0
Wednesday 20 Dec 2017 00:25

سپہ سالار کی ایوان بالا کو بریفنگ کا احوال

سپہ سالار کی ایوان بالا کو بریفنگ کا احوال
رپورٹ: آئی اے خان

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ چیف آف آرمی سٹاف نے ممبران سینیٹ کو تفصیلی بریفنگ دی ہے، جس میں ان تمام سوالات کے جوابات دینے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، جو گاہے بگاہے اراکین سینیٹ کی جانب سے تحفظات، الزامات یا خدشات کی صورت میں اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ پارلیمانی تاریخ کی اس پہلی بریفنگ کے دوران داخلی، خارجی اور دفاعی پالیسیوں پہ سیر حاصل گفتگو کی ہے اور واضح کیا ہے کہ پارلیمنٹ دفاع اور خارجہ کی پالیسیاں بنائے، ہم اس پر عمل کرینگے اور ٹی وی پر تبصرہ کرنیوالے ریٹائرڈ افسران پاک فوج کے ترجمان نہیں۔ فوج کا آئین میں جو کردار ہے، اس سے مطمئن ہوں، فوج آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ سپہ سالار نے یہ بھی واضح کیا کہ 41 ملکی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں، اتحاد کے ٹی او آرز ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران اور سعودی عرب کی لڑائی نہیں ہوگی، ہم ایسا نہیں ہونے دینگے۔ سینیٹ بریفنگ کے دوران آرمی چیف نے بتایا کہ خطے کی جیو اسٹریٹجک صورتحال پر گہری نظر ہے، افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پاکستان کو لاحق تمام خطرات کا مل کر مقابلہ کریں گے۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی زیرصدارت سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس آج تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے تک جاری رہا، جس میں آرمی چیف نے قومی سلامتی اور اپنے بیرون ملک دوروں سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور ڈی جی ملٹری آپریشن میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی موجود تھے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی سلامتی سمیت علاقائی سکیورٹی سے متعلق سینیٹ کی کمیٹی کو آگاہ کیا۔ سربراہ پاک فوج کی بریفنگ کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ جس کے دوران سینیٹرز کی جانب سے کھل کر سوالات کئے گئے، جن پر آرمی چیف نے جوابات دیئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی پر بریفنگ دی گئی، جبکہ ڈی جی ایم او نے سکیورٹی سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔

نجی ٹی وی کے مطابق آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ نے سینیٹ کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک اہم کمیٹی میں شریک ہوا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بعض اہم ممالک کے دورے فوجی سفارتکاری کا حصہ ہیں اور علاقائی ممالک سے تعلقات میں بہتری کیلئے آرمی چیف کے دورے معاون ثابت ہوئے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ خطے کی جیو اسٹریٹجک صورتحال پر گہری نظر ہے۔ افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ بارڈر مینجمنٹ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے ناگزیر ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ٹی وی پر تبصرہ کر نیوالے ریٹائرڈ افسران ہمارے ترجمان نہیں۔ جو لوگ ٹی وی پر ہمارے ترجمان بنتے ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کی لڑائی نہیں ہوگی، ہم ایسا نہیں ہونے دینگے۔ انہوں نے کہا کہ 41 ملکی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں۔ اتحاد کے ٹی او آرز ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ مختلف سینیٹرز نے دھرنوں سے متعلق سوالات پوچھے، جس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید نے دھرنوں میں فوج کے کردار کی نفی کی۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سوال کیا کہ کیا فوج کو موجودہ رول سے بڑھ کر کردار چاہیے۔؟ جس پر آرمی چیف نے کہا کہ فوج کا آئین میں جو کردار ہے، اس سے مطمئن ہوں، فوج آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور کریگی۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے دھرنے سے متعلق سوال کیا، جس کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ اگر ثابت ہوگیا کہ دھرنے کے پیچھے فوج تھی تو مستعفی ہو جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا ہوا تو میرے ذہن میں لال مسجد کا واقعہ بھی آیا، میں نے ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ دھرنے والوں سے بات کریں، بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ان کے چار مطالبات ہیں، پھر وہ ایک مطالبہ پر آگئے، سعودی عرب جاتے ہوئے بھی دھرنے سے متعلق معلومات لیتا رہا۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ لاپتہ افراد کی مختلف وجوہات ہیں، کچھ لوگ خود غائب ہو کر لاپتہ ظاہر کرواتے ہیں، ایجنسیاں صرف ان افراد کو تفتیش کے لئے تحویل میں لیتی ہیں، جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔ اجلاس میں آرمی چیف بار بار زور دیتے رہے کہ پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ آپ لوگ پالیسی بنائیں، ہم عمل کریں گے، ہم نے دیکھنا ہے، آج کیا ہو رہا ہے، آج کیا کرنے کی ضرورت ہے، ماضی میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

اجلاس کے دوران ایک موقع پر سینیٹر یعقوب ناصر کے شور شرابے کی وجہ سے ہال میں بدمزگی پیدا ہوئی۔ مسلم لیگ نواز کے سینیٹر یعقوب ناصر نے دوسرا سوال کرنے کی اجازت نہ ملنے پر شور شرابا کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے کہا کہ آپ کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے تو چیئرمین کو بتا دیں یا ہمارے پاس آجائیں، چیئرمین صاحب جیسے کہیں گے، ہم ویسا کر لیں گے۔ سینیٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے اس اہم اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ کی تمام گیلریاں بند کر دی گئیں اور پریس لاونج کو بھی تالے لگ گئے، جبکہ میڈیا کے کیمرے بھی اندر لانے پر پابندی رہی۔ سپہ سالار نے بریفنگ میں یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ جو بھی فیصلہ کرے گی، فوج اس پر عمل کرے گی۔ اگر حکومت اور پارلیمنٹ فیصلہ کرتی ہے کہ امریکی ڈرون کو گرانا ہے تو ہم گرا دیں گے، تاہم ان چیزوں کو پارلیمنٹ نے ہی طے کرنا ہے۔ آرمی چیف نے معزز اراکین سینیٹ کو امریکہ کی جانب سے خطے میں بھارت کو دیئے جانے والے کردار پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس سے ہماری نیشنل سکیورٹی متاثر ہوسکتی ہے اور پاکستان کے چیلنجز میں اضافہ ہوسکتا ہے، یہ ساری گیم سی پیک کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے، امریکہ چین کے کردار کو بھی کم کرنا چاہتا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ پرامن مذاکرات چاہتے ہیں اور اگر پارلیمنٹ اس میں کوئی کردار ادا کرتی ہے تو ہم اس کی تائید کریں گے۔

سینیٹر طاہر مشہدی نے آرمی چیف سے سوال اٹھایا کہ سعودی عرب ایک مسلکی اتحاد کی قیادت کر رہا ہے، جس کے عزائم سب پر واضح ہوچکے ہیں، ایسے میں ہمارا اس اتحاد میں شامل ہونا ہمارے لئے مسائل کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ ہم پہلے ہی افغان جنگ کے اثرات بھگت چکے ہیں اور بھگت رہے ہیں، اس پر آرمی چیف نے جواب دیا کہ پہلے ہم اس حق میں نہیں تھے کہ ہم اس اتحاد میں جائیں اور جنرل راحیل شریف اس اتحاد کی قیادت کریں، تاہم سعودی عرب کی جانب سے بار بار اصرار پر ہم نے راحیل شریف کو جانے کیلئے این او سی جاری کیا، لیکن ایک بات پر ہم واضح ہیں کہ اس اتحاد کو مسلکی نہیں بننے دین گے، نہ ہی ایسی صورت میں اس کا حصہ ٹھہریں گے، آرمی چیف نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کرانے کی کوشش کا ریاض نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ آرمی چیف سعودی عرب کا نام لئے بغیر یہاں تک کہہ گئے کہ مشرق وسطٰی کے ممالک پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، التبہ یہ ممالک امریکہ کے ساتھ مخلص ہیں اور اس کے کافی زیر اثر ہیں۔

بعدازاں میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں کو بتایا کہ تمام سینیٹرز نے افواج پاکستان کے کردار کو سراہا اور قربانیوں کو تسلیم کیا، جبکہ تمام سوالات میرٹ پر کئے گئے اور آرمی چیف نے ان کے تفصیلی جوابات دیئے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق تمام ارکان سوال نہیں کرسکے، تاہم کچھ ارکان کے سوالات تھے، جن پر آرمی چیف نے جواب دے کر ان کے تحفظات دور کر دیئے۔ ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے طویل انتظار کے لئے صحافیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تفصیلی پریس کانفرنس آئندہ تین سے چار روز کے دوران کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ممبران سکیورٹی صورت حال پر زیادہ باخبر تھے جبکہ سکیورٹی صورتحال پر پاک فوج کے کردار کی تعریف کی گئی اور اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کو لاحق تمام خطرات کا مل کر مقابلہ کریں گے اور جب ہم سب متحد ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ نجی ٹی وی کے مطابق ڈی جی ایم او جنرل ساحر شمشاد مرزا کی جانب سے سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں نے اب تک 274 مقدمات کا فیصلہ کیا۔ 161 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی، جن میں سے 56 مجرموں کو پھانسی دی گئی 13 مجرموں کو آپریشن ردالفساد سے پہلے پھانسی دی گئی اور 43 کو آپریشن کے بعد پھانسی دی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے پر مقدمات پر کارروائی روک دی گئی تھی بعد ازاں 28 مارچ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی گئی۔

میڈیا ذرائع کے مطابق سینیٹ ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے فوجی حکام نے بتایا کہ آپریشن ردالفساد کے تحت اب تک خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 1249 کومبنگ اور انٹیلی جنس بیس آپریشن کئے گئے، پنجاب میں 13011 کارروائیاں کی گئی، بلوچستان میں 1410 اور سندھ میں 2015 آپریشنز کئے گئے۔ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ پنجاب میں 7 اہم آپریشن جبکہ بلوچستان میں 29 اہم آپیشنز کئے گئے، سندھ میں 2، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 31 اہم آپریشنز کئے گئے۔ مجموعی طور پر آپریشن رد الفساد کے دوران 69 اہم آپریشنز کئے گئے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر مجموعی طور پر 18001 کارروائیاں کی گئی اور 4983 سرچ آپریشن کئے گئے، جن میں سے پنجاب میں 4156، بلوچستان میں 45، سندھ میں 224، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 558 سرچ کریشن کئے گئے جبکہ اس دوران مجموعی طور پر 19993 ہتھیار برآمد کیے گئے، جن میں پنجاب سے 2751، بلوچستان 2332، سندھ سے 1046، خیبر پختونخوا اور فاٹا سے 13864 ہتھیار بر آمد ہوئے۔

فوجی حکام کے مطابق کراچی میں 5 ستمبر 2013ء سے رینجرز کی جانب سے جاری آپریشن کے دوران 5 برس میں کل 11200 آپریشن کئے گئے، جس میں سے 2013ء میں 1298 آپریشن، 2014ء میں 3086، 2015ء میں 2466 جبکہ 2016ء میں 2022 اور 2017ء میں اب تک 2328 آپریشن کئے گئے۔ ذرائع کے مطابق ان آپریشنز کے دوران کل 8780 افراد کو پولیس کے حوالے کیا گیا، جس میں 2013ء میں 1264 افراد، 2014ء میں 2358 افراد، 2015ء میں 2181 افراد، 2016ء میں 1207 جبکہ 2017ء میں 1770 افراد کو پولیس کے حوالے کیا گیا، آپریشن کے دوران ان پانچ سالوں میں رینجرز نے 12 ہزار 105 ہتھیار برآمد کئے جبکہ سب سے زیادہ ہتھیار سال 2014ء میں برآمد کئے گئے، جن کی تعداد 3946 تھی، اسی طرح 2013ء میں 1917 ہتھیار، 2015ء میں 2819، 2016ء میں 1887 جبکہ 2017ء میں 1536 ہتھیار برآمد کئے گئے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ان آپریشنز کے دوران 1948 دہشت گرد گرفتار کئے گئے، جس میں 2013ء میں 51، 2014ء میں 478، 2015ء میں 614، 2016ء میں 356 جبکہ 2017ء میں 449 دہشت گردوں کو رینجرز نے گرفتار کیا، آپریشن کے دوران 1589 ٹارگٹ کلرز کو بھی گرفتار کیا گیا، جس میں سب سے زیادہ 2017ء میں 520 ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے، اس کے علاوہ 2013ء میں 212، 2014ء میں 214، 2015ء میں 614 اور 2016ء میں 356 ٹارگٹ کلر گرفتار کئے گئے۔

عسکری قیادت کی جانب سے سینیٹرز کو بتایا گیا کہ کراچی آپریشن کے دوران 601 بھتہ خور گرفتار کئے گئے، سب سے زیادہ 167 بھتہ خوروں کو 2013ء میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ 2014ء میں 97، 2015ء میں 99، 2016ء میں 77 اور 2017ء میں 161 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا۔ ان 5 برسوں میں 154 اغوا برائے تاوان کے ملزموں کو بھی گرفتار کیا گیا، ان ملزمان میں 2013ء میں 14، 2014ء میں 27، 2015ء میں 49 اور 2016ء میں 28 شامل ہیں جبکہ 2017ء میں 36 اغوا کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ آپریشن کے دوران 154 مغویوں کو اغوا کاروں سے بازیاب کرایا گیا، جن میں 2015ء میں سب سے زیادہ 103 مغوی بازیاب کرائے گئے جبکہ 2013ء میں 10، 2014ء میں 25، 2016ء میں 13 اور 2017ء میں 3 مغوی بازیاب کرائے گئے۔ بریفنگ کے دوران فوجی حکام نے سینیٹرز کو بتایا کہ کراچی آپریشن کے دوران 5 سال میں 24 رینجرز کے جوان شہید ہوئے، آپریشن کے آغاز میں سال 2013ء میں 3 جوان، 2014ء میں 13، 2015ء میں 8 جبکہ 2016ء اور 2017ء میں کوئی شہادت نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ ان آپریشنز میں 94 جوان مسلح مقابلوں میں زخمی بھی ہوئے، جن میں 2013ء میں 17، 2014ء میں 37، 2015ء میں 23 اور 2016ء میں 5 جبکہ 2017ء میں 12 جوان زخمی ہوئے۔ ذرائع کے مطابق فوجی حکام نے بتایا کہ رینجرز کی جانب سے کئے گئے آپریشن کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی اور 2013ء میں دہشت گردی کے 57 واقعات کے مقابلے میں 2017ء میں صرف ایک واقعہ رونما ہوا، اس کے علاوہ 2014ء میں 66 واقعات ہوئے جبکہ 2015ء میں 18 اور 2016ء میں یہ تعداد 16 رہی۔

آپریشن کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی کمی آئی، 2013ء میں 965 واقعات رونما ہوئے جبکہ 2017ء میں 46 واقعات، 2014ء میں 602، 2015ء میں 199، 2016ء میں 89 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوئے، اسی طرح 2013ء میں بھتہ خوری کے سب سے زیادہ 1524 کیسز ریکارڈ ہوئے جبکہ 2014ء میں 899، 2015ء میں 303، 2016ء میں 101 اور 2017ء میں ان کی تعداد 48 ریکارڈ کی گئی۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2013ء میں اغوا برائے تاوان کے 174 کیسز سامنے آئے، اس کے علاوہ 2014ء میں 115، 2015ء میں 37، 2016ء میں 26 جبکہ 2017ء میں 13 کیسز سامنے آئے۔ اس سے قبل آرمی چیف پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبد الغفور حیدری نے ان کا استقبال کیا، جس کے بعد وہ چیئرمین سینیٹ کے چیمبر میں چلے گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جب ایوان میں داخل ہوئے تو انہوں نے ایوان کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنی فوجی کیپ پہن لی۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے آرمی چیف کو جمہور گلی بھی دکھائی، جس میں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جمہوریت کیلئے خدمات انجام دینے والی شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور آرمی چیف کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے، جبکہ ڈی جی ملٹری آپریشن میجر جنرل ساحر شمشاد نے ان کی آمد سے قبل وہاں انتظامات کا جائزہ لیا۔
خبر کا کوڈ : 691146
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش