کے ساتھ ہم آہنگ نہ کر پائے۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں تمام ٹرانسپورٹ اور بس اڈے آزاد بلوچستان تحریک کے پوسٹروں سے بھر پڑے ہیں، جبکہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، مگر ہمارے حکمرانوں کی لاپرواہی کی وجہ سے عدالت نے اُس کی سزا معطل کر دی۔ ٹرمپ کی زیر سرپرستی سعودی اتحاد کی ریاض کانفرنس میں بھارت کی پذیرائی، جبکہ پاکستان کو دھمکیاں دی گئیں۔
 
اب افغانستان کی جنگ پاکستان منتقلی کے پلان سامنے آ رہے ہیں، جبکہ پاکستان کا خیر خواہ اور دیرینہ دوست چین ہے، جس نے ہر موقع پر ہماری مدد کی، اسوقت پاکستان میں 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ خارجہ پالیسی کا یہ پہلو اتنا اہم ہے کہ اسے کسی بھی برسراقتدار سیاسی پارٹی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی غیر سنجیدہ دانشوروں کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بیٹھ کر پاکستان کی بنیاد اساس پر حملے کریں۔ قومی سلامتی کے تقاضے طے کرنے کے بعد ایک قوم اس کی لیڈرشپ اور افواج کا فرض بنتا ہے کہ وہ تقاضوں کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لئے تمام احکامات بروئے کار لائے۔ بقول سابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر ”خطرہ خواہ کتنا ہی گمبھیر ہو یا مزاحمت کی نوعیت کا اپنے ظاہر میں کتنا بھی جواز موجود ہو‘ بین الاقوامی مخالفانہ فضا کا سامنا کرنا چاہئے۔لہٰذا اگر ارباب بست و کشاد یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے ساتھ نہیں چلنا ہے تو پھر ہمیں حکمت و دانش اور ثابت قدمی سے سفارتی اور دفاعی محاذ پر کام کرنا ہو گا۔لہٰذا آج پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ کا نیا عالمی نظام جو پوری قوت سے حرکت پذیر ہے اس کے دانت کھٹے کرنے کے لئے لازم ہے کہ افغانستان، ایران، ترکی اور چین سے روابط مضبوط کئے جائیں۔
 
روس کی طرف نئے سرے سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ مشرق بعید میں جاپان سے معاشی اور تجارتی تعلقات مزید استوار کرنے ہوں گے۔ پاکستان کا سارک میں سوائے اس کے کوئی دوسرا کردار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ہندوستانی غلبہ کے خلاف دوسرے ممبران ممالک کے ساتھ مل کر پالیسی وضع کرے اور انہیں ہندوستان کی بالادستی سے بچائے۔ خارجہ پالیسی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے تین امور فوری طور پر توجہ کے مستحق ہیں۔ یہ کہ کسی دشمن طاقت کی طرف سے ممکنہ حصار بندی کے اثرات زائل کرنے کے لئے ایک اضافی منصوبہ تیار کیا جائے اور یہ قومی ایجنڈے کا اہم جزو ہونا چاہئے۔ یہ مجوزہ منصوبہ ہمارے معاشی حالات خصوصاً درآمدات اور برآمدات کے حجم اور ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے وضع کیا جائے اور اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ ہم متبادل اشیاءکتنی جلدی تیار کر سکتے ہیں اور اشیائے ضروریات کی فراہمی کے لئے ہم کسی حد تک افغانستان‘ ایران اور چین پر انحصار کر سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہندوستان امریکہ سے مل کر ہماری سمندری ناکہ بندی کرے تو یہ تینوں ممالک ہمارے لئے بڑے اہم ہیں۔ سی پیک کے روٹس بننے سے چین‘ پاکستان اور ایران کو محفوظ تجارتی راستے مل جائیں گے۔
 
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان پریشانی میں مبتلا ہے کہ اگر پاکستان وقت کے ساتھ ساتھ گڈ گورننس اور کرپشن کے خاتمے کے ساتھ معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ اپنی دفاعی ضروریات میں بھی خودکفیل ہو جاتا ہے تو پھر وہ وقت دور نہیں کہ پاکستان حقیقت میں ایک جدید‘ فلاحی ریاست کا روپ دھار لے گا جو علامہ اقبال اور قائداعظم کا وژن تھا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایران سمیت مختلف مسلم ممالک کا دورہ خوش آئند ہے، کیونکہ ایران وہ دست ملک ہے، جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا، حال ہی میں گوادر میں پاک ایران مشترکہ سرحدی کمیشن کے اجلاس میں بہت سے اُمور پر صلح و صفائی کیساتھ فیصلے ہونا اچھی بات ہے، لیکن برادر پڑوسی ملک افغانستان آغاز ہی سے پاکستان کیلئے تکلیف دہ بنا ہوا ہے، جو آج بھی بھارت کی زبان بولتا ہے، امریکی وزیر خارجہ نے بھی اپنے حالیہ دورہ بھارت و پاکستان میں پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے بصورت دیگر سخت نتائج کی دھمکیاں دیں، اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بھارت کو پاکستان پر مسلط کرنے کے منصوبے تشکیل دیئے جا رہے ہیں، لہٰذا حکومت موجودہ صورتحال میں وطن عزیز کی بقا و استحکام اور دفاع کیلئے دیرینہ دوستوں کو ساتھ ملا کر جرات مندانہ اقدامات اور خارجہ پالیسی ترتیب دے۔
خبر کا کوڈ : 685381
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش