0
Sunday 10 Dec 2017 21:08

ٹرمپ کی صحت کیلئے دعا کریں!

ٹرمپ کی صحت کیلئے دعا کریں!
تحریر: حسین شریعتمداری

اگر آپ ہمارے اس کالم کا عنوان پڑھ کر تعجب کا شکار ہوئے ہیں تو آپ حق بجانب ہیں کیونکہ خون آشام ظالم اور ستمگر شخص کیلئے ایک لحظہ مزید زندہ رہنے کی دعا بھی نہیں کرنی چاہئے چہ جائیکہ ہم ان کی صحت و سلامتی کیلئے دعاگو ہوں۔ اس بارے میں امام موسی کاظم علیہ السلام سے ایک دلچسپ روایت نقل کی گئی ہے جو نہایت درس آموز اور عبرت انگیز بھی ہے۔ امام کاظم علیہ السلام کے ایک صحابی کا نام صفوان تھا اور ان کا کام اونٹ اور گھوڑے کرائے پر دینا تھا۔ اسی وجہ سے انہیں "صفوان جمال" کہا جاتا تھا۔ جب امام کاظم علیہ السلام کو اس بات کی اطلاع ملی تو وہ بہت ناراض ہوئے جس پر صفوان نے کہا کہ میں نے اپنے اونٹ حج کے سفر کیلئے کرائے پر دیئے ہیں اور کسی گناہ والے کام کیلئے کرائے پر نہیں دیتا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "کیا تمہارے دل میں یہ آرزو موجود نہیں کہ حکمران زندہ سلامت سفر سے واپس آ جائے اور تمہیں تمہارے اونٹوں کا کرایہ ادا کرے؟" صفوان نے کہا جی ہاں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اسی حد تک ظالم حکمران کے زندہ رہنے کی آرزو کرنا بذات خود بہت بڑا گناہ ہے۔

اسی طرح امام خمینی رحمہ اللہ علیہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر آپ صدام اور ریگن کے حق میں بھلائی کرنا چاہتے ہیں تو دعا کریں کہ انہیں موت آ جائے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا قصہ تھوڑا مختلف ہے۔ ٹرمپ اپنے احمقانہ اقدامات کے ذریعے نہ چاہتے ہوئے بھی اسلامی دنیا خاص طور پر اسلامی مزاحمتی بلاک کی بڑی خدمت کرنے میں مصروف ہے۔ اس کا تازہ ترین احمقانہ اقدام بیت المقدس کو اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے دارالحکومت کے طور پر اعلان کرنا ہے۔ لہذا جس طرح امام زین العابدین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر آپ کا دشمن احمق ہے تو اس پر خدا کا شکر کریں، ہم بھی اس احمق امریکی صدر کی سلامتی کیلئے دعاگو ہیں! البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمق انسان بعض اوقات انتہائی خطرناک بھی ثابت ہو جاتے ہیں اور اگرچہ ان کے اکثر اقدامات مدمقابل کیلئے سودمند ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات بہت زیادہ نقصان کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔

اگر امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو دیکھیں گے کہ اگرچہ اس کے بعض اقدامات کے باعث اسلامی دنیا اور مسلمان اقوام شدید خطرات سے روبرو ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف ٹرمپ کے یہ اقدامات امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناکامیوں کا بھی بہترین نمونہ ہیں۔ دنیا کے سامنے امریکہ کا حقیقی چہرہ فاش ہو جانا، امریکہ کا عہد شکن اور اعتماد کے قابل نہ ہونا ثابت ہو جانا، بعض عرب ممالک کے پس پردہ قوتوں کا عیاں ہو جانا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بظاہر مسلمان حکمرانوں کا اصلی چہرہ سامنے آ جانا، آل سعود رژیم کو یمن کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی تشویق اور اس کے باعث اندرونی اور علاقائی سطح پر سعودی حکام کی پوزیشن کمزور ہو جانا، ایران سے طے پانے والے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے باعث ایران میں مغرب نواز حلقوں کی سیاسی حیثیت کا خاتمہ، داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی اعلانیہ حمایت، داعش کے خاتمے کے بعد اسلامی دنیا میں اتحاد کا فروغ اور لبنان کے وزیراعظم سعد حریری کا جبری استعفی اور نظربندی کے ذریعے مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول میں ناکامی چند مثالیں ہیں۔

مذکورہ بالا تمام اقدامات اپنے آغاز پر اسلامی دنیا کیلئے ایک بڑا اور خطرناک چیلنج دکھائی دیتے تھے لیکن احمق امریکی حکام اور خطے میں ان کے اتحادی اسلامی دنیا کی عظیم صلاحیتوں اور طاقت سے ناواقف تھے۔ وہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی بے پناہ طاقت سے لاعلم تھے جس کے باعث ان کی ہر سازش اور شیطنت کا الٹا نتیجہ ظاہر ہوا اور عالم اسلام میں پہلے سے زیادہ بیداری اور اتحاد ابھر کر سامنے آیا۔ لیکن حال ہی میں ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو غاصب اور قاتل صہیونی رژیم کے دارالحکومت کے طور پر اعلان کئے جانے کا قصہ ہی الگ ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

1)۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران امریکہ اور اس کے مغربی اور علاقائی اتحادیوں نے عالم اسلام کی رائے عامہ میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو بے ضرر ثابت کرنے اور اس سرطانی غدے کا چہرہ خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی بے تحاشہ کوششیں انجام دی ہیں۔ امریکی اور مغربی حکام خطے میں بے غیرت عرب حکام کی مدد سے اس میدان میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اکثر عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور یہ خوشخبری بھی سنا ڈالی کہ بہت جلد یہ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ نیتن یاہو نہ صرف تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے اپنے تعلقات چھپاتا نہیں تھا بلکہ داعش سے وابستہ زخمی دہشت گرد عناصر کو تل ابیب اور حیفا کے اسپتالوں میں داخل کروا کر ان کی عیادت پر مبنی تصاویر بھی بڑے فخر سے شائع کرتا رہتا تھا۔

اسرائیلی وزیراعظم کے اس اقدام کی اہمیت جاننے کیلئے اس بات کی طرف ہی توجہ کافی ہے کہ داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر نہ صرف شیعہ مسلمانوں کے خلاف بربریت کا مظاہرہ کرتے تھے بلکہ سنی مسلمانوں کے خلاف بھی انتہائی سفاکانہ انداز میں پیش آتے تھے۔ داعش نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں سمیت دیگر ادیان کے پیروکاروں کا بھی وسیع پیمانے پر قتل عام کیا ہے۔ لہذا بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے انتہائی بے شرمی سے داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کی کھلم کھلا حمایت کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ اسرائیلی وزیراعظم کو پورا یقین تھا کہ اسلامی دنیا میں اسرائیل سے درپیش خطرات فراموشی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم سمیت دیگر کئی اسرائیلی حکام نے واضح طور پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل اس لئے اعلانیہ طور پر داعش کی حمایت کر رہا ہے کہ اس گروہ نے اسلامی دنیا میں اسرائیل سے توجہ برطرف کر دی ہے اور اب مسلمانان عالم کی تمامتر توجہ اپنے اندرونی مسائل پر مرکوز ہو چکی ہے۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدام نے اسرائیل کی اس سازش پر پانی پھیر دیا ہے اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں مسئلہ فلسطین ایک بار پھر عالم اسلام کے پہلے ایشو کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکا ہے۔ جب سے ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر اعلان کیا ہے اسی دن سے پوری اسلامی دنیا سراپا احتجاج بن چکی ہے اور ہر طرف سے غاصب صہیونی رژیم کی مذمت کی جا رہی ہے۔ حتی نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ حتی وہ عرب حکمران جو اسرائیل سے سازباز پر زور دیتے تھے آج اس غاصب صہیونی رژیم کی مذمت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ احمقانہ اقدام نہ چاہتے ہوئے اسلامی دنیا کی ایک بڑی خدمت نہیں؟ ٹرمپ نے اس اقدام کے ذریعے بعض عرب ممالک کے اپنے ہی کٹھ پتلی اور منافق حکمرانوں کا حقیقی چہرہ آشکار کر کے انہیں شرمندگی اور رسوائی کا شکار کر دیا۔

مثال کے طور پر محمد بن سلمان جیسا امریکہ کا کاسہ لیس حکمران بھی اسلامی دنیا کا ردعمل دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اپنے آقا ٹرمپ کے اس اقدام کی مذمت کرنے میں ہی اپنی صلاح جانی۔ جبکہ اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوٹ کے مطابق امریکی صدر نے دو ہفتے پہلے سے محمد بن سلمان کو اپنے اس اقدام کے بارے میں آگاہ کر رکھا تھا اور محمد بن سلمان نے بھی امریکی صدر کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی۔ رای الیوم اور قدس عربی اخبارات کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان اس بارے میں کہتے ہیں کہ مجھے امریکی صدر کے حالیہ اقدام کے بعد عرب حکمرانوں پر چھا جانے والی خوف اور وحشت کی فضا دیکھ کر بہت تعجب ہوا ہے گویا ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیر متوقع اقدام انجام دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر نے اس اقدام سے پہلے چار عرب حکمرانوں یعنی سعودی فرمانروا ملک سلیمان، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم اور فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو اعتماد میں لیا تھا اور انہیں اپنے اقدام سے مکمل طور پر آگاہ کیا تھا۔

عبدالباری عطوان مزید کہتے ہیں کہ ان چار عرب حکمرانوں کی جانب سے امریکی صدر کے حالیہ اقدام کی مذمت اسلامی دنیا کی جانب سے شدید ردعمل کے بعد خوف اور مجبوری کے باعث سامنے آئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدام کا فائدہ امت مسلمہ اور فلسطینی قوم کو ہو گا کہا: "خدا کی قسم میں یہ دعا کرتا ہوں کہ ٹرمپ اپنے اس حالیہ فیصلے سے پیچھے نہ ہٹے۔ ہمیں اس دھچکے کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ سازش کرنے والے عرب حکمرانوں پر مسلمانوں کا اعتماد اور عقیدہ ختم ہو جائے۔" لہذا یہ اسلامی دنیا کیلئے ٹرمپ کے اقدام کا ایک اور مثبت پہلو ہے اور عبدالباری عطوان کے بقول اس کیلئے دعا کرنی چاہئے۔

2)۔ جب 1970ء کے عشرے میں یاسر عرفات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی دعوت دی گئی تو انہوں نے ایک ہاتھ میں امن پسندی کی علامت کے طور پر زیتون کی شاخ اور دوسرے ہاتھ میں مزاحمت کی علامت کے طور پر بندوق اٹھا رکھی تھی۔ ایک امریکی سینیٹر نے ان کے بارے میں کہا کہ جب میں نے ابوعمار (یاسر عرفات) کے ہاتھ میں زیتون کی شاخ دیکھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ ان کی بندوق بھی خالی ہے اور اس میں گولیاں نہیں ہیں۔ یہ امریکی سینیٹر صحیح کہہ رہا تھا اور غیر ارادی طور پر امریکہ کے ناقابل اعتماد ہونے اور شیطان بزرگ سے مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے کا اعتراف بھی کر رہا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ اقدام کے ذریعے ایک ایسی حقیقت کو فاش کر دیا ہے جسے بعض اپنی نادانی کے باعث اور بعض دیگر امریکہ کے کٹھ پتلی ہونے کی خاطر دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بنیادی طور پر اس قابل ہی نہیں کہ اس سے بات چیت یا مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لہذا وہ عرب حکمران جو گذشتہ 70 سالوں سے مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے فلسطینیوں کے چھنے ہوئے حقوق انہیں واپس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں سخت غلطی کا شکار ہیں اور وہ سراب کو پانی سمجھ کر اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ یہ بھی ایک اور بڑا فائدہ ہے جو ٹرمپ کے اس احمقانہ اقدام کے نتیجے میں اسلامی دنیا کو حاصل ہوا ہے لہذا ہمیں ٹرمپ کی صدارت جاری رہنے کی دعا کرنی چاہئے تاکہ وہ اس طرح کے مزید احمقانہ اقدامات انجام دیتا رہے۔

3)۔ اب جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا حقیقی چہرہ آشکار کر دیا ہے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امت مسلمہ میں جو بیداری اور جوش و ولولہ پیدا ہوا ہے اس کی حفاظت کی جائے۔ ہمیں سازباز کرنے والے منافق عناصر کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ اسلامی دنیا میں پیدا ہونے والے اس جوش و خروش کو اپنے سیاسی اور منافقانہ اقدامات کے ذریعے ٹھنڈا کر دیں۔ آج یہ حقیقت کھل کر سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ عالمی سطح پر استعماری قوتوں کا مقابلہ کرنے اور قدس شریف کی آزادی کا واحد راستہ مسلح جدوجہد اور اسلامی مزاحمت ہے۔ یہ وہی حقیقت ہے جس کی جانب حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی اور آج ولی امر مسلمین امام خامنہ ای اسی راہ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اسلامی دنیا اور مسلمانان عالم آپس میں متحد ہو کر اپنی تمامتر توانائیوں کے ذریعے اسلامی مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت جلد قدس شریف بھی آزاد ہو جائے گا اور اسلام کا پرچم بھی پوری دنیا پر لہرانے لگے گا۔
خبر کا کوڈ : 689085
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش