0
Sunday 10 Dec 2017 01:35

ٹرمپ کا فیصلہ، ظلم رہے اور امن بھی ہو

ٹرمپ کا فیصلہ، ظلم رہے اور امن بھی ہو
تحریر: ارشاد حسین ناصر

امریکی صدر ٹرمپ، اس کی بیٹی، داماد اور بیوی کے پہلے غیر ملکی دورہ، جو سعودی عرب کا تھا، میں جس پروٹو کول اور نوازشات کی بارش ہوئی، تحائف کی ایک لمبی فہرست سامنے آئی اور سعودیہ نے جتنے بڑے حجم کیساتھ امریکہ سے اسلحہ خریدنے کا اعلان کیا، اس سے یہی نظر آرہا تھا کہ شاہ سلمان اور اس کا جانشین بیٹا امریکی صدر کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور شہزادہ محمد بن سلمان اپنے آقائوں کو اپنے بادشاہ بننے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ایک کانفرنس بھی بلائی گئی، جس میں ہمارے وزیراعظم بھی بڑی تیاری کیساتھ تشریف لے گئے مگر انہیں وہاں کسی نے گھاس نہیں ڈالی حالانکہ یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ جنرل راحیل شریف کے سعودیہ جانے کے بعد پاکستان کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوسکتی ہے، مگر اس کے برعکس مناظر دیکھنے کو ملے بلکہ ہمارے وزیراعظم کی مجوزہ تقریر بھی نہ ہوسکی۔ پاکستان امت مسلمہ کا ایک قلعہ تصور ہوتا ہے، بطور ایک مسلم ایٹمی پاور اور مضبوط فوج کے پاکستان کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیئے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ہم سفارتی محاذ پر مار کھا جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ایک افراتفری اور بے یقینی کی صورتحال ہے، حکومت اس قدر کمزور ہے کہ شائد کوئی ملک بھی اس حالت میں کوئی معاہدہ کرنے کو تیار نہ ہو، اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر صف بندی میں جت گئی ہیں اور حکمران مختلف مقدمات میں الجھے و پھنسے دیکھے جا سکتے ہیں، پانامہ کیس کے ساتھ اقامہ پر وزیراعظم کی نااہلی اور حدیبیہ پیپرز ملز سے لیکر ماڈل ٹائون انکوائری رپورٹ کے سامنے آنے تک حکمران دھرنوں کی بیچ پھنسے ہوئے تھے، جن کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ہماری فورسز کو بیچ میں آنا پڑا ہے، تاکہ خون خرابہ نہ ہو۔

اس قدر الجھی حکومت سے میں کیا توقع رکھوں کہ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے اور اعلان پر اس کے روایتی سفارتی بیان کی کتنی اہمیت سمجھی جائے گی، اس کے باوجود ہمارے سفارتی محاذ سے کوئی بریک تھرو بیان سامنے نہیں آیا، جس سے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ بہرحال پاکستانی قوم حسب دستور اپنا فرض اولین سمجھتے ہوئے میدان میں اتری ہے اور مختلف جماعتوں نے اس فیصلے کیخلاف اپنے غم و غصے کا اضہار بھی کیا ہے، یہ سلسلہ احتجاج چل پڑا ہے، گویا یوں کہا جا سکتا ہے کہ احتجاج کا ایک نیا رخ سامنے آگیا ہے، جس میں حکمرانوں کی بجائے عالمی طاقتیں اور امت مسلمہ کے ادارے ہدف تنقید ہونگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین امت مسلمہ کا دل ہے، جہاں قبلہ اول قبة الصخرا ہے، جس سے امت مسلمہ کو بے حد عقیدت ہے اور صیہونیوں سے اس بات پر صدیوں سے جھگڑا چلا آرہا ہے، وہ اس پر اپنا حق جتاتے ہیں جبکہ امت مسلمہ کیلئے یہ کسی بھی صورت قبول نہیں، ایک عرصہ سے مظلوم فلسطینی بھائیوں کیساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضے کئے جا رہے ہیں، انہیں بے دخل کرکے یہودی بستیاں بسائی جا رہیں اور انہیں ان کے انسانی و شہری حقوق سے بھی محروم کر رکھا ہے، یہ سب کچھ روز کا معمول ہے، جسے مہذب دنیا دیکھتی ہے اور اس پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ کو بھی اس حوالے بے بسی کا سامنا ہے، اس لئے کہ صیہونیوں کے تمام اقدامات پر شیطان بزرگ امریکہ مہر لگاتا ہے، امریکہ اس وقت پوری دنیا کا چودھری بنا ہوا ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اسے لگام دینے کا وقت آن پہنچا ہے، ٹرمپ کی شکل میں امریکہ نے اپنے لئے جس مصیبت کو دعوت دی ہے، اس کے نتائج جلد دنیا کو معلوم ہو جائیں گے۔

ٹرمپ کا حالیہ فیصلہ کہ یروشلم اسرائیل کا دارلحکومت ہوگا، امت مسلمہ کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہے، اس کا فیصلہ اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل نے بھی نہیں کیا، پھر کیسے ایسا ہوسکتا ہے، نتیجہ کے طور ہم دیکھیں گے کہ خون خرابہ ہوگا، پوری دنیا میں اضطراب اور پریشانی کی کیفیت تو پیدا ہوچکی ہے۔ فلسطین کے اندر بھی ایک نیا انتفاضہ جنم لے رہا ہے، اب ہر سو خون خرابہ ہوگا، بے گناہوں کے لاشے گریں گے، لوگ بے خانماں و برباد ہونگے، جو پہلے ہی تباہ حال ہیں ان پر مزید قیامت آئے گی، امت مسلمہ بالخصوص عرب ممالک میں ایسی کوئی قوت نہیں جو ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف سامنے آکر اسے باز رکھے۔ آل سعود میں اس وقت اقتدار کی بندر بانٹ کا کھیل عروج پہ ہے، قطر اور سعودیہ کے کشیدہ تعلقات سب کے سامنے ہیں، سعودی افواج کی یمن پر جارحیت اب تک جاری ہے، نجانے وہ اکتالیس رکنی اتحاد جس کی سربراہی ہمارے سپہ سالار کے سپرد کی گئی تھی، اس کا کردار کیا ہے اور وہ کس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے۔ گذشتہ دنوں اس کا اجلاس بھی بلایا گیا تھا، جس میں ہمارے وزیر دفاع بھی شریک ہوئے تھے۔ امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ اس کے حکمران اس کے عوام کے خلاف عالمی طاقتوں کے زیر اثر فیصلے کرتے ہیں اور عوامی خواہشات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، آج امت کو یہی مسئلہ در پیش ہے، اگر امت مسلمہ کے کچھ ممالک جن میں ترکی، ایران، پاکستان، قطر، سعودیہ لبنان وغیرہ ایک صفحے پر جمع ہو جائیں تو فلسطینیوں کی بھرپور مدد کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں فلسطین کی تحریک مزاحمت کو اسرائیل کے خلاف لڑنے کیلئے صرف اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے کھلی مدد بھیجی گئی، جس کا اعتراف مزاحمتی قیادت نے بھی کیا، اب بھی اگر کسی سے امید اور توقع ہے تو وہ اسلامی جمہوری ایران ہے، جس کا اسرائیل بارے کھلا موقف ہے، جس سے وہ کسی بھی صورت پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔

القدس شریف کا مسئلہ اہل ایران اور اس سے وابستہ مزاحمتی تحریکوں کیلئے پہلے درجہ پر رہتا ہے، اسی واسطے خبروں کیمطابق لبنان میں حزب اللہ نے مزاحمت اسلامی فلسطین کو اپنے بھرپور تعاون کی پیشکش کر دی ہے اورآئندہ آنے والے ایام میں حالات کا رخ کس جانب مڑتا ہے، اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ فلسطین کے اندر اس وقت جو بیداری اور تحرک ہے، اس کا سلسلہ کہاں تک جاتا ہے، اسرائیل اپنی قوت کا اظہار کس حد تک کرتا ہے اور میدان کہاں سجتا ہے، یہ کچھ ہی دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ بہرحال یہ اضطراب، یہ بے چینی، یہ تحرک، یہ احتجاج عالمی رنگ اختیار کرتے ہوئے دنیائے عالم کو ایک نئے بحران سے دوچار کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کس قدر بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ مہذب دنیا فلسطین کا قدیم مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہے، اقوام متحدہ کا وجود آخر کس مرض کی دوا ہے۔؟ سلامتی کونسل کیا صرف اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرنے کیلئے وجود رکھتی ہے؟ وہ جن کے گھر برباد کر دیئے گئے، جنہیں اپنے آبائی وطن سے بے دخل کر دیا گیا اور ان کی جگہ باہر سے لاکر یہودیوں کو بٹھا دیا گیا، وہ جن کی عزتیں پائمال کی جا رہی ہیں، جن کے انسانی و قانونی حقوق سلب کئے گئے ہیں، جو تعلیم سے محروم ہیں، روزگار کیلئے محتاج ہیں، جو مقید ہیں اونچی دیواروں کے بیچ، جن کی قدم قدم پر تلاشی ہے، جن کا خدا کے سوا کوئی نہیں، ان کی آہیں بیسیوں برس سے آسمان کی جانب جاتی ہیں، ان کی سسکیاں سب سنتے ہیں اور خاموش ہیں، ان کا لہو بہتا ہوا دیکھتے ہیں اور چپ سادھے ہوئے ہیں، اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ کمزوروں اور مستضعفین کو حکومت دے گا، اقتدار دیگا، ظالموں کو نابود کریگا، یہی رہبر انقلاب نے بھی کہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ظلم آخر کب تک چلتا ہے، آخر ظالم کب نابود ہوتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ہماری آنکھیں اس دن کو ضرور دیکھیں گی، جب ظالمین نابود ہونگے اور مظلوموں کو زمین کا وارث قرار دیا جائے گا، اس لئے کہ۔۔۔۔
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہی تم ہی کہو
تم ہی کہو
خبر کا کوڈ : 688962
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش