3
0
Saturday 23 Dec 2017 01:51

غلو، غالی اور مقصر

غلو، غالی اور مقصر
تحریر: سید حسین موسوی

غالی توبہ بھی کر لے تو اہلبیت (ع) اسے قبول نہیں کرتے، لیکن مقصر کی توبہ قبول ہے۔
قَالَ الصَّادِقُ (عَلَيْهِ السَّلَامُ): احْذَرُوا عَلَى شَبَابِكُمْ الْغُلَاةَ لَا يُفْسِدُونَهُمْ، فَإِنَّ الْغُلَاةَ شَرُّ خَلْقِ اللَّهِ، يُصَغِّرُونَ عَظَمَةَ اللَّهِ، وَ يَدَّعُونَ الرُّبُوبِيَّةَ لِعِبَادِ اللَّهِ،
وَاللَّهِ إِنَّ الْغُلَاةَ شَرٌّ مِنَ الْيَهُودِ وَ النَّصارى‏ وَ الْمَجُوسَ وَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا۔
ثُمَّ قَالَ (عَلَيْهِ السَّلَامُ): إِلَيْنَا يَرْجِعُ الْغَالِي‏ فَلَا نَقْبَلُهُ، وَ بِنَا يَلْحَقُ الْمُقَصِّرُ فَنَقْبَلُهُ۔
فقِيلَ لَهُ:كَيْفَ ذَلِكَ، يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ
قَالَ: لِأَنَّ الْغَالِيَ قَدِ اعْتَادَ تَرْكَ الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الصِّيَامِ وَ الْحَجِّ، فَلَا يَقْدِرُ عَلَى تَرْكِ عَادَتِهِ، وَ عَلَى الرُّجُوعِ إِلَى طَاعَةِ اللَّهِ (عَزَّ وَ جَلَّ) أَبَداً، وَ إِنَّ الْمُقَصِّرُ إِذَا عَرَفَ عَمِلَ وَ أَطَاعَ
۔(الأمالي للطوسي، النص، ص: 651)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اپنے جوانوں کو غالیوں سے بچاؤ کہ وہ ان کو فاسد نہ بنا دیں۔ بیشک غالی بدترین مخلوق ہیں، اللہ کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور اللہ کے بندوں کے لئے ربوبیت کے عقیدے کی دعوت دیتے ہیں۔
خدا کی قسم! غالی تو یہود، نصاریٰ، مجوس اور مشرکین سے بھی بدتر ہیں۔
پھر آپ نے فرمایا: غالی ہماری طرف لوٹ آئے تو ہم اسے قبول نہیں کرتے، لیکن اگر مقصر ہم سے آکر ملے تو ہم اسے قبول کر لینگے۔
آپ سے پوچھا گیا: اے فرزند رسول وہ کیسے۔؟
آپ نے فرمایا: غالی نے نماز، زکاۃ، روزہ اور حج کے ترک کرنے کی عادت اپنا لی ہے اور وہ اپنی عادت ترک کرنے اور اللہ کی اطاعت کی طرف لوٹنے پر کبھی بھی قادر نہیں ہوتا، جبکہ مقصر کو جب معرفت ہو جائے گی تو اس پر عمل کرے گا اور اطاعت کرے گا۔

اہلبیت (ع)کے متعلق غلو اور اہلبیت (ع) کے دشمنوں کا نام لے کر عیب بیان کرنے والی روایات جعلی ہیں۔
قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي مَحْمُودٍ فَقُلْتُ لِلرِّضَا يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ إِنَّ عِنْدَنَا أَخْبَاراً فِي فَضَائِلِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ فَضْلِكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ هِيَ مِنْ رِوَايَةِ مُخَالِفِيكُمْ وَ لَا نَعْرِفُ مِثْلَهَا عِنْدَكُمْ أَ فَنَدِينُ بِهَا فَقَالَ: يَا ابْنَ أَبِي مَحْمُودٍ لَقَدْ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ ع أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ مَنْ أَصْغَى إِلَى نَاطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ فَإِنْ كَانَ النَّاطِقُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَدْ عَبَدَ اللَّهَ وَ إِنْ كَانَ النَّاطِقُ عَنْ إِبْلِيسَ فَقَدْ عَبَدَ إِبْلِيسَ ثُمَّ قَالَ الرِّضَا: يَا ابْنَ أَبِي مَحْمُودٍ إِنَّ مُخَالِفِينَا وَضَعُوا أَخْبَاراً فِي فَضَائِلِنَا وَ جَعَلُوهَا عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْسَامٍ أَحَدُهَا الْغُلُوُّ وَ ثَانِيهَا التَّقْصِيرُ فِي أَمْرِنَا وَ ثَالِثُهَا التَّصْرِيحُ بِمَثَالِبِ‏ أَعْدَائِنَا فَإِذَا سَمِعَ النَّاسُ الْغُلُوَّ فِينَا كَفَّرُوا شِيعَتَنَا وَ نَسَبُوهُمْ إِلَى الْقَوْلِ بِرُبُوبِيَّتِنَا وَ إِذَا سَمِعُوا التَّقْصِيرَ اعْتَقَدُوهُ فِينَا وَ إِذَا سَمِعُوا مَثَالِبَ أَعْدَائِنَا بِأَسْمَائِهِمْ ثَلَبُونَا بِأَسْمَائِنَا وَ قَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ وَ لا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ‏۔(عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، ص: 304)
ابراہیم بن ابی محمود کہتا ہے میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کیا: اے فرزند رسول اللہ! ہمارے پاس آپ کے مخالفین سے فضائل علی (ع) میں اور آپ اہل بیت (ع) کے فضائل میں ایسی روایات مروی ہیں کہ ویسی روایات آپ (ع) سے نہیں ہیں۔ کیا میں ایسی روایات پر ایمان رکھوں؟ آپ (ع) نے فرمایا: اے ابن ابی محمود! میرے بابا نے اپنے بابا سے، انہوں نے اپنی جد سے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جس نے کسی بولنے والے کی طرف کان دھرا تو اس نے اس کی بندگی کی۔ اب اگر بولنے والا اللہ (ج) کی طرف سے بول رہا ہے تو اس نے اللہ(ج) کی عبادت کی۔ اگر بولنے والا ابلیس کی طرف سے بول رہا ہے تو اس نے ابلیس کی عبادت کی۔ پھر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اے ابن ابی محمود! ہمارے مخالفین نے ہمارے فضائل میں روایات گھڑی ہیں اور انکی تین اقسام ہیں:
ایک) ہمارے متعلق غلو پر مشتمل ہیں۔
دو) ہماری تقصیر پر مشتمل ہیں۔
تین) ہمارے دشمن کے عیوب پر مشتمل ہیں۔
(یہ اس لئے گھڑی ہیں کہ:) جب لوگ ہمارے غلو پر مشتمل جعل شدہ روایت پڑھیں گے کہ جن میں ہماری طرف ربوبیت کے عقیدے کی نسبت دی گئی ہے تو ہمارے شیعوں کی تکفیر کریں گے
اور جب لوگ ہمارے حق کو کمتر دکھانے والی جعلی روایات پڑھیں گے تو ہمارے متعلق وہی عقیدہ رکھیں گے۔
اور جب لوگ ہمارے دشمن کے عیوب پر مشتمل جعلی روایات دیکھیں گے کہ جن میں ہمارے دشمنوں کے نام لئے گئے ہیں تو ہمارے نام لیکر ہم سے عیب منسوب کریں گے، جبکہ اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا ہے: "مشرک اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کر رہے ہیں ان کو برا نہ کہو کیوں کہ وہ بغیر علم کے اللہ کو برا کہیں گے۔
"(انعام:108)

غالی کون؟ اور مقصر کون؟
غالی کی اصطلاح معصومین (ع) کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اسکی بنیادی طور پر دو سرحدیں ہیں:
 1۔ جو شخص محمد و آل محمد (ع) میں سے کسی کو خدا سمجھے، یا خدائی صفات میں شریک سمجھے یا کسی بھی حوالے سے انکو مستقل (عقایدی اصطلاح کے مطابق) سمجھے، یعنی انکو خدا سے بے نیاز سمجھے وہ غالی ہے۔
 2۔ جو شخص آل محمد (ع) کو نبی سمجھے، یعنی وحی تشریعی نازل ہونے کا مقام سمجھے، وہ بھی غالی ہے۔
غالی کافر اور نجس ہے
باقی فضائل میں کمی زیادتی غلو یا تقصیر کی لغوی معنیٰ کے مطابق تو ہوگی، لیکن وہ کسی بھی طور پر اصطلاحی غالی یا مقصر نہیں ہوگا نہ ہی کافر یا نجس۔ کچھ خطیب حضرات کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ: حضرت علی (ع) کے فضائل کی حد بتا‍ؤ؟ کہ ہم وہاں پر رک جائیں، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اوپر ہم نے دو حدود بتا دی ہیں۔ اب یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کے فضائل کی کوئی حد نہیں ہے!
مقصر وہ ہے جو آئمہ اہلبیت (ع) کو اللہ طرف سے بنایا ہوا امام نہ مانے
فضائل آل محمد (ع) میں باقی چیزیں علم اور معرفت کے مطابق ہیں، جس کا جتنا علم اتنی معرفت۔ جو بھی مسلمان آئمہ اہلبیت (ع) کو اللہ کی طرف سے بنایا ہوا امام مانے، اسے کسی بھی طرح مقصر نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن آج کل ہماری اسٹیج سے غالی اور مقصر کے لئے عجیب و غریب اور لاتعداد معیار سامنے آتے رہتے ہیں۔ جن کا اگر خلاصہ کیا جائے تو معیار یہ بنتا ہے، جو شخص میرے عقیدے سے ان حضرات کو برتر مانتا ہے، وہ غالی ہے اور جو ان حضرات کو میرے عقیدے سے کمتر مانتا ہے، وہ مقصر ہے۔ اس طرح ہم سب کچھ لوگوں کی نظر میں غالی ہونگے تو دوسرے حضرات کی نظر میں مقصر اور کوئی بھی فرد نہ غلو سے باہر نکل پائے گا نہ تقصیر سے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو معیار نہ بنائیں بلکہ حقیقت کو معیار بنائیں، ورنہ غالی اور مقصر کے یہ کارخانے چلتے رہیں گے اور لوگوں کی روزی روٹی کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ کچھ لوگ ایک عجیب بہانا بناتے ہیں کہ چونکہ عقاید میں تقلید نہیں ہے، اس لئے ہمیں جو عقیدہ صحیح لگے گا، وہی رکھیں گے اور آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔؟ عقاید میں تقلید نہ ہونے کا یہ مطلب بالکل غلط ہے، جو لوگوں کے ذہن میں بیٹھا ہوا ہے۔ اصل مطلب یہ ہے کہ احکام میں تقلید کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ مسائل فقہی میں اگر دلیل مجتھد کے پاس ہو اور تقلید کرنے والے کے پاس نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن عقاید میں دلیل مجتہد کے پاس ہو اور عقیدہ رکھنے والے کے پاس نہ ہو تو کافی نہیں ہے، بلکہ دلیل چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو، عقیدہ رکھنے والے کے پاس ہونا بھی ضروری ہے۔ یعنی عقاید تو وہی رکھنے ہیں، جو مکتب اہلبیت کے ہیں، لیکن اس عقیدہ کی دلیل بھی جاننا ہوگی اور صرف عالم کے پاس عقیدے کی دلیل کافی نہیں ہوگی، جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہر طرح کا عقیدہ رکھنے کی آزادی ہے! ایسا ہرگز نہیں ہے مثال: اگر کوئی انسان کہے کہ میری تحقیق یہ ہے کہ امام، اللہ (ج) کی طرف سے مقرر نہیں ہوتا تو کیا اسے مکتب اہلبیت کا ماننے والا کہا جائیگا؟ اسی طرح اگر کوئی کہے کہ میری تحقیق یہ ہے کہ حضرت علی (ع)، خاتم النبین سے بھی افضل ہیں، تو اسے مکتب اہلبیت کا پیروکار مانا جائیگا؟ دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ اس لئے عقاید میں تقلید نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ تو وہی رکھا جائیگا جو مکتب اہلبیت کا ہے، لیکن اس عقیدے کا ثبوت اور دلیل بھی رکھنا پڑیگی۔
خبر کا کوڈ : 692027
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شکیل حسینی
ماشاءاللہ بہت اچھا مواد اور عصر حاضر کا اہم موضوع جس پہ مفید درس فرمایا ہے۔
Sayed Kazim Hassan
MashaAllah, Sayed buzragwar ki tahreerein muashare ma islahi kirdar aada kr rhi hein,
Shahzad Raza
Pakistan
Great person Qibla Sayed Hussain Moosvi
ہماری پیشکش