4
0
Sunday 26 Nov 2017 00:00

مسئلہ شام کے سیاسی حل کی کوششیں تیز

مسئلہ شام کے سیاسی حل کی کوششیں تیز
تحریر: عرفان علی

مسئلہ شام کے سیاسی حل کے لئے کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔ آستانہ مذاکراتی عمل کے تین ضامن ممالک ایران، ترکی اور روس کے سربراہان حکومت اور خاص طور پر روس کے صدر پوتین نے اس حوالے سے کافی فعالیت دکھائی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ شام کے تناظر میں ماہ نومبر2017ء ایک اہم مہینہ ثابت ہوا ہے۔ روسی حکومت شام کے ایشو پر شامیوں کے مابین مکالمے کے لئے انکی قومی کانگریس ماہ دسمبر میں منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا کہ آستانہ مذاکراتی عمل کے تسلسل میں تین ملکوں کی فعالیت نسبتاً زیادہ ہے۔ 22 نومبر بروز بدھ روس کے شہر سوچی میں پوتین کی میزبانی میں ایرانی صدر حسن روحانی، ترک صدر رجب طیب اردگان نے سہ طرفہ سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ اس سے ایک روز قبل ترک، ایرانی و روسی فوجی قیادت کا اجلاس بھی سوچی میں ہوا اور اسی روز شام کے صدر بشار الاسد بھی پوتین کی دعوت پر سوچی پہنچے تھے، جہاں دونوں کی ملاقات میں تفصیلی بات چیت کی گئی۔ روسی حکومت نے ان تمام امور کے بارے میں آگاہی کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے برائے شام اسٹیفان ڈی مسچورا کو ماسکو بلایا تھا، جہاں وزیر خارجہ سرجئی لاوروف نے انہیں تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔

دوسری جانب سعودی دارالحکومت ریاض میں شام مخالف گروہوں کی اعلٰی سطحی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے۔ اقوم متحدہ کے تحت جنیوا میں شامی حکومت اور ان کے مخالفین کے مابین مذاکرات کا ایک اور دور 28 نومبر کو متوقع ہے۔ ریاض میں اسی اجلاس کے لئے تیاری کی گئی ہے، البتہ اس اعلٰی سطحی مذاکراتی کمیٹی میں اختلافات بدستور برقرار ہیں اور اس مرتبہ اس کمیٹی کے سربراہ اور چند اہم قائدین مستعفی ہوچکے ہیں۔ تین روز تک مشاورت کے بعد اس کمیٹی نے اس بات پر اتفاق ظاہر کیا ہے کہ نصر الحریری کی سربراہی میں انکا 36 رکنی وفد جنیوا مذاکرات میں دعوت پر شریک ہوگا۔ ڈی مسچورا پہلے ہی اپوزیشن گروپس سے کہہ چکے تھے کہ اگر وہ ایک ہم آہنگ، نمائندہ، تزویراتی طور پر دانشمندانہ اور موثر ٹیم پر متفق ہو جائیں کہ جس سے شامی معاشرے کا تنوع ظاہر ہو اور جو شامی حکومت کی طرح بغیر پیشگی شرائط کے مذاکرات میں شریک ہوں تو اس طرح وہ جنیوا امن مذاکراتی عمل میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں۔ ڈی مسچورا نے 24 نومبر کو سرجئی لاوروف سے ملاقات میں روس کی کوششوں کو سراہا جبکہ انہیں وہاں بتایا گیا کہ اس سارے عمل میں اقوام متحدہ کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

سوچی سہ طرفہ سربراہی اجلاس کے مشترکہ بیان میں پوتین، اردگان اور حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قرارداد نمبر 2254 کی روشنی میں شام میں امن و استحکام کے قیام کے لئے مل کر متحرک کردار ادا کرنے کے عزم کے عہد کا اعادہ کیا۔ تینوں نے شام میں سیز فائر کے حوالے سے سہ طرفہ کو آرڈی نیشن پر اطمینان کا اظہار کیا۔ تینوں اس سیز فائر کے ضامن ممالک ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ داعش، جھبۃ النصرہ سمیت جن گروہوں کو بھی اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا، ان کو شکست دینے کی بین الاقوامی کوششوں کے کئی برسوں بعد اور 29 دسمبر 2016ء سے سیز فائر کے نفاذ کے گیارہ ماہ بعد ، ان دہشت گردوں کے خاتمے کے قریب پہنچنے کے عمل میں پیش رفت ہوئی ہے، تینوں ملک ان دہشت گردوں کی حتمی شکست کے لئے تعاون جاری رکھیں گے۔ تینوں صدور نے زور دے کر کہا کہ آستانہ مذاکراتی عمل کے تحت قائم ہونے والے ڈی اسکیلیشن زون کا قیام موثر ثابت ہوا ہے، اس سے تشدد میں کمی اور لوگوں کی مصیبت و ابتلاء کا سلسلہ ختم ہوا ہے، نقل مکانی کا سلسلہ رکا ہے اور ایسے عمل کا آغاز ہوچکا ہے، جس کے تحت مہاجرین کی اپنے علاقوں میں محفوظ واپسی ہوسکے گی۔ تینوں نے امن و استحکام کے قیام میں آستانہ عمل کی کامیابیوں کو تسلیم کیا ہے۔

شامیوں کی جانب سے اپنے ملک کو متحد رکھنے اور ایسے سیاسی عمل کے لئے تینوں ملک تعاون کریں گے کہ جو عمل سبھی کی نمائندگی پر مشتمل، آزاد و شفاف ہو اور شامیوں کی اپنی طرف سے اسے تسلیم کیا جائے، ایسا عمل جو انہی کی قیادت میں انجام پائے کہ جس کے ذریعے شامیوں کی حمایت سے آئین بنے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں اہل شامی ووٹروں کی شرکت پر مبنی آزاد و شفاف انتخابات ہوں۔ تینوں نے عرب جمہوریہ شام کی خود مختاری، آزادی، اتحاد اور جغرافیائی وحدت و سلامتی پر اتفاق کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی واضح تاکید کی کہ ڈی اسکیلیشن زون ہو یا سیاسی عمل، یہ اس طرح انجام پائیں کہ عرب جمہوریہ شام کی عرب جمہوریہ شام کی خود مختاری، آزادی، اتحاد اور جغرافیائی وحدت و سلامتی کو متاثر نہ کریں۔ تینوں سربراہان حکومت نے شامیوں کے مابین ایسے وسیع مکالمے کی حمایت کی، جس میں شامی معاشرے کے تمام طبقات کے نمائندے شامل ہوں۔ مشترکہ بیان میں شام کی حکومت اور ایسے اپوزیشن گروہ کہ جو شام کی خود مختاری، آزادی، جغرافیائی وحدت اور شامی ریاست کی عدم تقسیم پر مبنی ہیئت پر یقین رکھتے ہوں، انہیں تاکید کی گئی کہ وہ سوچی میں ہونے والی شامی قومی مکالمہ کانگریس میں ضرور شرکت کریں کہ جو مستقبل قریب میں منعقد ہوگی۔ تینوں نے اتفاق کیا کہ اس کی کامیابی کے لئے تینوں ملک اپنا فعال کردار انجام دیں گے۔

تینوں نے انسانی امداد تک تیز، محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی کی ضرورت پر زور دیا۔ مسئلہ شام کے تمام شامی فریقوں پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے مابین اعتماد قائم کرنے کے لئے اقدامات کریں، یعنی قیدیوں اور مغویوں کی آزادی، لاشوں کی حوالگی، گمشدہ افراد کی شناخت وغیرہ۔ شام میں سیاسی عمل اور پائیدار امن کے لئے مطلوبہ بہتر حالات پیدا کرنے کے لئے تینوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ڈی اسکیلیشن اور استحکام کے عمل کی سپورٹ کریں، شام عوام کے لئے اضافی امداد بھیجیں اور دیگر امدادی کاموں میں سہولت کار کا کردار انجام دیں۔ تاریخی ورثے کی حفاظت، انفرا سٹرکچر اور سماجی و اقتصادی مراکز کی بحالی میں مدد کریں۔ مشترکہ بیان کے مطابق سہ ملکی تعاون سے امید ہے کہ خطے کی مجموعی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے لسانی و فرقہ وارانہ تقسیم کا خطرہ کم ہوگا۔ حسن روحانی اور اردگان نے پوتین کی میزبانی اور اس مشاورت پر شکریہ بھی ادا کیا۔ یہ یاد رہے کہ اس سے ایک روز قبل یعنی اکیس نومبر کو پوتین نے بشار الاسد سے جو ملاقات کی یا ان تینوں ملکوں کی فوجی قیادت کا جو اجلاس ہوا، اس میں بھی مسئلہ شام کے حل پر ہی گفتگو کی گئی۔ پوتین نے اس ایشو پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے فون پر گفتگو بھی کی ہے، جبکہ مصر کے صدر ال سیسی اور متحدہ عرب امارات کی ریاست ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید بن النھیان کو بھی روس کی جانب سے آگاہ رکھا جا رہا ہے۔

روس کی کوشش ہے کہ سبھی فریقوں کو کمپرومائز پر راضی کرے، تاکہ شام میں امن مکمل طور پر بحال ہو۔ لیکن بنیادی طور پر اصل نکتہ یہ ہے کہ اس ملکی تعاون نے اور اس کے تحرک نے مسئلہ شام پر امریکہ اور یورپ کو سائیڈ لائن کر دیا ہے، جبکہ سعودی عرب بھی اب روس کے مشورے سن رہا ہے کہ روس نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ اپوزیشن گروپوں کو یکجا کرے۔ پوتین کا کہنا ہے کہ اصلاحات کا عمل آسان نہیں ہوگا بلکہ یہ مسئلے کے تمام فریقوں کی جانب سے رعایتوں اور سمجھوتوں کا متقاضی ہوگا۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ پوتین نے صہیونی وزیراعظم بنجامن نیتین یاہو سے بھی فون پر بات چیت کی ہے جو کہ اپنی جگہ ایک پریشان کن خبر اس لئے ہے کہ عرب اور مسلمان نسل پرست دہشت گرد ریاست اسرائیل کو ایک جعلی ریاست کہہ کر مسترد کرچکے ہیں۔ سہ ملکی سربراہی اجلاس میں طویل مشاورت اور مشترکہ بیان کے باوجود ترک صدر رجب طیب اردگان کو شام کے سیاسی عمل میں کردوں کی شرکت پر اعتراض ہے۔ شامی حکومت کے مخالف کرد گروہ وائی پی جی کو ترکی نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بعض کرد گروہوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، جیسا کہ وائی پی جی یا پھر رقہ اور گردونواح میں ایس ڈی ایف نامی اتحاد۔

روحانی صاحب کا کہنا ہے کہ شام میں ایسی کوئی غیر ملکی فوج نہیں ہونی چاہیے، جو شام کی حکومت کی اجازت کے بغیر وہاں آئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل لاء کے مطابق صرف شام کی حکومت کی اجازت سے ہی کوئی غیر ملکی فوج وہاں جاسکتی ہے۔ پوتین کا کہنا ہے کہ آستانہ امن مذاکرات اور ڈی اسکیلیشن زون کے قیام سے مسئلہ شام کے حل کے لئے بنیادی طور پر ایک نیا مرحلہ ممکن چکا ہے اور اس سے دہشت گردوں کو کچلنے میں مدد بھی ملی ہے۔ پوتین نے ایرانی اور ترک صدور سے شام کی تعمیر نو پر بھی گفتگو کا کہا ہے۔ لیکن دوسری جانب امریکہ نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ امریکی حکومت نے شام سے اپنی افواج واپس بلوانے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی افواج داعش سے مقابلے کا بہانہ بنا کر شام میں داخل کی گئیں تھیں، حالانکہ اس طرح شام میں گھس بیٹھنا بھی انٹرنیشنل لاء کی کھلی خلاف ورزی تھی اور شامی حکومت بار بار امریکی حکومت کے اس عمل کی مذمت اور فوجی انخلاء کا مطالبہ کرچکی ہے۔ روس نے بھی امریکہ کے اس طرزعمل کی شدید مذمت و مخالفت کی ہے۔ امریکہ کے سارے مہرے ویسے ہی ناکام ہوچکے ہیں، اس لئے وہ کھسیانہ ہوکر اس بدمعاشی پر اتر آیا ہے، تاکہ نیابتی جنگ لڑنے والوں کو حوصلہ دے سکے، لیکن شام کے عوام اپنی حکومت کے ساتھ ہیں اور شام کے دوستوں نے میدان جنگ میں جس طرح جنگ کا پانسہ شام کے عوام اور انکی نمائندہ حکومت کے حق میں پلٹ دیا ہے، شام کے عوام سیاسی عمل کے ذریعے غیر ملکی مہروں کو اس میدان میں بھی شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
(نوٹ: *** اقوام متحدہ کی قرارداد 2254 کے بارے میں میری تحریر ’’بین الاقوامی سفارتی محاذ پر بھی شام کامیاب‘‘ مورخہ 22 دسمبر 2015ء، آستانہ امن مذاکرات پر میری تحریر ’’شام کا مسئلہ سہ ملکی ضمانت کے سائے میں‘‘ مورخہ 30 جنوری2017ء کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔** ڈی اسکیلیشن کا مطلب شدت میں کمی، سطح کو نیچا کرنا ہے اور شام میں مسلح کارروائیوں کی شدت کو کم کرنے کے لئے ڈی اسکیلیشن زون بنائے گئے ہیں)۔
خبر کا کوڈ : 685793
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ
Pakistan
ممنون
shauket ali
Pakistan
Good write yet has not attraction of a good urdu column, feel a as translation of any other column
Pakistan
Dear brother Shaukat Ali Please produce any proof otherwise refrain _from a false claim. It will not harm the writer of this piece but it will be a sin in your naama e aamaal.
Second thing is current affairs is not the work that Shakespear type writers are supposed to write. THis is journalistic news articles or analysis that this writer writes not a poem, short story fiction or suchlike things. So, please enhance your knowledge to understand the difference between current affairs and literature. THanks for your comment
ہماری پیشکش