3
3
Thursday 21 Dec 2017 00:07

ٹرمپ کی پیش کردہ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی

ٹرمپ کی پیش کردہ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی
تحریر: عرفان علی

ماضی کے امریکی صدور کی مانند ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اپنے دور صدارت کے لئے قومی سلامتی حکمت عملی کے عنوان سے امریکہ کے دوست، اتحادی، شراکت دار اور دشمن و حریف ممالک کی تفصیلات ایک دستاویز میں دنیا کے سامنے پیش کی ہیں۔ یہ دستاویز امریکہ کے سامراجی عزائم اور دنیا کا تھانیدار (پولیس مین) بنے رہنے کی پرانی خواہش کا نیا اظہار ہے۔ امریکہ پر حکمران عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ، سفید نسل پرست، صہیونی اور نیوکونز وغیرہ پر مشتمل طبقہ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت میں تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ بش جونیئر کے شروع کردہ نامکمل ایجنڈے پر نئے جوش و خروش سے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی انکی مشرق وسطٰی پالیسی کا مرکزی نکتہ اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کی بقاء اور تحفظ ہے۔ یہ طبقہ خاص طور امریکی عوام اور عمومی طور پر عالمی رائے عامہ کو اس حقیقت سے لاعلم رکھنا چاہتا ہے کہ مشرق وسطٰی کے بارے میں امریکہ کی کوئی پالیسی یا حکمت عملی ہے ہی نہیں بلکہ جو کچھ جعلی ریاست اسرائیل چاہتا ہے، اس پر امریکہ عمل کرتا ہے۔ 18 دسمبر 2017ء کو جاری کردہ اس دستاویز کے یوں تو کل 68 صفحات ہیں، لیکن ذرائع ابلاغ اس دستاویز کے تعارف سے اختتامیہ تک کے موضوعات کی تفصیلات پر مشتمل 55 صفحات کی وجہ سے اسے 55 صفحاتی دستاویز لکھ رہے ہیں۔ گو کہ بقیہ 13 صفحات میں سرورق ٹائٹل اور کچھ خالی بھی ہیں، لیکن انہی میں وہ دو صفحات بھی ہیں، جو صدر ٹرمپ کے دستخط کے ساتھ اس دستاویز کا پیش لفظ ہیں۔ فہرست مضامین اور نوٹس بھی انہی شمار نہ کردہ صفحات میں شامل ہیں۔ پیش لفظ میں ٹرمپ نے امریکی شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکیوں نے انہیں اس لئے صدر منتخب کیا کہ وہ پھر سے امریکہ کو عظیم بنائیں۔ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ انکی حکومت امریکی شہریوں کی حفاظت، مفادات اور خوشحالی کو ہر شے پر مقدم رکھیں گے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ امریکی معیشت کو از سر نو زندہ کر دیں گے، فوج کی تعمیر نو، سرحدوں کی حفاظت، ملک کی خود مختاری کا تحفظ کریں گے اور (امریکی) اقدار کو فروغ دیں گے۔

ٹرمپ نے لکھا کہ امریکیوں نے دیکھا کہ انکی حکومت کے پہلے سال میں ہی ان کی خارجہ پالیسی پر عمل شروع ہوچکا ہے، شہریوں کے مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے اور بحیثیت قوم امریکیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے شہریوں کو مطلع کیا کہ امریکہ پھر سے عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ چیلنجوں سے چھپ نہیں رہے بلکہ ان سے نمٹ رہے ہیں، مواقع کے ساتھ امریکیوں کی سلامتی و خوشحالی کی سمت گامزن ہیں۔ اسی پیش لفظ میں شمالی کوریا کو بے ایمان و بے اصول جبکہ ایران کو آمریت قرار دیا۔ لکھا کہ مشرق وسطٰی میں دوستیوں کو نئے سرے سے استوار کیا ہے اور علاقائی رہنماؤں کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔ شام اور عراق میں داعش کو کچل کر رکھ دینے کا کریڈٹ بھی ٹرمپ نے امریکہ کے کھاتے میں ڈالا ہے۔ ٹرمپ لکھتے ہیں کہ امریکہ کے اتحادی انکے مشترکہ دفاع کے لئے (ماضی کی نسبت اب) زیادہ تعاون کر رہے ہیں اور اتحاد کو مستحکم تر کر رہے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں کہ اقتصادی جارحیت اور غیر منصفانہ تجارتی چلن امریکہ برداشت نہیں کرے گا۔ (یہ جملہ خاص طور پر چین کے لئے ہے، جس کی وضاحت دستاویز کی تفصیلات میں تحریر ہیں)۔ چین اور روس کا نام لے کر تذکرہ ٹرمپ نے پیش لفظ میں نہیں کیا، لیکن ’’قومی سلامتی حکمت عملی‘‘ کے تعارف میں ہی ان دونوں ملکوں پر بھی الزامات لگائے ہیں۔ امریکی حکمت عملی کی دستاویز کہتی ہے کہ آج کی دنیا مسابقت یا مقابلے کی دنیا ہے اور اس مسابقتی دنیا میں امریکہ بڑھتی ہوئی سیاسی، اقتصادی و فوجی مسابقتوں کا جواب دے گا۔ لکھا ہے کہ روس اور چین امریکی طاقت اور مفادات کو چیلنج کرتے ہیں، تاکہ امریکی سلامتی و خوشحالی کو بتدریج تباہ کر دیں۔ مزید لکھا ہے کہ اپنی افواج، اپنے اثر و رسوخ کو بڑھائیں، اپنے معاشروں کو دباؤ میں رکھنے کے لئے اطلاعات اور ڈیٹا پر کنٹرول رکھتے ہیں اور اپنی معیشتوں کو کم آزاد اور کم منصفانہ رکھنے کا عزم مصمم رکھتے ہیں۔ شمالی کوریا اور ایران پر الزام کہ یہ آمریتیں ہیں، خطوں کو غیر مستحکم کرنے، امریکیوں اور اتحادیوں کو دھمکانے اور اپنے ہی عوام کے خلاف کام کرنے کے لئے پر عزم ہیں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی بین الاقوامی گروہوں کو جہادی دہشت گرد گروہوں کے عنوان سے شناخت کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ ہی جرائم پیشہ تنظیموں کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ گروہ بھی امریکیوں کے نقصان پہنچانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی کی دستاویز کے تعارف میں پاکستان کا تذکرہ نہیں، لیکن جنوبی اور وسطی ایشیاء کے ذیل میں پاکستان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں پاکستان کو ان دہشت گرد گروہوں کا پناہ دہندہ و محافظ قرار دیا گیا ہے کہ جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ الزامات افغانستان کے حالات کے تناظر میں اور خاص طور پر طالبان اور ان جیسے گروہوں کی آڑ میں لگائے گئے ہیں۔ امریکی حکمت عملی میں یہ نکتہ شامل ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہو، جس کا رویہ عدم استحکام پھیلانے والا نہ ہو۔ امریکی حکمت عملی میں امریکی اہداف کے حصول کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈال کر کام نکالنا بھی شامل ہے۔ پورے خطہ بحر ہند کی سکیورٹی کے لئے امریکہ کی نظر میں بھارت کا قائدانہ کردار ہوگا۔ امریکی دستاویز کے مطابق چین اس خطے میں بھی اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، اس لئے امریکہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو خود مختاری برقرار رکھنے میں مدد کرے گا۔(سی پیک کے بارے امریکی پالیسی کو بھی اس پیراگراف کے اس آخری جملے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔) تعارف کے بعد امریکی حکمت عملی میں چار ستونوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اس کے بعد دنیا کو چھ خطوں میں تقسیم کرکے امریکی حکمت عملی بیان کی گئی ہے۔ ایک خطہ انڈو پیسیفک یا بحر ہند تا بحر الکاہل کے ممالک پر مشتمل ہے، دوسرا یورپ، تیسرا مشرق وسطٰی، چوتھا، جنوبی اور وسطی ایشیاء، پانچواں مغربی نصف کرہ ارض یا ویسٹرن ہیمی اسفیئر اور چھٹا افریقہ۔ درحقیقت امریکہ نے جس ایک نکتے پر توجہ مرکوز کی ہے، وہ ہے ان خطوں میں طاقت کا توازن کیونکہ امریکہ کی نظر میں خطے میں طاقت کے توازن کی تبدیلی کا اثر صرف خطے تک محدود نہیں رہتا بلکہ عالمی سطح پر یہ تبدیلی اثر انگیز ہوا کرتی ہے۔ امریکہ کی نظر میں چین اور روس عالمی سطح پر طاقت کا مظاہرہ چاہتے ہیں، البتہ ان دونوں ملکوں کا تعامل زیادہ تر پڑوسی ممالک کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ ٹرمپ سرکار کی اس دستاویز کے مطابق امریکہ چین کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے، لیکن چین معاشی لالچ اور معاشی جرمانوں کا حربہ استعمال کر رہا ہے اور دیگر ممالک کو ڈھکے چھپے الفاظ میں ڈرا دھمکا کر اپنے سیاسی و سکیورٹی ایجنڈا پر گامزن ہے۔ امریکہ کے مطابق انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور تجارتی حکمت عملیاں چین کی جیو پولیٹیکل خواہشات کو ظاہر کرتی ہیں۔ چین کی جنوبی چینی سمندر میں فوجی چوکیاں تعمیر کرنے کی کوششیں، بلارکاوٹ آزاد تجارت اور دیگر اقوام کی خود مختاری کو خطرے میں ڈالتی ہیں اور علاقائی استحکام کو کمزور کرتی ہیں۔

امریکی قومی سلامتی کی دستاویز کے مطابق چینی فوج کو تیزی سے جدید خطوط پر ڈھالنے کی مہم اس خطے میں امریکہ کی رسائی کو محدود کرنے کے لئے ہے اور اس طرح خطے کے معاملات میں چین کو زیادہ قدرت حاصل ہو جائے گی۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس خطے کی دیگر اقوام اس کے جواب میں امریکی قیادت میں (یعنی اتحاد کے ذریعے) مشترکہ طور پر خود مختاری اور آزادی برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ ٹرمپ نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے، اس خطے میں جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن، تھائی لینڈ وغیرہ ویسے ہی امریکی بلاک میں ہی تھے۔ چین کو ایک سرحد پر جاپان کے ذریعے اور دوسری سرحد پر بھارت کے ذریعے گھیرے رکھنے کی امریکی پالیسی بہت پرانی ہے۔ ٹرمپ کی حکمت عملی یہ ہے کہ بھارت سے لے کر آسٹریلیا تک اور درمیان میں بنیادی طور پر بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر اس انڈو پیسیفک کا تھانیدار بنے، یعنی مذکورہ تین ملک بڑے چوکیدار۔ آسٹریلیا جنگ عظیم اول کے وقت سے امریکہ کا ساتھی ہے۔ جاپان دوسری جنگ عظیم اور ایٹم بم کے حملوں کے بعد امریکی غلامی میں آیا تھا۔ شمالی کوریا شمال مشرقی ایشیاء میں امریکہ کی نظر میں خطرہ ہے اور وہاں اس کا اتحادی جنوبی کوریا ہے، جبکہ زیادہ بڑا کردار جاپان کے لئے رکھا گیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیاء میں فلپائن، تھائی لینڈ، امریکہ کے اہم اتحادی اور منڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ویتنام، انڈونیشیاء، ملائیشیاء اور سنگاپور امریکہ کے اقتصادی و سکیورٹی کے شعبے کے شراکت دار ہیں۔ امریکہ نے یہاں کی علاقائی تنظیموں آسیان اور اپیک کا کردار بھی تسلیم کیا ہے۔ ان سب کے باوجود امریکہ بھارت کو ابھرتی ہوئی لیڈنگ گلوبل پاور اور مضبوط تر تزویراتی اور دفاعی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ افریقہ میں بھی امریکہ چین کو اپنے مفادات کے لئے چیلنج سمجھتا ہے۔

امریکی حکمت عملی میں ایک مضبوط اور آزاد یورپ کو امریکہ کے مفاد میں قرار دیا گیا ہے۔ یہاں روس کو امریکہ مفادات کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکی سرکار کی حکمت عملی کی دستاویز کے مطابق گو کہ سوویت کمیونزم کی لعنت تو ختم ہوگئی، لیکن موجودہ روس اپنے تخریبی اقدامات کے ذریعے یورپ کے ساتھ امریکہ کے عہد و پیمان کی ساکھ کو اور بحر اوقیانوس کے پار کے ممالک کے ساتھ امریکہ کے اتحاد کو، یورپی اداروں اور حکومتوں کو کمزور کر رہا ہے۔ امریکہ کے مطابق روس نے جارجیا اور یوکرین میں یلغار کی ہے۔ چین بھی غیر منصفانہ تجارتی سرگرمیوں اور کلیدی مصنوعات، حساس ٹیکنالوجیوں اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے ذریعے یورپ میں تزویراتی طور پر مضبوط ہو رہا ہے۔ امریکہ کے مطابق داعش اور دیگر مسلمان انتہاء پسند گروہوں سے بھی یورپ کو خطرہ ہے، جو اسپین، فرانس، جرمنی، بیلجیم، برطانیہ اور دیگر ممالک میں حملے بھی کرچکے ہیں۔ ٹرمپ سرکار نے اس حکمت عملی میں یورپی اتحادیوں اور نیٹو اتحاد کو بھی سراہا ہے۔ امریکی حکمت عملی یہ ہے کہ یورپ کے ساتھ مل کر روس، شمالی کوریا اور ایران کا مقابلہ کرے گا۔ یاد رہے کہ یہاں لفظ چین غائب ہے۔ مشرق وسطٰی کے بارے میں ٹرمپ سرکار کی دستاویز کہتی ہے امریکہ چاہتا ہے کہ یہ خطہ ایسا ہو کہ جہاں ’’جہادی دہشتگردوں‘‘ کے محفوظ ٹھکانے نہ ہوں اور نہ ہی یہ خطہ ان کے لئے زرخیز زمین ہو۔ ایسا خطہ کہ جہاں ایسی کسی طاقت کا تسلط نہ ہو، جو امریکہ سے مخاصمت رکھتی ہو اور ایسا خطہ ہو کہ جو مستحکم عالمی انرجی مارکیٹ کے لئے ممد و معاون ہو۔ (ٹرمپ سرکار کے ان جملوں سے انکی اصل مراد کیا ہے، یہ سبھی جانتے ہیں۔)

امریکی حکمت عملی نے پانچ چیزوں کا آپس میں تعلق جوڑ دیا ہے، لیکن جو اس پورے خطے کے ابتر حالات سے جڑا جزو لاینفک ہے، یعنی جعلی ریاست اسرائیل کا فلسطین میں قیام اور اس کی دہشت گردی، فسلطینیوں کا قتل عام، انکا لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اور بے وطن کیا جانا، یہ سب کچھ ٹرمپ حکومت کی نظر میں خطے کے امن و خوشحالی کی راہ میں خلل ڈالنے والا کوئی عامل ہی نہیں! ٹرمپ کی دستاویز کہتی ہے کہ ایران کی توسیع، ریاستی ڈھانچوں کا بیٹھ جانا، جہادی نظریات، سماجی و اقتصادی انجماد اور علاقائی رقابت کی وجہ سے خطے کی صورتحال ایسی ہے۔ ان کی نظر میں جمہوری تبدیلی کی خواہش اور قطع تعلقی امریکہ کو خطے کی مشکلات سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتی۔ (در حقیقت انہیں کہنا چاہیے کہ اسرائیل کی بقاء اور دفاع کی امریکی خواہش اصل سبب ہے)۔ دوسرا جھوٹ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ داعش و القاعدہ کے پیدا کردہ عدم استحکام کا فائدہ ایران اٹھا رہا ہے جبکہ داعش کے بارے میں تو خود ٹرمپ نے اگست 2016ء کو خطاب میں کہا تھا کہ امریکی صدر اوبامہ نے داعش ایجاد کی اور اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن داعش کی شریک بانی تھیں۔ القاعدہ کے بارے میں بھی سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ و سعودی عرب کی افغان نیابتی جنگ کے نیتجے میں بنی تھی اور امریکی یورپی سیکیورٹی اداروں کی مس کیلکیولیشن کی پیداوار تھی، جبکہ کنفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ کی رپورٹس بھی یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ داعش کے ہاتھوں میں امریکہ اور سعودی عرب کا اسلحہ تھا۔ تو خطے میں عدم استحکام کا ہدف تو مسلمانوں اور عربوں کو آپس میں لڑا کر اسرائیل کا بچانا تھا، تباہ تو ایران کا اتحادی ملک شام ہوا ہے یا عراق۔

اس وقت بھی مشرق وسطٰی میں جنگ چل رہی ہے تو یمن میں کہ جہاں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت امریکی اتحادی بمباری کرکے انسانی المیے کو جنم دے چکے ہیں۔ بحرین میں پرامن جمہوری سیاسی تحریک کو کچلا جا رہا ہے، لیکن امریکی بحری بیڑے کے میزبان ڈکٹیٹر شیخ کے خلاف ٹرمپ کا ایک لفظ بھی ریکارڈ پر موجود نہیں۔ وجہ تو ٹرمپ کی قومی سلامتی کی دستاویز میں بیان ہوگئی کہ نسلوں تک اسرائیل فلسطینی تنازعہ کو امن و خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑا خلل سمجھا جاتا رہا تھا، لیکن آج ان (یعنی امریکہ کی اتحادی عرب) ریاستوں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ اسرائیل مشکلات کا سبب نہیں بلکہ ایران سے ان کو خطرہ ہے یا جہادی دہشت گردوں سے۔ (کوئی یہ تو بتائے کہ آج تک ایران نے ان عرب ممالک میں کب حملہ کیا ہے؟ حتٰی کہ جنہیں امریکہ جہادی دہشت گرد کہتا ہے، انہوں نے بھی امریکی اتحادی ریاستوں کا وہ حال ہرگز نہیں کیا، جو شام اور عراق کا کیا ہے یا ایران کہ جہاں پارلیمنٹ تک پہنچ گئے تھے اور امام خمینی کے مزار پر حملے بھی کرچکے ہیں، ایسی کوئی بڑی کارروائی سعودی عرب یا جعلی ریاست اسرائیل یا متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک کے ساتھ کب ہوئی۔؟ ٹرمپ کی دستاویز کے مطابق یہ اتحادی عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر مشترکہ خطرے سے نمٹنے کی قائل ہوچکی ہیں۔ امریکہ اپنے شراکت داروں، اتحادیوں کے ساتھ مل کر اور خلیجی تعاون کاؤنسل کے ذریعے بھی مشرق وسطٰی میں مفادات کا تحفظ کرے گا اور ہدف ہوگا ایران کے اثر و رسوخ کو روکنا۔ سعودی عرب اور مصر سمیت ان ملکوں کی معیشتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد کرے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ فوجی موجودگی برقرار رکھے گا۔ عراق کی حکومت کے ساتھ طویل المدت شراکت داری بھی کرے گا۔ مطلب یہ کہ عراق کے تیل کے ذخائر پر کس طرح اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے لئے عراق پر بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔

صدر ٹرمپ کی قومی سلامتی حکمت عملی بھی امریکہ کی سامراجی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے، جس کے تحت وہ پوری دنیا کے معاملات میں مداخلت کرنے والا تھانیدار بننے کی خواہش سے تاحال دستبردار نہیں ہوا۔ یہ امریکی دستاویز واضح طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ چین، روس اور ایران اپنے پڑوس سے بھی لاتعلق ہو جائیں اور امریکہ دنیا کے دوسرے کونے سے اٹھ کر ان ملکوں کے پڑوس میں جو چاہے کرتا پھرے۔ امریکی دستاویز سے کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ روس، چین یا ایران امریکہ کے کسی ایک بھی قومی مفاد یا امریکی عوام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں، بلکہ یہ دستاویز کہہ رہی ہے کہ چین، اپنے پڑوس میں، یورپ میں یا افریقہ میں جو کچھ کر رہا ہے، یہ امریکی حکومت کو ناگوار گزر رہا ہے۔ اسی طرح یہ دستاویز کہہ رہی ہے کہ ایران جو کچھ اپنے پڑوس میں کر رہا ہے یہ امریکا کو قبول نہیں ہے۔ ایران نے امریکہ کے اندر یا اس کے پڑوس میں فوجی نہیں بھیجے ہیں بلکہ امریکہ نے ایران کے ارد گرد ہر جگہ فوج اور دہشت گرد جمع کر رکھے ہیں، شکایت کا حق تو ایران کو ہونا چاہیے نہ کہ امریکہ کو۔ ایران، حزب اللہ اور ان کے اتحادیوں کا اصل جرم انکا یہ موقف ہے کہ فلسطینیوں کو انکا حق خود ارادیت مل جائے، سارے فلسطینی اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ جائیں، اور پورا فلسطین ایک آزاد مملکت بنے، چونکہ اس موقف کا مطلب ہے کہ فلسطین پر غیر ملکی قبضہ گیروں نے قبضہ کرکے جو جعلی ریاست بنائی ہے، وہ خود بخود ختم ہو جائے گی اور امریکی حکومت اپنی اس ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی وجہ سے ایران سے ناراض ہے۔
خبر کا کوڈ : 691433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Z بہت خوب
ماشاءاللہ
Pakistan
Thanks
Hussain
Iran, Islamic Republic of
Nice article
ہماری پیشکش