0
Friday 24 Nov 2017 14:42

ایران سے جنگ اور اسرائیل سے سازباز

ایران سے جنگ اور اسرائیل سے سازباز
تحریر: علی ودائع

عراق اور شام میں تکفیری دہشت گروہ داعش کا خاتمہ درحقیقت گذشتہ 6 برس سے جاری تمام سعودی پالیسیوں کی حتمی شکست ہے۔ خطے کے عرب ممالک میں رونما ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک جسے مغربی طاقتوں نے عرب اسپرنگ کا نام دیا، کو کچلنے کیلئے سعودی حکام نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو تشکیل دیا جس کے شدت پسندانہ اور دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن داعش کی بانی حکومتوں اور قوتوں کا اصل ہدف ایران تھا۔ روس کے شہر سوچی میں ایران، روس اور ترکی کے سربراہان مملکت کے درمیان انتہائی اہم سہ فریقی اجلاس سے پہلے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور شام کے صدر بشار اسد کے درمیان غیر متوقع ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اہم منصوبہ بندی عمل میں لائی گئی ہے۔

دوسری طرف روسی حکام غیر سرکاری اور غیر اعلانیہ طور پر سعودی اور امریکی حکام سے بھی رابطے میں ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں آل سعود رژیم کی حکومت روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے اور یہ ملک سعودی خاندان کی ڈکٹیٹرشپ سے محمد بن سلمان کی ڈکٹیٹرشپ کی جانب گامزن ہے۔ سعودی سلطنتی خاندان کی تمام طاقت اور ثروت کا ولیعہد محمد بن سلمان کے ہاتھوں میں جمع ہو جانا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ سعودی عرب کا آئندہ فرمانروا ایسا لارڈ آف رینگز ہو گا جو سیاسی کھیل کھیلنے کی بہت زیادہ طاقت کا حامل ہو گا۔ سعودی خاندان کا یہ جوان اور اقتدار طلب شہزادہ اپنے 2030ء وژن کے تحت مغربی ایشیا سے مشرقی افریقہ تک گریٹر عرب اسٹیٹس تشکیل دینے کے درپے ہے۔

سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان درحقیقت اسی ہدف کے درپے ہیں جو اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا تھا اور جسے حاصل کرنے میں داعش (دولت اسلامی) ایک حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئی لیکن آخرکار اسے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ محمد بن سلمان نے عملی طور پر اپنے آبا و اجداد کی سیرت کو ترک کرتے ہوئے وہابی مذہبی رہنماوں کو کچلنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ سعودی عرب کا اگلا فرمانروا دنیا والوں کو اپنے ملک کا ایسا چہرہ روشناس کروانا چاہتا ہے جو مذہب سے بالاتر ہو کر مہربانی پر استوار ہو۔ لیکن اس کے باوجود سعودی رژیم کی تکفیری نیچر برقرار رہے گی۔ سعودی ولیعہد نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے انتہائی قریبی تعلقات ہونے کے ناطے اب تک اپنے مقاصد کیلئے امریکی پالیسیوں سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب میں سطحی حد تک سماجی آزادیاں عطا کرنے کا نتیجہ عرب اسپرنگ دوبارہ شروع ہونے اور انقلاب کی صورت میں ظاہر ہو گا لیکن محمد بن سلمان نے 250 شہزادوں کی گردن پر اپنی تیز تلوار قرار دے رکھی ہے اور ہر تنقید کرنے والے شخص کی گردن اڑا دی جاتی ہے۔ آج محمد بن سلمان کی سب سے بڑی پریشانی ملک کی اندرونی سیاسی صورتحال نہیں بلکہ وہ پہلے ایران اور اس کے بعد ترکی کو اپنے راستے سے ہٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے کردستان کے ذریعے ترکی کے خلاف ایسے منصوبے تیار کر رکھے ہیں جنہوں نے ترک صدر رجب طیب اردگان کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں۔ عرب لیگ کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ محمد بن سلمان نے متعدد عرب حکمرانوں کو سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کی مانند ایران کے خلاف اکٹھا کر رکھا ہے لیکن اب تک وہ عراق، لبنان اور حتی مصر کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح قطر کا مسئلہ ایک ایسے بحران میں تبدیل ہو گیا ہے جس نے سعودی عرب کی روایتی چوہدراہٹ کو چیلنج کر رکھا ہے۔

آل سعود رژیم انتہائی بحرانی صورتحال کا شکار ہے اور سعودی حکام اس صورتحال سے نکلنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔ سعودی رژیم خیال کرتی ہے کہ اسے درپیش تمام مسائل کی اصل وجہ ایران کا اسلامی انقلاب ہے لہذا اس نے ایران کے حقیقی دشمن اسرائیل سے سازباز کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خطے میں ایران کو اپنا دشمن تصور کرنا آل سعود رژیم کی پہلی غلطی ہے جبکہ اس فرضی دشمن سے مقابلے کیلئے اسلامی دنیا کے پہلے نمبر کے دشمن اسرائیل کی گود میں پناہ لینا دوسری بڑی غلطی ہے۔ اب جبکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے آل سعود رژیم کی جانب سے ایران سے ٹکراو کی نوعیت انتہائی مختلف قسم کی ہو گی۔ سعودی حکام ایران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ دیگر ممالک میں مداخلت پسندانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور خطے میں مذہبی جنگ شروع کرنا چاہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی میں موجود بدامنی اور عدم استحکام کا ذمہ دار وہ خود ہیں۔

آل سعود رژیم اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم لبنان کے خلاف جنگ کی پیاسی ہیں اور وہ اس مقصد کیلئے داعش کے بچے کھچے عناصر اور دیگر تکفیری عناصر کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ اسرائیلی حکام واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ ایک عرصے سے بعض عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب سے خفیہ تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے فوجی حکام بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ خطے میں ایران کے خلاف سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک سے متحد ہونے کو تیار ہیں۔ آج تمام مسلمانان عالم اور امت مسلمہ کی بابصیرت سیاسی و مذہبی شخصیات کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ دنیا اور عالم اسلام انتہائی حساس اور فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہا ہے۔

امت مسلمہ کی سیاسی و مذہبی شخصیات کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی دشمن قوتوں کو پہچانیں اور اسلامی دنیا میں گھسے ان کی ایجنٹس کا بھی چہرہ فاش کریں۔ آج حقیقی اسلام کا چہرہ روز بروز مزید واضح ہوتا جا رہا ہے جبکہ جعلی اسلام کے چہرے سے بھی پردہ اٹھتا جا رہا ہے اور اب ہم سب مسلمانوں کیلئے بڑا الہی امتحان یہ ہے کہ ہم حقیقی اسلام کے حامی عناصر اور قوتوں کو پہچانتے ہوئے کس طرح ان کا ساتھ دیتے ہیں تاکہ حق اور باطل کے اس فیصلہ کن معرکے میں حق کے ساتھ کھڑے ہوں نہ کہ ہمارا نام باطل کے حامیوں میں لکھا جائے۔
مترجم : سید ضیغم عباس ھمدانی
خبر کا کوڈ : 685402
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش