0
Friday 24 Nov 2017 22:46

Raqqa's Dirty Secret

Raqqa
تحریر: سید اسد عباس

امریکہ اور برطانیہ دہشت گردوں کے حامی ہیں یا دشمن، بی بی سی کی حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ Raqqa's Dirty Secret میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنے ہی ملک کے اداروں کی داعش سے ساز باز کے قصے کو عام کیوں کیا۔ یہ سوال تعجب انگیز ہے، تاہم روپورٹ کے مطابق رقہ پر قبضہ اور شامی افواج کے داعش کے علاقوں پر حملوں کے بعد امریکی اور برطانوی اداروں کے زیر سرپرستی داعش کو کرد فورسز کے زیر قبضہ علاقوں سے گزار کر شام کے مختلف علاقوں میں پہنچایا گیا اور ان میں سے بعض ترکی بھی پہنچے۔ اس معاہدے کے مطابق غیر ملکی جنگجووں کو رقہ اور مضافاتی علاقوں سے نہیں نکالا جانا تھا، تاہم یہ لوگ بھی اس قافلے میں شامل ہو کر فرار کر گئے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ابو الفوضی جو اٹھارہ ویلر ٹرک کا ڈرائیور ہے، کو سیریا ڈیموکریٹک فورسز جو کہ اتحادی افواج کے زیر سرپرستی شام میں لڑ رہی ہیں، کی جانب سے بک کیا گیا اور اسے بتایا گیا کہ اسے کچھ پناہ گزینوں کو رقہ سے نکال کر چھے گھنٹے کی مسافت تک چھوڑنا ہے۔ 12 اکتوبر کو ابو فوضی اور دیگر ڈرائیور جب پناہ گزینوں کو اٹھانے آئے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ انہیں پناہ گزین نہیں بلکہ سینکڑوں داعش کے جنگجوؤں اور ان کے خاندان کے افراد کو اسلحہ سمیت تین دن کی مسافت تک لے جانا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے سے روکنے کے لئے بہت سعی کی گئی، تاہم اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لئے بی بی سی نے بہت سے عینی شاہدوں اور ڈرائیوروں سے انٹرویو کئے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق فوضی کہتا ہے کہ ہمارا خیال تھا کہ SDF کے اراکین ہمارے ہمراہ رقہ جائیں گے، تاہم انہوں نے تنہا ہمیں آگے جانے کو کہا۔ فوضی کے مطابق جیسے ہی ہم لوگ رقہ میں داخل ہوئے تو داعش کے افراد اپنا اسلحہ لہراتے ہوئے سامنے آگئے، انہوں نے تمام گاڑیوں پر بارود نصب کیا کہ اگر کوئی بھی حرکت معاہدے کے خلاف ہوئی تو ہم پورے قافلے کو اڑا دیں گے۔ فوضی کے مطابق ان تمام افراد کے چہرے چھپے ہوئے تھے، سب کے پاس اسلحہ تھا، حتٰی کہ خواتین نے بھی خودکش جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابقSDF کا کہنا تھا کہ چند ایک جنگجو فرار کر رہے ہیں، تاہم قافلے کے ڈرائیوروں کے نزدیک ان کی تعداد تقریباً چار ہزار تھی۔ ڈرائیوروں کا کہنا تھا کہ ہمارا قافلہ سات کلومیٹر پر مشتمل تھا، اس میں 50 بڑے ٹرک، 13 بسیں اور داعش کی اپنی سینکڑوں گاڑیاں تھیں۔ بی بی سی کے مطابق داعش کے پاس فقط ہلکے ہتھیار ہونے چاہیے تھے، تاہم انہوں نے دس ٹرک فقط ہتھیاروں سے بھرے۔ داعش کے فرار کرتے جنگجوؤں کو کسی قسم کا بینر یا جھنڈا لہرانے کی اجازت نہ تھی۔ بی بی سی کے مطابق مئی میں امریکہ کے سیکرٹری دفاع نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ داعش کے غیر ملکی جنگجوؤں کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا، تاہم فوضی اور دیگر ٹرک ڈرائیوروں کے مطابق قافلے میں فرانس، ترکی، آذربائیجان، یمن، سعودیہ، چین، تیونس، مصر سمیت کئی ایک دیگر ممالک کے بھی داعشی موجود تھے۔

بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کی زیر سرپرستی کام کرنے والے اتحاد نے اس فرار یا ڈیل میں اپنے کردار کو تسلیم کیا ہے اور ان کے مطابق 250 جنگجو اپنے 3500 کے قریب افراد خانہ کے ہمراہ رقہ سے نکالے گئے۔ فوضی اور دیگر ٹرک ڈرائیوروں کے مطابق ان کا یہ قافلہ غیر معروف صحرائی راستوں پر سفر کرتا رہا اور ہم جن جن علاقوں سے گزرے، وہاں کی آبادی کو گھروں میں رہنے کا کہا گیا تھا۔ بی بی سی نے ان دیہاتوں اور قصبوں کے افراد سے بھی اس قافلے کے بارے میں انٹرویو کئے ہیں۔ شام کے ایک دیہات کے دکاندار محمد کے مطابق جب داعش کا یہ قافلہ ہمارے گاؤں میں داخل ہوا تو گاؤں والوں کو گھروں میں رہنے کا کہا گیا، تاہم میں اپنی دکان میں موجود تھا، قافلے کے افراد جو بھوک و پیاس کے سبب نقاہت کا شکار تھے، نے میری دکان میں کافی خریداری کی اور دکان کے تقریباً تمام شیلف خالی کر گئے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تقریباً تمام دیہاتیوں نے بتایا کہ قافلے کے اوپر امریکی و برطانوی جہاز حتٰی کہ ڈرون بھی موجود رہتے تھے۔ فوضی کے مطابق اندھیرے میں ہمارے سر پر سے ایک اتحادی طیارہ گزرا، جس نے فلیئرز بھی چھوڑے۔ جس سے سارا علاقہ روشن ہوگیا۔ بی بی سی کے مطابق اتحادی افواج نے اب اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگرچہ ہمارا کوئی فوجی زمین پر نہیں تھا، تاہم ہم نے اس قافلے کو فضا سے مانیٹر کیا ہے۔ فوضی کے مطابق ان داعشیوں کو رقہ سے نکال کر مختلف علاقوں میں لے جایا گیا، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کاروان کا کچھ حصہ بو کمال کے پاس بھی دیکھا گیا۔

بی بی سی نے انسانی سمگلروں سے بھی بات کی، ان کے مطابق جب سے رقہ پر SDF اور شامی افواج کا قبضہ ہوا ہے، اس وقت سے ہمارا کاروبار بہت بڑھ گیا ہے۔ انسانی سمگلر کے مطابق گذشتہ ہفتے میں ہم نے بہت سے افراد کو ترکی کی سرحد پار کروائی ہے۔ انسانی سمگلروں کے مطابق ان افراد سے ہم 600$ فی فرد اور 1500 ڈالر فی کنبہ لیتے ہیں۔ انسانی سمگلر کے مطابق سرحد پار کرنے والے افراد میں سے کچھ انگریزی بولتے تھے، کچھ فرانسیسی زبان اور کچھ دیگر زبانیں۔ ولید کے مطابق بڑے درجے کے داعشیوں کا اپنا نظام ہے، وہ انہی افراد کے ذریعے فرار کر رہے ہیں، جو لوگ انہیں یہاں لے کر آئے تھے۔ ترکی میں گرفتار ایک داعشی ابو مصعب جو 12 اکتوبر کو ہی رقہ سے فرار ہوئے، کے مطابق ہم پر دس دس گھنٹے فضائی حملے کئے جاتے تھے، جس کے سبب ہم لوگ معاہدہ کرنے پر آمادہ ہوئے، ان کے مطابق یہ حملے اتحادی افواج کی جانب سے ہو رہے تھے۔ پہلے تو ہم معاہدہ کرنے پر آمادہ نہ تھے، تاہم جب ہماری ایک ایسی پناہ گاہ پر حملہ کیا گیا، جہاں خواتین اور بچے تھے تو ہم معاہدے پر آمادہ ہوئے۔ اس حملے کے دس گھنٹے بعد بات چیت کا آغاز ہوگیا اور وہ جو معاہدے پر آمادہ نہ تھے، اس کے لئے پیش پیش تھے۔ ابو مصعب کے مطابق ہمیں شام کے مضافاتی علاقے میں پہنچایا گیا، جو عراق کے بارڈر سے دور نہیں ہے۔ ابو مصعب نے وہاں سے ترکی کی جانب فرار کی کوشش کی، جو کامیاب نہ ہوسکی اور وہ گرفتار ہوگیا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ رقہ میں بچ جانے والے جنگجوؤں اور ان کے اہل خاندان کو ابو کمال اور اس کے مضافات میں پہنچایا گیا، تاکہ وہ یہاں پر عراقی داعشیوں کے ساتھ مل کر اپنا مرکز قائم کر سکیں اور مقاومتی فورسز سے مقابلہ کریں۔ تاہم رقہ میں شکست اٹھا کر ان جنگجوؤں کے حوصلے پست ہوچکے تھے، لہذا ان میں سے اکثر نے ترکی کے راستے فرار کی کوشش کی۔

سابق داعشی کمانڈر ابو مصعب کے مطابق بہت سے داعشی ادلب کی جانب بھی گئے، ہم نے انسانی سمگلروں کو پیسے دیئے کہ وہ ہمیں محفوظ مقامات تک پہنچائیں، تاہم بہت سے سمگلر ہمیں آدھے راستے میں چھوڑ کر چلے گئے۔ ادلب تک جانے کے لئے انسانی سمگلروں نے داعشی افراد سے 4000143 ڈالر فی کس تک کی رقم لی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک فرانسیسی داعشی کا کہنا ہے کہ چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ہمارے کچھ فرانسیسی بھائی فرانس بھی پہنچ چکے ہیں۔ اس کے مطابق فرار کرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، جو مقامی افراد قبول کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں مقاومتی فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلمانی نے داعش کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان شام کی عراقی سرحد بو کمال کی فتح کے بعد سامنے آیا۔ اتحادی افواج نے داعش کو رقہ اور دیر الزور سے نکال کر بوکمال کی جانب دھکیلا، تاکہ یہ مقاومتی بلاک کی افواج کو روک سکیں، تاہم شکست خوردہ داعشی بوکمال میں رکنے کے بجائے ترکی کی جانب نکل کھڑے ہوئے اور ان میں سے اکثر غیر ملکی جنگجو اپنے اپنے ممالک کی جانب بھی چل پڑے۔ جس کی تصدیق شام میں رہ جانے والے باقی داعشیوں نے بھی کی ہے۔ یقیناً یہ افراد اپنے اپنے ممالک میں بھی اپنے نظریئے پر کاربند رہتے ہوئے اپنی کارروائیوں کو جاری رکھیں گے۔ اہم سوال یہ ہے کہ بی بی سی نے اس رپورٹ کو کیوں شائع کیا، کیا صحافتی آزادی و امانت داری یا اس رپورٹ کے پیچھے کوئی اور مقصد چھپا ہوا ہے۔

اس رپورٹ سے تاثر یہ ملتا ہے کہ اتحادی افواج شام میں داعش کے خاتمے کے لئے سرگرم عمل ہے اور رقہ کو داعش کے قبضہ سے معاہدے کے ذریعے چھڑانے میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ رپورٹ میں یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ انہوں نے اگرچہ داعش کے غیر ملکی اور مقامی جنگجوؤں کو نکلنے کی اجازت دی، تاہم ان کو شام کے دیگر جنگ زدہ علاقوں کی جانب ہی جانے دیا گیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ داعش کے یہ افراد ترکی اور اس راستے سے اپنے آبائی ممالک کی جانب فرار کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ اتحادی افواج نے داعشیوں کو عراق کے بارڈر کی جانب دھکیل دیا۔ جہاں ان کا سامنا مقاومتی بلاک سے ہوا۔ اب نہیں معلوم کہ ان کے رنگ لیڈرز کہاں گئے، یہ بات تو ثابت ہے کہ اتحادی افواج اور داعش کے مابین معاہدے اور ہم آہنگی ہوئی۔ انسانی سمگلرز کے مطابق اہم داعشی کمانڈر اپنے سابقہ روابط کو استعمال کرتے ہوئے ملک سے فرار کر رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ موصل سے بھی اہم افراد کو کسی نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کارزائی کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں داعش کے لئے راہیں ہموار کر رہا ہے۔ شام سے بچ کر نکلنے والے یہ افراد فقط افغانستان نہیں بلکہ بہت سے مسلم ممالک میں ظاہر ہونگے۔ افغانستان، پاکستان، یمن، مصر، سعودیہ، تیونس، یورپی ممالک کا نام تو واضح انداز سے لیا گیا۔ آج مصر کی مسجد میں ہونے والا دہشتگردی کا واقعہ شاید اس سلسلے کی ابتداء ہے۔ پاکستان کے صوبہ سرحد میں بھی ایک اہم پولیس آفیسر خودکش حملے میں شہید ہوئے۔ وہ جنگ جو شام اور عراق میں مکمل ہوگئی، اب ان علاقوں میں جائے گی، جہاں سے یہ داعشی لائے گئے تھے۔ یقیناً مسلمان ممالک بالخصوص پاکستانی سکیورٹی ادارے امور پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 685536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش