0
Saturday 2 Dec 2017 00:59

ٹرمپ حکومت میں اسرائیلی لابی کا کردار

ٹرمپ حکومت میں اسرائیلی لابی کا کردار
تحریر: مائیکل بیٹ مین (کالم نگار رشیا انسائیڈر)

مشرق وسطی کی سیاست سے لے کر روس سے متعلق سیاست تک اور دیگر تمام امور میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک پالتو بندر کی طرح اسرائیل کی ہر بات تسلیم کرتے ہیں اور اسرائیلی حکام کے تمام دستورات کی پیروی کرتے ہیں۔ امریکی صدر کی فرمان برداری اور اطاعت کی چند مثالیں قارئین محترم کیلئے پیش کرتے ہیں۔

1)۔ ایک لمبے عرصے کے بعد اسرائیل اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے باہر نکل گیا اور امریکہ کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے یونیسکو چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ اور اسرائیل کے اس اقدام کی وجہ یہ تھی کہ اس بین الاقوامی ادارے نے مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف انجام پانے والی اسرائیلی مظالم کے ٹھوس ثبوت پیش کئے اور ان کی مذمت کی۔ تل ابیب نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈیوڈ فریڈمین کو امریکی سفیر کے طور پر اسرائیل میں تعینات کرے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈیوڈ فریڈمین ایک متعصب صیہونی ہے اور مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی حمایت کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اسرائیلی مطالبہ پورا کیا اگرچہ وہ خود قلبی طور پر اس شخص کو امریکی سفیر تعینات نہیں کرنا چاہتے تھے۔

2)۔ اگرچہ شام کی مسلح افواج تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف فوجی کاروائی میں مصروف تھیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے شام کے فوجیوں اور فوجی تنصیبات کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل شام میں صدر بشار اسد کے خلاف سرگرم دہشت گرد عناصر کی حمایت کرتا تھا تاکہ ان کی حکومت سرنگون کر کے ایک نئی سیکولر حکومت برسراقتدار لانے کا زمینہ فراہم کر سکے۔ اس بارے میں اسرائیل نے امریکی حکومت سے بھی یہی پالیسی اختیار کرنے کا مطالبہ کیا جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے قبول کر لیا اور دہشت گرد عناصر کی مدد کیلئے مزید امریکی فوجی شام بھیج دیئے۔

3)۔ اسرائیل نے 2015ء میں ایران اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے رکن 6 ممالک کے درمیان انجام پانے والے جوہری معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی پر زور مذمت بھی کی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے انتہائی غصے کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ سابق امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے ایران سے طے پایا چند فریقی جوہری معاہدہ منسوخ کر دیں۔ ٹرمپ نے یہ مطالبہ بھی تسلیم کیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ امریکی حکومت کھلم کھلا اس بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے لگی۔

بنجمن نیتن یاہو نے سراسر جھوٹ پر مبنی اپنے خط میں لکھا: فنی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایران نے "معاہدے کی روح" کی خلاف ورزی کی ہے۔ نیتن یاہو نے اس خلاف ورزی کا کوئی نمونہ بیان نہیں کیا۔ دوسری طرف ایران کے جوہری معاہدے میں شریک دیگر مغربی ممالک اور حتی اقوام متحدہ کے ادارے آئی اے ای اے (انٹرنیشنل ایجنسی فار اٹامک انرجی) نے بھی بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران اب تک معاہدے کی مکمل پابندی کرتا آیا ہے اور کوئی ایسا اقدام انجام نہیں دیا جسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا جا سکے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بارے میں اپنے ہی کئی ماہرین اور حتی فوجی کمانڈرز کی رائے کو مسترد کر دیا ہے اور اسرائیلی جھوٹے دعووں کا شکار ہو چکا ہے۔

4)۔ اسرائیلی حکام نے ٹرمپ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ایسے امریکی شہریوں پر جرمانہ عائد کرے جو مقبوضہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ اسرائیلی مطالبہ امریکہ میں آزادی اظہار کے بالکل خلاف ہے لیکن ٹرمپ نے اسے بھی قبول کیا۔ امریکی صدر کا یہ اقدام خود امریکی آئین کی ایسی خلاف ورزی ہے جس کی امریکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

5)۔ اسرائیل نے امریکی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک صیہونی ریئل اسٹیٹ وکیل جیسن گرین بلاٹ اور ریئل اسٹیٹ ڈیلر جارڈ کوشنر کو امن مذاکرات کار کے طور پر انتخاب کریں۔ بھارتی نژاد نکی ہیلی اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کے طور پر منتخب ہو چکی ہیں۔ اسرائیل ان کا حامی ہے۔ نکی ہیلی امریکہ کی پہلی گورنر تھیں جنہوں نے امن پسند تحریک بی ایس ڈی کی حمایت کو جرم قرار دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کے مشورے کے برعکس عمل کیا اور ایران کے ساتھ انجام پائے جوہری معاہدے کی مخالفت کی۔ وہ درحقیقت نیتن یاہو کے مطالبات پورے کر رہے تھے۔

6)۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خودمختار کردستان ریاست کے قیام پر مبنی طولانی مدت اسرائیلی منصوبے کی حمایت کی۔ اس منصوبے کا مقصد قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ کرکوک پر قبضہ کرنا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران بڑی مقدار میں اسلحہ اور فوجی مشیر عراق کے زیرانتظام کردستان بھیجے۔ اس اقدام کا مقصد خودمختار کردستان کے مقدمات فراہم کرنا تھے۔ یہ عمل درحقیقت اس اسرائیلی منصوبے کا حصہ تھا جس کا مقصد مشرق وسطی میں جغرافیائی تبدیلیاں ایجاد کرنا تھا۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کی جانب سے امریکہ میں مقیم ترک شہری فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ فتح اللہ گولن ایسے شخص ہیں جو 1999ء سے اسرائیل اور امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کی حمایت سے برخوردار ہیں۔ فتح اللہ گولن پر 2016ء میں ترکی میں انجام پانے والی ناکام فوجی بغاوت میں بھی ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

تقریباً تمام امریکی صدور اسرائیلی حکام اور امریکہ میں موجود طاقتور اسرائیلی لابی کے دباو کا شکار رہے ہیں لیکن سابق امریکی صدور نے کسی حد تک اس دباو کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مکمل طور پر اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مشیروں کا انتخاب بھی اسرائیلی لابی سے مشورے اور انہیں اعتماد میں لینے کے بعد کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 687065
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش