1
0
Saturday 16 Dec 2017 22:52

قیام پاکستان سے سقوط ڈھاکہ تک

قیام پاکستان سے سقوط ڈھاکہ تک
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

بھارت کی سازشوں کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنے آج 46 برس ہوگئے ہیں۔ 16 دسمبر 1971 ملک کی تاریخ کا المناک دن ہے۔ اس دن بھارت کی کاسہ لیسی، ملک کے حکمران طبقے کی نااہلی اور عاقبت نااندیشی کے باعث پاکستان کا مشرقی بازو ہم سے جدا ہوگیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جن عوامل نے اہم کردار ادا کیا ان میں اکثریتی آبادی میں شدید احساس محرومی، مغربی پاکستان کےبااثر طبقے کا مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک، ملک میں جمہوری مزاج کا فقدان اور ملک کے سیاسی نظام میں بار بار کی فوجی مداخلت شامل ہیں جس نے وفاق کی جانب سے مشرقی پاکستان کے شہریوں میں حقوق کی پامالی کے احساس کو شدید تر بنادیا تھا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک وفاق کی صورت میں جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا، اس لیے اس کی بقا بھی جمہوری روایت پر کاربند ہوکر ہی ممکن ہے۔ وفاق کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وفاق میں شامل تمام اکائیوں میں یہ احساس ہمیشہ زندہ اور مضبوط رہے کہ وفاق کے انتظامی معاملات میں وہ بھی برابر کی شریک ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کے عوام میں ان احساسات کی عدم موجودگی نے کلیدی کردار ادا کیا جسے مشرقی پاکستان میں بھارتی پشت پناہی سے چلنے والی تنظیم مکتی باہنی نے ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کیا۔

افسوس! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہمارے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں لیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہم نے مغربی پاکستان کے باقی چار صوبوں کو پاکستان کا نام تو دے دیا اور اس کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے ایک متفقہ دستور بھی بنا لیا مگر اس دستور پر عمل پیرا ہونے میں ہم ابھی بھی بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ 1971ء کی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری تاریخ کی سب سے بڑی شکست اورتذلیل تھی جس کا سامنا پاک فوج اور عوام کو کرنا پڑا۔ پاکستان کی مسلح افواج اور عوام جنہوں نے محض چھ برس پہلے بھارت کے خلاف جنگ میں عزم و ہمت کا شاندارمظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ اپنی آزادی اور خودمختاری کا دفاع کیا تھا، مایوسی کی اتھاہ گہرائی میں جاگرے۔ 1970ء کے عام انتخابات پر پوری عالمی برادری نے پاک فوج کی شاندار کارکردگی کو سراہا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ خان نے عوام سے کیے گئے وعدے کے عین مطابق ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کروا دیئے تھے۔ انتخابات کے انعقاد کے محض تین ماہ کے اندر پاک فوج ملک کے مشرقی حصے میں خانہ جنگی میں الجھ چکی تھی۔ 9ماہ تک سیاسی قائدین اقتدارکے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔سیاسی تنازعات کی خلیج وقت گزرنے کے ساتھ وسیع تر ہوتی گئی جسے پاٹنا ممکن نہ رہا۔

قیام پاکستان تاریخ انسانی کا انتہائی جراتمندانہ تجربہ تھا۔ اِس انوکھے ملک کا قیام اِس کے عوام کے لیے اپنے طور پر ایک بہت بڑا چیلنج بھی تھا، یعنی جغرافیائی دوری، مختلف نسل اور زبان کے باوجودایک مشترک پہچان اور یکساں نظریات کی بنا پر ایک قوم بن کر رہنے کا چیلنج، لیکن ہم اس چیلنج میں سرخرو نہ ہوسکے۔ذیل میں ترتیب وار ان حالات و واقعات کا ذکر ہے جو بالآخر متحدہ پاکستان کے خاتمے پر منتج ہوئے۔

غیر منقسم ہندوستان میں اپنی اکثریت کی وجہ سے ہندو یہ سمجھتے تھے کہ برطانوی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد ہندوستان میں سیاسی اقتدار کے وہی حقدار ہیں۔ اس لئے پاکستان کا قیام انہیں ناپسند تھا۔ ان کے ممتاز لیڈ رگاندھی نے ہندوستان کی تقسیم کو مقدس گائے کو دو نیم کرنے کا عمل قرار دیا تھا اور ہندو مہاسبھا کا کہنا تھا کہ ہندوستان ناقابل تقسیم ہے۔ اس کو جب تک دوبارہ اکھنڈ نہیں کیا جائے گا‘ یہاں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے جو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بھی تھے، مشرقی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردو ہو گی، بنگالی نوجوانوں نے اس کو اپنی حق تلفی سمجھا اور اس بیان کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ شیخ مجیب الرحمن جو اس وقت یونیورسٹی میں طالب علم تھے، مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے۔ مجیب سمیت کئی طلباء کو گرفتار کر لیا گیا، مگر آئندہ کے لئے ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ زبان کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی۔ آئین کے بنیادی رہنما اصول مرتب کرنے کی غرض سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے جو کمیٹی قائم کی تھی اس نے اپنی سفارشات کااعلان کر دیا۔ ایک سفارش یہ تھی کہ اردو پاکستان کی واحد سرکاری زبان ہو گی۔ اس پر مشرقی پاکستان میںغم و غصہ کی ایک شدید لہر چل پڑی۔

بنگالیوں نے مذکورہ سفارش کے خلاف ڈھاکہ میں احتجاجی جلسے منعقدکئے۔ عوامی مسلم لیگ کے صوبائی صدر مولانا بھاشانی نے بھی ان جلسوں سے خطاب کیا۔ 21 فروری کو جب صوبائی اسمبلی کا ’’بجٹ اجلاس‘‘ منعقد ہونا تھا‘ عام ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر اعلی نور الامین نے اگرچہ جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی، مگر 21 فروری کو احتجاجی جلسے منعقد ہوئے‘ جلوس نکالے گئے طلبہ اور پولیس میں تصادم ہوا، تین طالب علم اور کئی اور لوگ ہلاک ہوئے۔ ان کی قربانی کی یادگار کے طور پر شہید مینار تعمیرکئے گئے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو پارلیمنٹ سے اعتماد (یا عدم اعتماد) کا ووٹ لئے بغیر موقوف کر دیا۔ اس سے بنگالی اور زیادہ ناراض ہو گئے۔ عوامی لیگ نے اپنی اصل لادینی خصوصیت کونمایاں کرنے کے لئے ’’مسلم‘‘ کا لفظ اپنے نام سے خارج کر دیا اور اپنانام صرف عوامی لیگ رکھ لیا۔ اس سے پرانے مسلم لیگی سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ سرمایہ دار ہندو عوامی لیگ میں داخل ہو کر اس کی حکمت عملی میں دخیل ہو گئے۔ مشرقی پاکستان میں مجلس قانون ساز کے انتخابات عمل میں آئے یہ آزادی ملنے کے بعد پہلے انتخابات تھے، عوامی لیگ، کرشک سرامک اور مشرقی بنگال کی دوسری پارٹیوں نے مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کے لئے متحدہ محاذ (جگتو فرنٹ) قائم کر لیا۔ محاذ کے 21نکاتی منشور میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بنگلہ زبان کو سرکاری زبان تسلیم کیا جائے۔ ایک اور اہم نکتہ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ تھا۔

گورنر جنرل نے متحدہ محاذ کی حکومت کو برطرف کر دیا، کیونکہ وزیراعلیٰ فضل الحق نے چند روز قبل کلکتہ ایئرپورٹ پر مبینہ طور پر ایک باغیانہ بیان دیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نظر بند کر لئے گئے۔ صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ متحدہ محاذ کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس سے مرکز کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ مسٹر غلام محمد، وہ علیل سازشی، بالآخر پاکستان کی سیاست سے نکل گیا۔ سات ستمبر کو اسکندر مرزا نے گورنر جنرل کے منصب کا حلف اٹھایا۔ اسکندر مرزا ایک غیر سیاسی شخصیت تھے‘ مگر نہایت چلتے پرزے۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان چودھری محمد علی کے سپرد کر دیا جن کو مسلم لیگ نے نامزد کیا تھا‘ حالانکہ عوامی لیگ کے قائد کی حیثیت سے مسٹر ایچ ایس سہروردی سمجھتے تھے کہ وزارت سازی کا حق انہیں پہنچتا ہے۔ بنگالیوں نے اس واقعے کو بھی بنگالیوں کے سیاسی اقتدار سے محروم رکھنے کا ایک اقدام سمجھا۔ مغربی بازو میں واقع تمام صوبوں یعنی پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان اور سندھ کو مدغم کر کے ون یونٹ بنایاگیا اور اسے مغربی پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس سے بنگالیوں نے یہ سمجھا کہ یہ بنگالیوںکو جو ایک اکثریتی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں اپنے جائز حقوق سے محروم رکھنے کی ایک اور چال ہے۔

چودھری محمدعلی کی ان تھک کوششوں سے دستور ساز اسمبلی نے ملک کا پہلا آئین منظور کر لیا اور تین ہفتے بعد یعنی 23 مارچ کو اسے نافذ کر دیا گیا۔ اس آئین میں پیرٹی (Parity) کے اصول پر پالیمنٹ میں دونوں صوبوں کو برابر نمائندگی کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان اب ایک جمہوریہ بنا اور اس کا گورنر جنرل صدر کہلانے لگا۔ اردو کے علاوہ بنگلہ کو بھی سرکاری زبان تسلیم کیاگیا۔ 20 اگست مشرقی پاکستان میں کے ایس پی کی حکومت کو جو گزشتہ چودہ مہینوں سے اسمبلی کا سامنا کئے بغیر برسراقتدار چلی آرہی تھی، مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کی جگہ عوامی لیگ نے ایک ہندو لیڈر جی کے داس اور ان کی پارٹی کی اعانت سے حکومت قائم کر لی۔ مسٹر عطاء الرحمن اس کے وزیراعلیٰ بنے۔ 18 جون 1958ء کو عوامی لیگ کی مخلوط حکومت مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں شکست کھا گئی، مسٹر عطاء الرحمن مستعفی ہو گئے۔ دو دن بعد کے ایس پی نے وزارت بنائی، جو بمشکل تین روز چل سکی۔ صوبے میں ایک مرتبہ پھر گورنر راج نافذ ہوکر دیا گیا۔  26 اگست کو گورنر راج ختم کر دیا گیا، عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں پھر حکومت قائم کرلی۔ 21 ستمبر مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر کی جانبداری کے مسئلہ پر ہنگامہ ہو گیا، کئی ارکان شدید زخمی ہوئے۔ ڈپٹی اسپیکر مسٹر شاہد علی جان سے مارے گئے۔ 7 اکتوبر کو جنرل محمد ایوب خان کی حمایت سے صدر اسکندر مرزا نے آئین معطل کر دیا، اسمبلی توڑ دی اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔

جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیاگیا۔ اس انقلاب نے بنگالیوں کی سیاسی حق طلبی کی امنگ پر مہر لگا دی۔ 28 کتوبر کو جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے لندن بھیج دیا اور خود فیلڈ مارشل کا رینک اختیار کر کے تمام اختیارات سنبھال لئے۔ مشرقی پاکستان پر وہ اپنی مرضی کے گورنروں کے ذریعے حکومت کرنے لگے، مسلح افواج میں چونکہ بنگالیوں کی نمائندگی بہت کم تھی، اس لئے وہ محسوس کرنے لگے کہ فوجی انقلاب آنے سے ہمیشہ کے لئے سیاسی اقتدار سے محروم ہو گئے ہیں۔ مارشل لاء کی سختی نے انہیں کچلنے کی کوشش کی تو اس سے صوبائیت کے جذبے کو اور ہوا ملنے لگی۔ 26 اکتوبر 1959ء کو ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کر دیا۔ یہ نظم و نسق کی اعانت کے لئے مقامی اداروں پر مشتمل ایک نیا نظام تھا۔ ملک کے صدر اور اسمبلی کے ارکان کومنتخب کرنے کا اختیار بھی بہت جلد انہی بنیادی اداروں کے اسی ہزار ارکان کو تفویض کر دیا گیا بنگالیوں نے سمجھا کہ اس باریک پردے میں دراصل ایک فرد واحد کی حکومت کو مستقل کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ 26 اکتوبر  1962ء کو بنگال کے رہنے والے مسٹر منعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا گیا جو ایوب خان کے زوال (1969ء) تک اس منصب پر فائز رہے۔ ایوب خان سے ان کی انتہائی وفاداری کی وجہ سے وہ بنگالیوں میں غیر مقبول ہوگئے۔ کٹر بنگالی انہیں پنجابیوں کا ایجنٹ کہتے تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے ان کے ہاتھ سے اسناد لینے سے انکار کردیا تھا۔

29 مئی 1963ء کو نیشنل اسمبلی کے ایک بنگالی رکن نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کی قیمت پر ترقی دی جا رہی ہے۔ پچھلے پندرہ برسوں میں کم درآمدات اور زیادہ برآمدت کی صورت میں مشرقی پاکستان کو اس کے گاڑھے پسینے کے ایک سو کروڑ روپیہ سے محروم کیا گیا۔ مغربی پاکستان کی تعمیر کے لیے ہمیں دیوالیہ کردیا گیا ہے۔ ہم سے کہا جاتا ہے چھوکرو نکل جائو ہمارے پاس تمہارے واسطے کچھ نہیں ہے۔ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ 2 جنوری 1964ء کو صدارتی انتخابات منعقد ہوئے قائداعظمؒ کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کا مقابلہ کیا۔ حزب مخالف کی تمام جماعتوں نے ان کی حمایت کی۔ بنگالیوں نے بھی ان کی حمایت میں غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ ان کے خیال میں ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر سیاسی حقوق بحال کرنے کا یہ ایک سنہری موقع تھا۔ اگرچہ اس ’’الیکشن‘‘ میں ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کے اسّی ہزار ارکان کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرلیے، مگر ڈھاکہ میں جو مشرقی پاکستان کی سیاست کا مرکز سمجھا جاتا تھا وہ مس جناح سے ہار گئے۔ 6 ستمبر 1965ء ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر پر جنگ چھڑگئی۔ یہ معاملہ جہاں مغربی پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، وہاں مشرقی پاکستان میں اس کو عموماً دور دراز کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ بھارتی فضائیہ کے جیٹ طیارے جب کبھی ڈھاکہ پر منڈلانے آجاتے تو بنگالیوں کے دلوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا کیونکہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے معقول تعداد میں فوج، ایئرفورس اور نیوی نہیں رکھی گئی تھی۔ یہی ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔

6 فروری 1966ء شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں اپنے مشہور چھ نکات کا اعلان کیا۔ چھ نکات میں بنیادی طور پر ایک ایسے سیاسی بندوبست کی وکالت کی گئی تھی جس میں مرکزی حکومت محصولات کے اختیارات کے بغیر امور خارجہ اور امور دفاع کی دیکھ بھال کرتی رہے۔ مجیب نے اپنے پروگرام کو صوبائی خود مختاری کے حوالے سے پیش کیا، جبکہ مغربی پاکستان کے لوگوں نے اسے علیحدگی کی تحریک سمجھا۔ 20 جنوری 1968ء کو اگر تلہ سازش کا انکشاف کیا گیا۔ اس سازش میں شیخ مجیب الرحمن کے علاوہ 22 دوسرے بنگالیوں کو بھی اس الزام میں ماخوذ کیا گیا کہ وہ ہندوستان کی ملی بھگت سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ایک  آزاد بنگال کے قیام کی کوشش کر رہے تھے۔ جولائی 1968ء میں جب ڈھاکہ میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی، تو بنگالیوں کا ردعمل قطعاً مختلف تھا۔ مجیب کو غدار کے رنگ میں پیش کر رہے تھے، مگر بنگالی اسے ہیرو کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ 27 اکتوبر 1968ء کو 1958ء کے انقلاب کی دسویں سالگرہ کی تقریبات جو سال بھر سے منائی جا رہی تھیں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گئیں جس بھدے انداز سے حکومت کے کارناموں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور جس عامیانہ طریقے سے اقتصادی ترقی کی تشہیر کی گئی اس سے لوگوں میں اپنی اقتصادی مشکلات کا احساس کچھ اور بڑھ گیا۔ لوگوں کے دلوں میں ایوب خان کے خلاف سویا ہوا جذبہ جاگ پڑا۔

7 نومبر 1968ء کو راولپنڈی میں ایک طالب علم پولیس کی گولی سے ہلاک ہوگیا۔ اس سانحے نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف مظاہروں کے سلسلے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ طلبہ کو اپنے مطالبات کی کامیابی کے لیے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی ذات میں ایک قائد مل گیا جو تحریک کو بالآخر اس نکتے تک لے گیا کہ ایوب خان کے لیے اقتدار بحال رکھنا مشکل ہوگیا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے ایوب خان کے خلاف محاذ آرائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ آمر کے زوال سے ان کی سیاسی منزل کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ 15 فروری 1969ء کو اگر تلہ سازش کیس کے ایک ملزم سارجنٹ ظہور الحق کو جب وہ ڈھاکہ چھائونی میں فوج کے زیر حراست تھا،گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ بنگالیوں نے اس واقعہ کو اپنے ایک ہیرو کے عمداً قتل کا رنگ دیا اور حکومت نے اسے بھاگنے کی ناکام کوشش کا نتیجہ ٹھہرایا۔ اس واقعے سے نہ صرف ایوب خان بلکہ مغربی پاکستان کے خلاف بھی غم و غصے کا طوفان امڈ آیا۔ 10 تا 15 مارچ 1969ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے لیڈروں سے مذاکرات کے لیے راولپنڈی میں ایک گول میز کانفرنس بلائی۔ مقصود یہ تھا کہ مخالف جماعتوں کے بڑے بڑے مطالبات مان لینے سے گلی کوچوں میں بپھرے ہوئے لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے۔ مغربی پاکستان کے بعض رہنمائوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ مجیب کو رہا کیا جائے تاکہ وہ جیل سے نکل کر ان مذاکرات میں شریک ہوسکے۔ اس سیاسی دبائو کے پیش نظر اگر تلہ سازش کا مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ مجیب نے 10 مارچ کو ڈھاکہ میں لوگوں کے ایک عظیم ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دونوں صوبوں میں مساوات (PARITY) کا اصول اب مشرقی پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اب مشرقی پاکستان کو آبادی (65 فیصد) کے لحاظ سے نمائندگی ملنی چاہیے۔مجیب الرحمان ڈھاکہ میں یہ اعلان کرکے راولپنڈی آئے اور کانفرنس میں شریک ہوئے، مگر یہ تجربہ کارآمد ثابت نہ ہوا۔

25 مارچ 1969ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے حکومت کی باگ ڈور فوج کے سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے سپرد کردی۔ یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ 24 گھنٹوں کے اندر اندر گلی کوچوں کا ہیجان ختم ہوگیا۔ سکون لوٹ آیا۔ 28 نومبر 1969ء کو جنرل یحییٰ خان نے ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول کو تسلیم کرلیا۔ یہ اقدام مجیب کے حق میں تھا، مگر اس پر مغربی پاکستان کے لوگ ناخوش تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس صورت میں بنگالیوں کو غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ جنرل یحییٰ خان نے ’’ون یونٹ‘‘ کو بھی توڑ کر پرانے چاروں صوبوں کو بحال کردیا۔ یکم جنوری 1970ء پہلے عام انتخابات کی تیاری کے لیے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی۔ انتخابات سال کے آخری حصے میں منعقد ہونا تھے۔ انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ متحدہ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ، جبکہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن دوسری تھی ۔ مگر اکثریت کسی بھی پارٹی کو بھی حاصل نہیں تھی ، شیخ مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو چونکہ سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں لہٰذا حکومت سازی کی دعوت اسے دی جانی چاہیے کیونکہ وہ دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کے بغیر حکومت نہیں بنائی جاسکتی یہاں فیصلہ کن کردار اس وقت کے صدر جنرل یحیٰ خان کے ہاتھ میں تھا جنھوں نے اصولی راستہ اختیار کرتے ہوئے حکومت سازی کی دعوت دینے کے بجائے فیصلے میں غیر معمولی تاخیر کر دی۔

اس کا نتیجہ بنگال میں فوجی کاروائی کی صورت میں نکلا، بھارت حالات کے اس نہج تک پہنچنے کا منتظر تھا ۔ سرحد پار بھارتی فوجی کاروائیوں میں تیزی آتی گئی جو جلد کھلی جنگ میں تبدیل ہو گئی ۔ یوں بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی ۔ اور بالآخر 16دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں پاک فوج نے فاتح بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
خبر کا کوڈ : 690451
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اے کاش متحدہ پاکستان باقی رہتا۔
ہماری پیشکش