0
Friday 29 Apr 2011 15:13

پاک امریکہ تعلقات

پاک امریکہ تعلقات
تحریر:لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
 پچھلا عشرہ پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین قیادت کا عشرہ تھا۔ ان دس سالوں میں بظاہر مضبوط لیکن اندر سے بزدل آمر اور کمزور سیاسی اتحاد ملکی مفادات کا دفاع کرنے میں بدقسمتی سے ناکام رہے۔ اپنے اقتدار کو بچانے اور اس کو طوالت دینے کیلئے ہوائی اڈے، بندرگاہیں اور ہوائی راستے ایک ایسی طاقت کو تھالی میں رکھ کر پیش کر دیئے گئے جس کو پاکستانی مفادات سے چِڑ ہے۔ اپنی گوریلا فورس کی تربیت اور دہشت گردوں کو پکڑوانے کے بہانے ہم نے اپنی زمینی، بحری اور ہوائی سرحدیں دوسرے ممالک کے جاسوسوں کیلئے ایسے وا کر دیں، جیسے پانی کے ڈیم کے سپل وے کھول دیئے جاتے ہیں۔ یہ ملکی مفاد کےخلاف ایک ناقابل معافی جرم تھا۔ چوروں کو گھر میں داخل کر کے ہم ان کو یہ ہدایات نہیں دے سکتے کہ آپ صرف میرے پرانے کپڑے اور پھٹے ہوئے جوتے چوری کر سکتے ہیں۔ زیور کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ بدقسمتی سے ہم نے جن لوگوں کو پاکستان کے اندر داخلے کی اجازت دی، ان کو یہاں اپنا نیٹ ورک بنانے کی اجازت بھی دے دی۔ ہم اس وقت جاگے جب ریمنڈ ڈیوس کے پکڑے جانے کے بعد یہ واضح ہوا کہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے بہانے ملک میں آنے والے ہمارے وطن پاکستان کے خلاف ہی دہشت گردی کروا رہے ہیں اور پاکستان کے اپنے سراغ رسانی کے جال کو جو ہماری قومی سلامتی کیلئے انتہائی ضروری ہے، تیز دانتوں والے چوہوں کی طرح کاٹ رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری ایٹمی ہتھیاروں کی جگہوں کا کھوج بھی لگا رہے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی گود میں بیٹھ کر ہماری داڑھی کاٹنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب افواج پاکستان کی قیادت نے سخت رویہ اپنایا ہوا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پتہ ہے کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث کافروں کو ملک بدر کرنے کی کاوشوں میں پوری قوم انکے ساتھ ہے۔
ستم بالائے ستم 2004ء سے 2011ء تک ہمارے پاک فوج کے تین ہزار سپوتوں سمیت 33 ہزار سے زائد لوگ اس پرائی جنگ کیلئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ ساتھ ہی سی آئی اے، موساد، اور را نے اس مدت میں پاکستان میں 2950 دھماکے کروائے ہیں اور 236 ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔ چند روز قبل کراچی میں پاکستانی نیوی کی بسوں پر کئی حملے کروائے گئے، ہماری سرحدی پوسٹ پر حملہ کر کے چار ایف سی کے سپاہی شہید کر دیئے گئے۔ فوجی ہیلی کاپٹروں نے ہماری فضائی سرحد کی خلاف ورزی کی۔ اسکے علاوہ 17 مارچ کو ہنٹرکلر ریپر ڈرون سے Helfire میزائل چلا کے دتہ خیل میں ہمارے 50 ہنستے بستے شہری ہلاک کر دیئے۔ گزشتہ روز افغان اور نیٹو فورسز نے انگور اڈہ کے قریب پاکستانی چوکی پر ہلہ بول دیا۔
نیو یارک ٹائمز نے تو چند دن پہلے لکھا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات ٹوٹنے والے ہیں لیکن میرے خیال میں امریکی انتظامیہ زیرک ہے، وہاں کی قیادت کو پاکستان کی اہمیت کا ادراک ہے، اس لئے بات ترک تعلق تک نہیں جا سکتی۔ یہ بڑے ملک چھوٹے ممالک کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں کرپٹ اور کمزور قیادت ان سے دبک جائے وہاں یہ کاٹھی پر سوار ہو جاتے ہیں اور راسیں اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ لیکن نڈر اور جرات مند قیادت کے آگے جس کو اپنے اقتدار سے زیادہ ملکی مفاد عزیز ہو یہ آنکھیں نیچے کر لیتے ہیں اور پھر بات اسی تنخواہ پر گزارے تک ہی رہتی ہے۔ پاک امریکہ تعلقات اب انتہائی نازک مراحل سے گزر رہے ہیں، نیوز ویک کا Ron Moreau افغانستان میں پچھلے دس سال سے مقیم ہے، اس نے حال ہی میں لکھا:
"Us intelligence activity (in Pakistan) could be aimed at gathering sensitive information on the details and where abouts of the country's more than 100 nuclear weapons"
یعنی پاکستان میں کام کرنے والے امریکی جاسوسوں کو پاکستان کے ایک سو سے زیادہ ایٹمی ہتھیاروں کی جگہوں کو تلاش کرنے پر مامور کیا جا سکتا ہے۔
قارئین یہ تو ہونا ہی تھا۔ بدقسمتی سے جب جنرل مشرف سول حکومت پر شب خون مار کر ایوان اقتدار میں داخل ہو گئے تو پھر پاکستان وَن مین شو بن گیا۔ اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیر کے مطابق مشرف نے ہوائی اڈے، بندر گاہیں، اور ہوائی راستے پہلے امریکنوں کی گود میں ڈالے اور اسکے بعد کور کمانڈروں کی تائید حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلے عسکری تو ہیں ہی نہیں۔ یہ تو سیاسی فیصلے ہیں جن کے ملکی سلامتی پر دور رَس اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس وقت 2001ء میں جنرل مشرف نے جو خارزار فصل بوئی آج دس سال بعد افواج پاکستان سمیت ساری قوم کاٹ رہی ہے۔ اگر ملک میں حقیقی سیاسی قیادت موجود ہو، جس کی بصیرت اور حب الوطنی کے درجات وہ ہوں جو قائداعظم، مہاتیر محمد یا نیلسن منڈیلا جیسے قائدین کے تھے تو پھر اگر پوری عسکری قیادت اور سارے کور کمانڈر بھی کہیں کہ امریکہ کو ہوائی اور بحری اڈے دے دیئے جائیں تو بھی سیاسی قائدین مسترد کر دینگے، اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ:
"War is to serious a business to be left to the generals alone"
چونکہ States person کی سوچ کی وسعتوں اور گہرائیوں کو صرف آئزن ہاور یا چرچل جیسے چند جنرل ہی سمجھ سکتے ہیں اور اسی لئے ان کو ”سولجر سٹیٹس پرنس“ کہا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان اور افواج پاکستان نے اب جو موقف اختیار کیا ہوا ہے، یہ درست ہے۔ سارے جاسوسوں کو ملک سے نکال دیا جائے اور ساتھ ہی سفارت کاروں کے بھیس میں بھیڑیوں پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے چونکہ یہ اب باڑے کے اندر ہیں، نقصان ضرور کرینگے۔ دوسرا امریکہ کو یہ سمجھایا جائے کہ شکست خوردہ فوجی اتحاد اپنی شرائط پر جنگ ختم نہیں کروا سکتا۔ اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں، جہاں عبوری حکومت قائم ہو اور کچھ عرصے کے بعد انتخابات کروائے جائیں۔ پاکستان ان پشتونوں کےساتھ بہترین تعلقات قائم رکھنے کا حق رکھتا ہے جو پاکستان کی سلامتی پر یقین رکھتے ہیں، خواہ وہ حقانی گروپ ہو یا کوئی دوسرا۔ 
پاکستانی حدود کے اندر مختلف مذہبی گروہوں سے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں، اس کا فیصلہ خود پاکستانی حکومت نے کرنا ہے، ہمیں ڈکٹیشن نہ دی جائے، نیٹو کا افغانستان میں موجود جنرل پیٹریاس بیمار آدمی ہے، یہ نیو یارک کی ایک بریفنگ میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ اوباما نے 30 ہزار سے فوج بڑھا کر ایک لاکھ کرکے بھی دیکھ لیا۔ نتیجہ پہلے سے بھی بدتر ہے۔ اب اوباما اُن فوجی کمانڈروں سے پوچھے کہ Upsurge سے آپ نے کیا حاصل کیا۔ افغانستان کا حل سیاسی ہے فوجی نہیں۔ ہندوستان کو افغانستان سے نکال کر پاکستانی عسکری قیادت کی بات پر کان دھرا جائے ورنہ افغانی کمبل امریکیوں کی چمڑی کے ساتھ چپٹا رہے گا۔
 "روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 68649
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش