1
0
Wednesday 29 Nov 2017 22:45

یہ وعدہ خدا ہے، نام حسین (ع) تا ابد زندہ رہیگا

یہ وعدہ خدا ہے، نام حسین (ع) تا ابد زندہ رہیگا
تحریر: سرفراز حسین حسینی

خداوند قدوس کا لاکھ بار شکر کہ جس نے ایک بار پھر توفیق عطا فرمائی کہ اس کے محبوب نبی آخر جناب محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے محبوب نواسہ سردار جنت امام حسین علیہ السلام و دیگر شہداء کربلا کے روضہ مبارک کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی پوری دنیا سے عاشقان حسین علیہ السلام کا ایک سمندر بیکراں تھا، جو کربلا کہ جانب عازم سفر تھا۔ نجف سے کربلا تقریباً 90 کلومیٹر کا پیدل سفر، بلاشبہ کروڑوں افراد، عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان، معزور، اپاہج، سب کھچے چلے جا رہے تھے دیار عشق کی جانب۔ ایک پل کو خیال آیا کہ ہمارے قریبی ترین عزیز بھی ہم سے بچھڑتے ہیں، والدین جیسی نعمت جدا ہو جاتی ہے، بچے وفات پا جاتے ہیں، بہن بھائی داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں، پل بھر کو لگتا ہے کہ سب کچھ اجڑ گیا، لیکن تھوڑا عرصہ ہی گزرتا ہے کہ وقت کا مرہم تمام غموں کا مداوا بن جاتا ہے، اپنی زندگی میں ہم شاید باقاعدگی سے اپنے خونی رشتوں کو یاد رکھ سکتے ہوں، لیکن جیسے ہی اگلی نسل جوان ہوتی ہے پچھلے تمام مرحومین فراموش ہو جاتے ہیں اور ایک دو نسلوں کے بعد تو کسی کو اپنے مرحومین کی قبریں تو کیا نام اور رشتے بھی یاد نہی رہتے، لیکن یہ کیا ماجرہ اور راز ہے کہ چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر کیا، سو سے زائد نسلیں اس دور میں پروان چڑھ چکیں، اپنوں اور غیروں کی ہر ممکنہ کوشش اور سازشوں کے باوجود نام حسین ہے کہ بدر ماہتاب کی طرح آج بھی جگمگا رہا ہے اور آفتاب روشن کی طرح پوری دنیا میں اجالا پھیلا رہا ہے، جو مظلوموں اور محکوموں کیلئے آج بھی روشن امید ہے اور ظالموں کیلئے پیغام فنا ہے، جو آج بھی لوگوں اور قوموں کو جبر و مکر و ظلم کیخلاف قیام کا درس دیتا ہے اور جابروں، ظالموں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتا ہے، دنیا جس نام کو جتنا دبانا اور چھپانا چاہتی ہے، وہ اتنا ہی ابھر اور نکھر کر سب کے سامنے بلند ہوتا جا رہا ہے۔ آیا یہ سب کسی شخص، قوم یا قبیلے کی وجہ سے ہے یا کوئی خدائی راز اور وعدہ ہے۔

اگر پہلے مورد کو مان لیا جائے تو یہ انسانی فطرت کے مخالف ہے، یعنی کوئی شخص اپنے والدین، اولاد، بہن بھائیوں کی یاد کو اپنی زندگی تک ہی زندہ رکھ سکتا ہے، آنے والی نسلیں ان کا نام بھی یاد نہی رکھتیں، قوم قبیلے بھی اپنے مرحومین حتٰی ہیروز کو یاد تو رکھتے ہیں، البتہ کچھ عرصے بعد ہی ان کا نام صرف ان کے یوم وفات تک محدود رہ جاتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کی یاد کی آگ ہر گزرتے دن شدید تر ہوتی جائے، تمام تر مشکلات، سختیوں، قتل و غارت، پابندیوں، نسل۔کشی اور ظلم و بربریت کے باوجود اس ہستی سے محبت و عقیدت نسل در نسل منتقل ہوتی رہے اور وہ نام سال کے تین سو پینسٹھ دن پوری دنیا کے گوش و کنار میں گونجتا رہے اور جب اس شخصیت کی شہادت و چہلم کا دن آئے تو تمام تر خطرات کے باوجود پوری دنیا سے کروڑوں افراد اسے خراج تحسین پیش کرنے اور تجدید عہد کے لئے اس کی بارگاہ میں حاضری کو اپنے لئے ایک شرف قرار دیں۔ پس یہ مانے بغیر پھر چارا نہیں کہ یہ انتظامات انسانی نہیں بلکہ خدائی ہیں، یعنی یہ خدا چاہتا ہے کہ نام حسین علیہ السلام ہمیشہ زندہ و سرفراز و سربلند رہے۔ خالق کائنات و انسان ہونے کے ناطے خداوند قدوس کا ارادہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ انسان اس کا مطیع و فرمانبردار بن کر رہے، اسی کی عبادت کرے اور اس کی نعمات پہ ہمیشہ اس کا شکر ادا کرتا رہے، لیکن عموماً دیکھا یہی گیا کہ بحثیت خالق اور مخلوق خدا کے لطف و کرم کا سلسلہ یک طرفہ ہی جاری رہا، انسان نے اس خالق اکبر کی نافرمانی کی، فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی، انسانیت پہ ظلم کئے، سوائے مشکلات و مصائب کے خدا کو بھلائے رکھا، لیکن اس سب کے باوجود خدا نے انسانوں پر اپنے لطف و کرم کا سلسلہ جاری رکھا، انہیں رزق، اولاد، دنیاوی آسائیشوں سے محروم نہیں کیا، حتی فرعون و نمرود و شداد و ابو جہل و ابو لہب جیسے خدا دشمنوں کو بھی بظاہر ان کی زندگی تک خوش حال و زندہ رکھا۔ لیکن اپنی مخلوق و خدائی میں خالق اکبر کو بھی ایسے افراد کی خواہش تھی کہ جن کے نام اور ذکر کو وہ خدا بزرگ و برتر تا روز قیامت زندہ رکھے۔

لہذا قران مجید میں خداوند عزوجل نے فرمایا: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ ﴿البقرة: ١٥٢﴾پس تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہارا ذکر کروں گا۔ اور دوسری جگہ فرمایا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ"اے ایمان والو! اگر تم اﷲ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط رکھے گا"(سورۃ محمد آیۃ 7) اور اپنی اور اپنے دین کی راہ میں جان دینے والے شہداء کی عظمت قرآن مجید میں یوں منوائی:وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿169﴾"جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔" تاریخ کے آئینے میں اگر ان آیات قرانی کی روشنی میں جھانکیں تو وہی ہستیاں زندہ ہیں جنہوں نے خدا کے ذکر کو زندہ رکھا اور دین الٰہی کی مدد کی اور اس کی راہ میں اپنی جان کو قربان کیا۔ ان تمام امور کی ادائیگی شدت سے اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ یہ اوامر ظالم اور دین دشمن حکمرانوں کے سامنے ہی بجا لائے جا سکتے ہیں اور یہ سنگین ترین کام وہی ہستی کرسکتی ہے، جس میں راہ خدا میں جان و مال و عزت و آبرو کی قربانی دینے کا حوصلہ اور جذبہ موجود ہو اور بزبان قرآن اس کا انعام یہ ہوگا کہ خدا تا روز قیامت اس ہستی کے ذکر کو زندہ رکھے گا اور اور اس کی مدد بھی کرے گا۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام نے تمام انبیاء خصوصاً ختمی مرتبت جناب محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے والد گرامی امیر المومینین ولی خدا، وصی رسول اللہ، حضرت علی علیہ السلام کے حقیقی وارث ہونے کے ناطے اپنا سب کچھ قربان کرکے خدا کے ذکر کو بلند کیا اور اپنی اور رسول اللہ کی پاک و طاہر آل اور اپنے محب اصحاب کے خون مطہر سے دین الٰہی کی ایسی مدد کی کہ جس کی وجہ سے دین محمدی تاقیامت محفوظ ہوا۔

ایک ظالم و فاسق شخص جو بدقسمتی اور تاریخ کے جبر سے مسند رسول اللہ پہ قابض ہوگیا تھا، دین کی اساس پہ کھلے عام کلہاڑی چلا رہا تھا، حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے رہا تھا، جو سرعام کہہ رہا تھا کہ نہ کوئی وحی آئی، نہ کوئی نبی آیا، نعوذ بااللہ یہ سب اقتدار کے لئے بنی ہاشم کا ڈھکوسلا تھا۔ جس کے دور میں شراب حلال، بہن، بیٹی سے نکاح جائز، مسند رسالت و امامت و خلافت پہ بندر نچانا اور جوا کھیلنا عام دستور تھا، حتٰی ہر حال میں دین و شریعت الٰہی اور احکام رسول اللہ کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں، دور رسالت کی مقتدر شخصیات اور ان کی اولادیں یزید کی بیعت کرچکی تھیں یا خوف و ڈر کی وجہ سے خاموش تھیں اور قریب تھا کہ اسلام کی مکمل شکل بدل دی جاتی۔ ایسے میں وارث انبیاء و دین خدا حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنا الٰہی کردار ادا کرتے ہوئے اپنا سب کچھ یعنی جان، مال، اولاد، عزت و آبرو، مخدرات عصمت و طہارت کے پردہ تک کو قربان کرکے خدا کے دین کی بےمثال و لازوال مدد کی اور کٹی گردن سے بھی نوک سنا سے اپنے پروردگار کے ذکر کو بلند کیا، پھر بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ خدا قرآن مجید میں کئے ہوئے اپنے وعدے کو پورا نہ کرتا، لٰہذا یہ خدائی وعدہ و معجزہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد بھی سینکڑوں سال تک حکمرانی کرنے والے اموی، عباسی حکمرانوں کے ظلم و ستم، اہل بیت رسول اعظم خصوصاً حضرت امام حسین علیہ السلام و کربلا سے سنگین دشمنی، ہر دور اور ہر سرزمین پہ ظالم حکمرانوں بمثل صدام، آل سعود و آل خلیفہ کے ظلم و ستم، پوری دنیا اور خصوصاً سرزمین عراق پہ نہتے زائرین و محبان امام حسین علیہ السلام پہ خودکش حملوں، بم دھماکوں، قتل و غارت اور آگ و خون کے خطرات کے باوجود کروڑوں جانثارون کا اپنی خواتین و بچوں سمیت کربلا پہنچ کر سیدالشہداء علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرنا اور نام حسین علیہ السلام کو زندہ و بلند رکھنا بالیقین خدائی وعدہ ہے، جو ان شاء اللہ تاقیامت وفا ہوتا رہے گا۔

اس سفر عشق میں نجف تا کربلا کروڑوں عشاق حسین کے ساتھ پیدل چلتے، مقامی عراقی میزبانوں کی جانب سے اس سمندر بیکراں کی لازوال و بے مثال مہمان نوازی، خدمت گزاری نے ذکر حسین کو زندہ رکھنے کے الٰہی وعدہ کے ایک اور پہلو کی طرف متوجہ کیا، واقعہ کربلا کے بعد یزید لعین کی فوج نے باقیماندہ اسیر آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ مندرجہ ذیل توہین آمیز سلوک کیا:
*کربلا تا کوفہ (نجف) اور پھر شام تک پیدل چلایا گیا۔ راستے میں بیٹھنے اور آرام کرنے کی اجازت تک نہ تھی۔
*انہیں بھوکا پیاسا رکھا گیا۔
*جگہ جگہ نبی آخر الزمان کی اولاد کی تحقیر کی گئی۔
*خانوادہ رسالت کو باغی قرار دے کر عام لوگوں کو ان سے بدظن کرکے تنہا کرنے کی قبیح کوشش کی گئی، لیکن خدا نے ان ظالموں کے مکر و فریب اور ظلم کے مقابل نام حسین علیہ السلام کو ایسے سربلند کیا کہ
*جن ہستیوں اور کٹے سروں کو جس راستے پیدل سفر کروایا گیا، آج کروڑوں افراد اسی راہ پر پیدل چلتے، نام حسین کو بلند کرتے اور خراج عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں، جن کے وجود کو نہ چاہتے ہوئے بھی پوری دنیا دیکھنے پہ مجبور ہے۔
*جن عالی قدر ہستیوں کو بھوکا پیاسا یہ سفر کرنے پہ مجبور کیا گیا، ان کی یاد اور صدقے کے طور پہ کروڑوں زائرین حسین علیہ السلام کی تواضع انواع و اقسام کے کھانوں، دنیا جہاں کی نعمتوں، ٹھنڈے پانی، مشروبات سے کی جاتی ہے۔ جن کو اس راہ پہ تھکایا گیا، ان کے زائرین کے آرام، رہائش و طعام کا وہ نظام دکھائی دیتا ہے، جو بظاہر انسانی قدرت سے بالا تر محسوس ہوتا ہے۔
*جن کی تحقیر کرنے کی کوشش کی گئی ان کی عزت کے پاسبان بن کر پوری دنیا سے کروڑوں متوالے حسینیت زندہ باد کے نعرے بلند کرتے راہی کربلا نظر آتے ہیں اور
*جنہیں تنہا کرنے کی کوشش کی گئی، ان کی صدائے ہل من ناصر پہ لبیک کہتے ہوئے پروانوں کا ایک سمندر ہے، جو شمع حسین پہ قربان ہونے کو بیقرار ہے، لبیک یاحسین کی صدا بلند کرتے ہوئے ہمہ وقت حاضر میدان ہے۔ ازلی حقیقت یہی ہے کہ جسے خدا زندہ رکھے، اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں مار سکتی۔ خدا ہمیں حقیقی معنوں میں راہی کربلا اور ناصران حسین علیہ السلام میں سے قرار دے۔
یہ کہہ کے ڈوب گیا آفتاب عاشور
رہے حسین کی تا حشر روشنی باقی
خبر کا کوڈ : 686626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام ۔۔۔ ماشاءاللہ سرفراز بھائی ۔۔ آپ تنظیمی سابقین ہیں، کچھ شیعیان پاکستان کی اندرونی صورتحال پر بھی لکھیں تاکہ کہ نام نہاد قیادتوں اور مفاد پرستوں سے قوم کی جان چھوٹ سکے۔ کیونکہ لیڈر بن کر رہنا اور بات ہے اور قوم کے لئے کچھ کر دکھانا اور بات ہے۔ معذرت کے ساتھ پاکستان کے شیعوں کو صرف مفاد پرست لیڈر ہی ملے ہیں اس دور میں۔۔۔ قوم کی اندرونی صورتحال ابتر ہے، ہر میدان میں تعلیم ہو یا صحت، عزاداری ہو یا قانونی حق (جیسے زائرین کا کوئٹہ سے ایران داخل ہونے تک کا اذیت ناک سفر اپنے ملک میں) گمشدگان اور ان کے خانوادے بچارے، بیروزگار شیعہ جوان اور دیگر معاملات۔۔۔ ان سب معاملات پر آپ سابقین کو کچھ آواز تو بلند کرنی چاہیے۔۔۔
ہماری پیشکش