QR CodeQR Code

اقبالؒ، قائدؒ اور تحریکِ پاکستان

25 Dec 2017 09:36

اسلام ٹائمز: اقبال اور قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ) نے ایک دوسرے کیلئے جن آراء کا اظہار کیا، انکا مطالعہ دلچسپ اور کارآمد ہے، یہ مطالعہ عظیم رہنمائی اور مخلص قیادت کی توثیق بھی کرتا ہے، 1937ء کا واقعہ ہے، دانائے راز حکیم الامت علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کا یہ کہنا ہے کہ ’’جواہر لال نہرو اور میاں افتخار الدین ملاقات کیلئے علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کے گھر حاضر ہوئے، ملاقات کے دوران میاں افتخار الدین نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے، مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپکی عزت کرتے ہیں، اگر آپ مسلمانوں کیطرف سے کانگرس کیساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہت اچھا نکلے گا، علامہ اقبال لیٹے ہوئے تھے، یہ بات سنتے ہی غصہ میں آگئے اور انگریزی میں فرمانے لگے کہ اچھا تو چال یہ ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں، مَیں آپکو بتلا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں، میں تو انکا معمولی سپاہی ہوں۔


تحریر: پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر

ابتدا میں اقبال مختلف رجحانات کے حامل تھے، جن میں اسلامی رجحان اور ہندی قوم پرستی (Indian Nationalism ) کے رجحان زیادہ قوی تھے۔ 1905ء تک انڈین نیشنلزم کی حمایت میں، تصویر درد، ترانہ ہندی اور نیا شوالہ، جیسی پرتاثیر اور زور دار نظمیں لکھیں۔ قومی زندگی کے عنوان سے 1904ء میں ایک مضمون لکھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے وہ قوم کا لفظ استعمال کرتے تھے اور مسلمانوں کو زبوں حالی سے نکالنے کے آرزو مند تھے۔ ہندو مسلم نزاع ان کے نزدیک سامراج کی تقویت کا باعث تھا اور باہمی محبت ہی کو آزادی کا ذریعہ خیال کرتے تھے، ہندو مسلم یکجائی ؎
نشانِ برگِ گُل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں!
تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا
شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنّت سے نکلواتا ہے آدم کو
جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبّت میں
غلامی ہے اسیرِ امتیازِ ماو تو رہنا۔[1]

ہندو مسلم ایک قوم کے علمبردار اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا، کہنے والے نیشلسٹ اقبال اسلامی قومیت اور مسلمان الگ قوم، کا فکری سفر کیسے طے کر پائے؟، اس کی بڑی وجہ ہندو ذہنیت اور مغربی اقوام کی حکمتِ عملی کا ادراک تھا۔ اقبال 1905ء میں اعلیٰ تعلیم (پی ایچ ڈی نیز بارایٹ لاء) کے لیے انگلستان چلے گئے۔ اسی سال تقسیم بنگال عمل میں آئی، یہ ایک انتظامی فیصلہ تھا، مشرقی بنگال مسلم اکثریت کا صوبہ بن گیا، ہندو قوم کو مسلمانوں کا یہ مفاد ناگوار گزرا اور تقسیمِ بنگال کے خلاف ہندوستان گیر اور زور دار احتجاج شروع کردیا۔ اقبال جیسے دیدہ ور کے سامنے ہندی وطن پرستی یا ہندو مسلم متحدہ قومیت کا پردہ چاک ہو گیا۔ ایسے ہی ایک تجربہ سے سیّد احمد خان بھی گزرے تھے۔[2]، یورپی لٹریچر کے مطالعے سے اقبال پر یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ یورپی اقوام نیشنلزم کی بنیاد پر ملتِ اسلامیہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔[3] یہ شواہد اقبال کے فکری انقلاب کےلیے کافی تھے۔ اسلامی رجحان پہلے سے موجود تھا، چنانچہ محدود وطنی قومیت کو ترک کرکے وسیع تر اسلامی قومیت کی طرف آگئے۔ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے دسمبر ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ ایک شاخ لندن میں قائم کی گئی۔ اقبال اس کی مجلس ِ عاملہ کے رکن بنے، یہ شعر اسی دور کا ہے۔ ؎
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصارِ ملّت کی اتحادِ وطن نہیں ہے


اقبال کی فکری تبدیلی 1907ء تک مکمل ہوچکی تھی۔ انہوں نے زندگی بھر کا منشور مرتب کرلیا، امّتِ مسلمہ خوار و زبوں اور چیونٹیوں کی طرح کمزور تھی، اقبال نے اسے کامیابی کی نوید سنائی، اپنی مفکرانہ شاعری سے اسے بیدار کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ ؎
سفینۂ برگِ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشا کش، مگر یہ دریا سے پار ہو گا
میں ظلمتِ شب میں لیکے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

1907ء سے 1938ء تک اقبال متواتر اسلامی قومیّت کے تصور کو اجاگر کرتے رہے۔ 1911ء میں خطبہ علی گڑھ میں وضاحت کی کہ مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق ہے۔ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا انحصار نہ زبان پر ہے، نہ وطن پر ہے اورنہ اغراضِ اقتصادی پر۔ ہم اس برادری میں جو جنابِ رسالت مآب (ﷺ) نے قائم کی تھی، اس لیے شریک ہیں کہ ہمارے عقائد کا سرچشمہ ایک ہے اور جو تاریخی روایات ہمیں ترکے میں ملی ہیں وہ ہم سب کےلیے یکساں ہیں۔[4] اقبال نے مسلمانوں کے لیے قیدِ مقامی کو تباہی قرار دیا، وطن کے سیاسی مفہوم کو جدید دور کا خدا کہا اور وضاحت کی کہ نیشنلزم سے قومیتِ اسلام کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ مسلمانوں کی طاقت توحید ہے نہ کہ عصرِ حاضر کے تراشیدہ بت، آگے بڑھنے کے لیے بتوں کو پاش پاش کر دینا چاہیے۔ ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے۔[5]


وطنی قوم پرستی (Indian Nationalism) کے دور، 1904ء میں، اقبال نے ہمارا دیس، لکھی تھی جس کا عنوان بعد میں ترانہء ہندی کر دیا مطلع یہ ہے۔ ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

فکری تبدیلی (conversion) کے بعد ترانۂ ملی لکھا جس کا مطلع ہے۔ ؎
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

قیدِ مقامی سے نکل کر آفاقی ملتِ اسلامیہ کی باز یافت اقبال کا مقصد ہمیشہ رہا۔ ؎
تو ابھی رہ گزر میں ہے قیدِ مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لیے۔[6]

جوابِ شکوہ (1912ء) میں پوری وضاحت کے ساتھ ، اسلام ہی کو اسلامی قومیت کا محور قرار دیا۔ ؎
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں۔[7]


اسلامی قومیت، اسلامی نظامِ حکمرانی، اسلامی نشاۃِ ثانیہ اور اسلامی اتحاد ناگزیر طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور پورے اسلام ہی میں اس کا ہر پہلو پوری معنویت کا حامل بنتا ہے۔ اسلامی قومیت کے تصور سے اقبال کے دو خواب وابستہ ہیں۔ عالمی سطح پر معمارِ حرم کی تعمیرِ نو کے بعد اسلامی اتحاد اور ایک جہانِ نو کی تخلیق۔ برصغیر کی سطح پر اسلامی قومیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہندو مسلمان ایک قوم نہیں ہیں۔ مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں۔ ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے۔ دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان ہیں۔ یہ دو قومی نظریہ ہے۔ اسلامی قومیت یا برصغیر کی سطح پر دو قومی نظریہ، الگ مسلم قوم کے لئے الگ مسلم ریاست کا متقاضی تھا، گویا پاکستان اقبال کا پہلا خواب تھا جو پورا ہو گیا۔ رموزِ بیخودی (1918ء) میں ملتِ اسلامیہ کی انفرادیت پوری طرح اجاگر ہوئی ہے، اس کی تشکیل دو عناصر سے ہوئی، توحید اور پیغمبر آخر و اعظم (ﷺ) کی نبوت و امت کی تشکیل کسی نسل اور کسی وطن پر بھی منحصر نہیں ہے، نسب کا تعلق تن سے ہے اور تن فانی ہے، اسی لئے نسب پر نازاں ہونا نادانی ہے۔ ؎
بر نسب نازاں شدن نادانی است
حکمِ او اندر تن و تن فانی است۔[8]

تہذیبِ حاضر کے تراشیدہ بتوں میں سیکولر ازم، کیپیٹل ازم، سوشلزم، لبرلزم وغیرہ شامل ہیں، ان میں نیشنلزم سب سے بڑا بُت ہے، اس بُت کو توڑنے کے لئے اقبال نے، مثنوی میں دو پورے ابواب شامل کئے ہیں، ایک کا موضوع یہ ہے کہ چونکہ ملتِ اسلامیہ کی اساس توحید و رسالت ہے، اس لئے اس کی کوئی نہایت مکانی نہیں، دوسرے باب کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان قوم کی اساس وطن نہیں ہے، خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں اقبال نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں اور شمال مغربی ہندوستان میں اکثریت میں ہیں لہٰذا سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان پر مشتمل الگ مسلم ریاست کا قیام ان کا مقدر ہے، یہ پاکستان کا تصور تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت میں اقبال نے پیش کیا، اقبال کے خطوط جناح کے نام (1936ءسے 1937ء) بھی تصورِ پاکستان کی اہم دستاویز ہیں۔ ان خطوط میں علامہ اقبال نے ہندی مسلمانوں کے قائد اعظم کی سیاسی و فکری رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ اسلامی قومیت اور اسلامی نشاۃِ ثانیہ کے شعور کو اپنی مؤثر شاعری کے ذریعہ اقبال نے مسلمانوں کے دل دماغ میں اتار دیا تھا، ایک منزل کا تعین بھی کر دیا تھا۔

مسلمانوں کو منظم کر کے ایک الگ مسلم ریاست کے حصول کی جدوجہد کے لیے کسی ایسے قائد کی ضرورت تھی، جو نہ بدعنوان ہو اور نہ جسے کوئی خرید سکے، نیز وہ بے لوث اور باصلاحیت ہو، اس ضمن میں جس عظیم قائد پر علامہ اقبال نے پورا اعتماد کیا، وہ محمد علی جناح تھے، محمد علی جناح کے سیاسی نظریے کی تبدیلی (Conversion) بھی بہت اہم واقع ہے، ہندی قومیت سے اسلامی قومیت اور متحدہ ہندوستان سے الگ مسلم ریاست تک محمد علی جناح کیسے پہنچے، اس کا مطالعہ قیام پاکستان کا پس منظر سمجھنے کےلئے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ کیا وہ تھیو کریسی پر مبنی ریاست کے حق میں تھے؟ یا سیکولر نظام کے طلب گار تھے؟ اگر ان کا مقصد واقعتاً اسلامی اصولوں (Islamic Ideals) پر مبنی نظام حکمرانی کا قیام تھا تو یہ اصول کیا تھے؟ اور ان تک قائداعظم کیسے پہنچے تھے؟ بدلی ہوئی سیاسی فکر کے بعد علامہ اقبال اور قائداعظم کی نظریاتی مطابقت کہاں تک تھی؟ اور اس نظریاتی مطابقت کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

اکتوبر 1906ء میں آغا خان کی قیادت میں مسلم اکابرین کا ایک وفد وائسرائے سے ملا اور مسلمانوں کے لئے علیحدہ حلقہ انتخاب بنائے جانے کی بات کی، محمد علی جناح نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔ ان کا موقف تھا کہ کانگریس مسلمانوں کی کم نمائندگی نہیں کرتی۔ 27 دسمبر 1906ء کو آل انڈیا کانگریس کا سالانہ اجلاس کلکتہ میں ہوا، محمد علی جناح نے اس میں شرکت کی۔ بقول جسونت سنگھ، جناح کو 1906ء میں ایک ابھرتے نوجوان وکیل اور ایک ہونہار سیاست دان کے روپ میں دیکھا گیا-وہ اپنے بل بوتےپر تیزی سے آگے بڑھتے رہے۔[9] جناح پورے کانگریسی اور پکے نیشنلسٹ تھے، تاہم مسلمان تھے اور مسلمانوں کے حقوق کے پاسدار بھی تھے، کانگریس کے مذکورہ اجلاس میں ان کا پیش کردہ وقف علی الاولاد (فلاحی مقاصدکے لئے وقف کی جانے والی جائیداد اور وراثت کا مسلم قانون) کانگریس نے منظور کر لیا۔ جناح کا کہنا تھا کہ کانگریس کے پلیٹ فارم پر ہندو اور مسلمان برابر ہیں، تین دن بعد 30 دسمبر کو، ڈھاکہ میں مسلم لیگ قائم ہوئی۔

اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے والے محمد علی جناح 1913ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے 1916ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین لکھنو سمجھوتا کرایا، جس میں جداگانہ انتخابات کا اصول طے ہو گیا۔ جناح کو لیگ کا صدر بنایا گیا، جس کا کانگریس نے خیر مقدم کیا۔ گھوکھلے اور سر وجنی نائڈو نے انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا اور اس خطاب کو خوب شہرت ملی، محمد علی جناح انڈین نیشنل ازم کے بدستور حامی تھے اور 1936ء کے اوائل تک نیشنلسٹ رہے۔ مسلمانوں کے لئے قوم (Nation) کی اصطلاح پہلی مرتبہ 12 اپریل 1936ء کو استعمال کی، محمد علی جناح کی نظریاتی تبدیلی بتدریج ہوئی اس دوران ہندو ذہنیت ان پر پوری طرح آشکار ہو گئی تھی، چنانچہ انڈین نیشنل ازم کا نظریہ ترک کرتے گئے اور دو قومی نظریہ پوری طرح اختیار کر لیا- یہ تبدیلی 1938ء تک مکمل ہو چکی تھی [10]، جناح کے نام اقبال نے خطوط اسی دوران لکھے، 21 اپریل 1938ء کے اپنے تعزیتی بیان میں قائداعظم نے کہا کہ میرے لئے اقبال ایک دوست تھے، فلسفی اور راہنما بھی۔[11]

محمد علی جناح کی نظریاتی تبدیلی تین اہم مراحل سے گزر کر پایہ تکمیل تک پہنچی:
1۔ نہرو رپورٹ
2۔ پہلی اور دوسری گول میز کانفرنس
3۔ 1936-1937ء کے صوبائی انتخابات اور گانگریسی حکومتیں

1916ء کے لکھنو سمجھوتے کو 1928ء کی نہرو رپورٹ (ہندوستان کا دستوری خاکہ) میں مسترد کر دیا گیا، یہ صریحاً بد عہدی تھی، جسونت سنگھ نے کے ایم منشی کا، لکھنو سمجھوتے سے متعلق ایک اقتباس درج کیا ہے کہ جناح اس وقت ایک طرح سے کانگریس اور لیگ دونوں پر حاوی تھے، انہوں نے ہندوستان کے آئین کا مسودہ تیار کرنے اور کانگریس اور لیگ دونوں کے اجلاسوں میں اسے منظور کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاریخی لکھنو معاہدہ اس آئین کا ایک لازمی جزو تھا، اس کے تحت لیگ کے زیر قیادت مسلمانوں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے ہندوؤں کا ساتھ دینے کا عہد کیا اور اس کے جواب میں کانگریس نے مسلمانوں کو علیحدہ حلقہ انتخاب کا تحفہ دیا، جس میں انہیں ان کی ددی قوت سے کہیں زیادہ وزن دیا گیا۔ [12] نہرو رپورٹ (ہندوستان کا دستوری خاکہ) 21 اگست 1928ء کو منظر عام پر آئی۔ بقول جسونت سنگھ کہ اس رپورٹ میں جس قومی حکومت کا تصور پیش کیا گیا تھا، وہ وحدانی تھی نہ کہ وفاقی،جس میں ضمنی اختیارات بھی مرکز ی حکومت کو دے دیے گئے تھے، فرقہ واریت کے تعلق سے اس رپورٹ میں علیحدہ حلقہ انتخاب اور اقلیتوں کو خصوصی رعایت دیئے جانے کو مسترد کیا گیا تھا۔[13]

محمد علی جناح نے گانگرس کے اصرار پر جداگانہ انتخاب کی جگہ مخلوط انتخاب سے اتفاق بعض شرائط کی بنیاد پر کیا تھا۔ اس وجہ سے لیگ تقسیم ہو گئی تھی۔ علامہ اقبال لیگ کے ساتھ تھے اور محمد علی جناح کے فیصلے پر تنقید کررہے تھے۔ نہرو رپورٹ منظوری کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں پیش ہوئی۔ مقابلے پر دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں اقبال کا کردار مرکزی تھا۔ نہرو رپورٹ میں مخلوط انتخاب شامل تھے، لیکن محمد علی جناح کی شرائط نظر انداز کردی گئیں۔ جناح کے نیشنلزم کا کچومر نکال دیا گیا۔ دوسری طرف مسلمان بھی ناراض تھے، جناح نے آخری چارہ کار کے طور پر، نہرو رپورٹ میں کچھ ترامیم پیش کیں۔ ان ترامیم کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ جمشید نصر وانجی، ایک پارسی رہنما، کانفرنس میں موجود تھے، انہوں نے جو روداد سنائی جسونت سنگھ نے اسے قلمبند کیا ہے کہ جناب جناح نے ایک خصوصی کمیٹی کے سامنے اپنی جماعت کے مطالبات پیش کیے، مگر کمیٹی نے انہیں مسترد کر دیا، جناب جناح اپنے ہوٹل واپس آئے، وہ آب دیدہ تھے، اگلی صبح تقریباً 08:30 بجے جناب جناح اور ان کے رفقاء دہلی واپس چلے گئے، میں رخصت کرنے سٹیشن گیا، انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اس وقت ان کے الفاظ تھے کہ اچھا تو جمشید، اب ہماری راہیں جدا ہو رہی ہیں۔ [14]

آل پارٹیز مسلم کانفرنس نے دس (10) مطالبات پر مشتمل قرارداد منظور کی، محمد علی جناح نے چار مطالبات کا مزید اضافہ کیا اور چودہ نکات پیش کردیے، جواہر لال نہرو نے انہیں بکواس کہا [15]،  لیگ کے دونوں حصے محمد علی جناح کی سربراہی میں متحد ہوگئے۔ محمد علی جناح نیشنلسٹ اور سیکولر اب بھی تھے، وہ اب بھی ہندوستان کو متحد رکھنے کے درپے تھے، جس کیلئے، ان کے نزدیک، یہ ضروری تھا کہ مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے، پہلی اور دوسری گول میز کانفرنس میں وہ اسی کے لئے کوشاں رہے، لیکن ناکام ہوئے، دراصل ہندی قوم پرستی (Indian Nationlism) ہندو قوم پرستی تھی اور اصلاً برہمن فکر تھی، جو ایک منظم اور متحد ہندو سماج کے قیام کے خواہشمند تھی، یہ دانا قوم محمد علی جناح کو نظر انداز کر کے اور ہیچ کر کے مسلمانوں کو اپنا طفیلی بنانے پر تلی ہوئی تھی اور یہی اس کی حماقت تھی، دوسری گول میز کانفرنس میں کانگرس بھی شریک ہوئی، اس میں شرکت کے لئے جاتے محمد علی جناح نے بمبئی میں مسلم سٹوڈنٹس یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ہندوستانی پہلے ہوں اور مسلمان بعد میں اور یہ کہ کوئی ہندوستانی مسلمانوں کے مفادات کو نظر انداز کر کے اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتا، مسلمانوں کو مضبوط کر کے، کار آمد شہری بنا کر اور ساتھ ملا کر ہی ملک کی خدمت کی جا سکتی ہے، اگر مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، انہیں ہندو برہمن کے جابرانہ تسلط میں دے دیا جائے تو یہ کوئی جمہوری حکومت نہیں ہو گی، ہندوؤں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، وہ انتہائی احمقانہ ہے، آپس کے اختلافات کا حل ضروری ہے۔

اختلافات دوسری گول میز کانفرنس میں بھی طے نہ ہوئے، ہندو مذہب اور کلچر کو سیاست میں شامل کرنے کا ذمہ دار جناح کے نزدیک گاندھی تھا، صوبائی کانگرسی حکومتوں سے ظاہر ہوگیا کہ پوری کانگرسی قیادت کا وطیرہ یہی ہے، اس ضمن میں اقبال کی یہ رباعی قابل توجہ ہے کہ ؎
نگہ دارد برہمن کارِ خود را
نمی گوید بہ کس اسرار خود را
بمن گوید کہ از تسبیح بگریز
بدوشِ خود برد زنار خود را۔ [17]

دوسری گول میز کانفرنس کے بعد محمد علی جناح کی جو ذہنی کیفیت تھی، اسے کئی برس بعد انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ میں نے مفاہمت کرنے کے لیے اس قدر مسلسل کام کیا کہ ایک اخبار نے لکھا کہ مسٹر جناح ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشش سے کبھی تھکتے نہیں، لیکن گول میز کانفرنس کے جلسوں میں ایسا دھچکا لگا، جو زندگی میں پہلے کبھی نہ لگا تھا، خطرے کے سامنے ہندو جذبہ، ہندو ذہن اور ہندو رویے نے مجھے اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ اتحاد کی کوئی امید نہیں، مجھے اپنے ملک کے بارے میں سخت مایوسی کا احساس ہوا، صورتحال بہت افسوس ناک تھی، مسلمانوں کا حال ایسا تھا، جیسے ہوا میں معلق ہوں، ان کی رہنمائی یا تو برطانوی حکومت کے کاسہ لیس کر رہے تھے یا کانگرس کے حاشیہ نشین، جب بھی مسلمانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی، ایک طرف ٹوڈیوں اور کاسہ لیسوں نے اور دوسری طرف کانگرس کیمپ میں موجود غداروں نے ان کوششوں پر پانی پھیر دیا، میں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ نہ تو میں ہندوستان کی کوئی مدد کر سکتا ہوں، نہ میں ہندو ذینیت کو بدل سکتا ہوں اور نہ ہی میں مسلمانوں کو یہ احساس دلا سکتا ہوں کہ وہ کس درجہ سنگین صورتحال سے دوچار ہیں، مجھے اس قدر مایوسی ہوئی اور میں اتنا آزردہ ہوا کہ میں نے لندن میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا- [18]

چار سال بعد محمد علی جناح، مسلمان اکابر کی ترغیب اور اپنی ذمہ داری کے احساس کے باعث واپس آئے اور مسلم لیگ کی صدارت سنبھال لی۔ 1935 میں جناح پرشاد، سمجھوتہ ہوگیا، لیکن ہندو مہاسبھا نے اُسے ناکام بنا دیا۔ 1937ء میں صوبائی کانگرسی حکومتیں قائم ہوئیں۔ واردھا تعلیم سکیم، بندے ماترم اور ہندو مسلم فسادات نے ہندو ذہنیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ جسونت سنگھ نے لکھا ہے کہ دو سالہ کانگرسی وزارتیں مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہ کر سکیں۔ یہ فسادات کانگرسی دور حکومت ہی میں ہوئے تھے۔ ان تمام باتوں نے ایک غیر مذہبی (secular) نقطہ نظر کے امکانات کو تقریباً نا ممکن ہی بنا ڈالا[19]، جسونت سنگھ نے ڈاکٹر زیدی کے اس مؤقف سے اتفاق کیا ہے کہ ان برسوں کے تجربات نے جناح کو عملی سیاست کے کئی سبب دیے، جو خالص نظری طریقوں سے حاصل نہیں کیے جاسکتے تھے۔ [20] انڈین نیشنلزم کے جو جراثیم، محمد علی جناح کی سوچ میں اب تک باقی تھے، کانگریسی تسلط نے ان کا کلیتاً خاتمہ کر دیا۔ چنانچہ جب اکتوبر 1939ء میں کانگرسی وزارتوں کا خاتمہ ہوا، تو محمد علی جناح کی ہدایت پر ہندوستان کے طول و عرض میں یومِ نجات منایا گیا۔

ہندی قومیت سے اسلامی قومیت (دو قومی نظریے) تک پہنچنے کے لئے محمد علی جناح نے کافی وقت لیا، البتہ قدم جما کر اور پورے یقین کے ساتھ آگے بڑھے، صوبائی انتخابات کے بعد بھی محمد علی جناح پکے نیشنلسٹ تھے، 21 مارچ 1937ء کو اپنے رفقاء سے کہا کہ ڈوبو یا تیرو، زندہ رہو یا مر جاؤ مگر ایک متحد قوم کی طرح رہو۔ محمد علی جناح اب تک نیشنلسٹ اور سیکولر تھے۔ 1936ء تا 1939ء نظریاتی تبدیلی بتدریج واقع ہوئی۔ ان کا نیشنلزم کا تجربہ پوری طرح ناکام ہو گیا، ان کے فکر و عمل میں تبدیلی کی یہ منفی بنیاد تھی۔ علامہ اقبال نے جداگانہ مسلم قومیت کا نظریہ1907ء میں اور الگ مسلم ریاست کا تصور 1930ء میں دیا تھا، قدرت نے محمد علی جناح کو اس راستے پر ڈال دیا، نظریاتی تبدیلی کی یہ مثبت بنیاد تھی، محمد علی جناح نے ہندو مسلم قوم کا نظریہ ترک کر کے دو قومی نظریہ اختیار کر لیا، اسلامی قومیت کے ساتھ وہ سیکولرازم چھوڑ کر اسلام کی طرف آگئے، وہ اسلام جو اقبال کے فہم کے مطابق تھا وہ اسلام جو نظامِ حکمرانی عطا کرتا ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔

انتخابات سے پہلے محمد علی جناح لاہور کے دورے پر آئے۔ یہ 29 اپریل 1936ء کا دن تھا، پہلے یونینسٹ لیڈر فضل حسین سے ملے اور ان سے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی بات کی۔ سر فضل حسین نے انکار کر دیا اور یہ اچھا ہوا۔ اس کے بعد اقبال کے پاس آئے ان سے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کے قیام کی درخواست کی۔ بیمار ہونے کے باوجود علامہ اقبال نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ پھر جناح اقبال خط و کتابت شروع ہوئی۔ جناح کا پہلا خط اقبال کے نام 23 مئی 1936ء کو آیا۔ اسی روز اقبال نے جواب لکھ بھیجا۔ یہ سلسلہ 10 نومبر 1937ء تک چلا۔ کچھ خطوط بعد میں علامہ اقبال کی طرف سے غلام رسول نے لکھے۔ افسوس ہے کہ قائداعظم کے خطوط دستیاب نہیں ہیں۔ اقبال کے خطوط قائداعظم نے 1943ء میں شائع کر دیے، یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، بالخصوص وہ خطوط جن میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں، ان کے خیالات کا واضح اور غیر مبہم اظہار ہے، ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر بعد میں ہندوستان کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انہی نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوا گر ہوئے، جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی 23 مارچ 1940 کی منظور کردہ قراردادِ لاہور ہے جو عام طور پر قراردادِ پاکستا ن کے نام سے موسوم ہے۔ [22]

بعض خطوط کے کچھ اقتباسات حسب ذیل ہیں،

20 مارچ 1937ء:

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیاء میں اسلام کی اخلاقی اورسیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے، اسی لئے میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنوینشن کو ایک مؤثر جواب دیا جائے، آپ جلد از جلد دہلی میں ایک آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کریں، جس میں شرکت کے لئے نئی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنماؤں کو بھی مدعو کریں، اس کنونشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیں کہ سیاسی مطمع نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں، یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے، اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔

28 مئی 1937ء:
اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لئے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہو جاتا ہے، لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں نا ممکن ہے، سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہو سکتا ہے، اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا متبادل (راستہ) صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے۔

21 جون 1937ء:
کمیونل ایوارڈ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو صرف تسلیم کرتا ہے، لیکن کسی قوم کے سیاسی وجود کا ایسا اعتراف جو اس کی اقتصادی پسماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کرتا ہو اور نہ کر سکے اس کے لئے بے سود ہے، کانگریس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کے (جداگانہ) سیاسی وجود سے ہی انکار کر دیا ہے، ہندوؤں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی مہاسبھا نے جسے ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ سمجھتا ہوں بار ہا اعلان کیا ہے کہ ہندوستان میں ایک متحدہ ہندو مسلم قوم کا وجود نا ممکن ہے، ان حالات کے پیش نظر حل یہ ہے کہ ہندوستان میں قیامِ امن کے لئے ملک کی از سرِ نو تقسیم کی جائے جس کی بنیاد نسلی، مذہبی اور لسانی اشتراک پر ہو، میرے خیال میں تو نئے دستور میں ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بیکار ہے، مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، صرف واحد راستہ ہے جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جا سکے گا، کیوں نہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے، جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود ارادی حاصل ہو۔[23]

سلینہ کریم کی تحقیق کے مطابق جناح نے جون 1938ء میں آخری مرتبہ Hindu Muslim Unity (بمعنی ہندو مسلم قومیت) کی اصطلاح استعمال کی۔ اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے 12 اپریل 1936ء کو پہلی دفعہ دو قوموں  کی ترکیب، مشروط طور پر استعمال کی، مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس، منعقدہ بمبئی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کو نہ صرف اپنے فرقے کی جانب سے فرض عائد ہوتا ہے بلکہ ملک کی طرف سے بھی کانگریس انہیں اپنی تنظیم میں شامل کرنا چاہتی ہے یا نہیں کرنا چاہتی، لیکن انہیں خود کو منظم کرنا چاہیے اور کانگریس کو مجبور کر دیں کہ وہ ان سے تعاون کی درخواست کرے، انہیں یقین ہے کہ مسلمان ایسی تنظیم کے ساتھ ہندوؤں کیساتھ تصفیہ کر سکیں گے، اگر شریکِ کارکی حیثیت سے نہیں تو دو قوموں کی حیثیت سے۔ [24] 25 دسمبر 1937ء کو اگرچہ فرقوں ہی کا ذکر کیا، لیکن آزادی، مساوات اور اخوت کی اقبال کی اصطلاحیں بھی استعمال کیں۔ انکا کہنا تھا کہ مسلم لیگ اور مسلمانانِ ہند مساوات، اخوت اور آزادی کے قائل ہیں، وہ اس ملک میں اپنے برادر فرقوں کے ساتھ تعاون کے لئے آمادہ ہیں، لیکن مساوات کی شرط پر، اطاعت کی شرط پر نہیں۔

یکم جنوری 1938ء کو خواتین کے جلسے سے قائداعظم نے خطاب کیا-اس خطاب میں فکرِ اقبال کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ قائد نے کہا کہ بہت سے لوگ ہمیں غلط سمجھتے ہیں، جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں بالخصوص ہمارے ہندو دوست، جب ہم کہتے ہیں یہ اسلام کا پرچم ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سیاست میں مذہب کو داخل کر رہے ہیں، ایک حقیقت جس پر ہمیں فخر ہے، اسلام ہمیں مکمل ضابطہ حیات عطا کرتا ہے، یہ صرف مذہب ہی نہیں ہے، بلکہ اس میں قوانین بھی ہیں، فلسفہ بھی اور سیاست بھی، در حقیقت اس میں وہ سبھی کچھ ہے، جس کا تعلق انسانی امور سے صبح سے رات تک ہوتا ہے، جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مطلب ہوتا ہے ایسا لفظ جو کل پر محیط ہو، ہمارا مطلب کسی کے خلاف کینہ نہیں ہوتا، اسلامی ضابطہ کی اساس یہ ہے کہ ہم حریت، مساوات اور اخوت کے قائل ہیں-[25] 12 اپریل1939ء کو علی گڑھ یونیورسٹی کے سٹاف سے قائداعظم کا خطاب ان کی مکمل نظریاتی تبدیل کا مظہر ہے، قائداعظم نے فرمایا کہ مجھے اس حقیقت سے کوئی دو رائے نہیں کہ مسلمان اور ہندو دو قومیں ہیں اور مسلمان اس وقت تک بحیثیت قوم نہیں رہ سکتے جب تک وہ قومی خودآگاہی اور قومی خودارادیت حاصل نہیں کر لیتے۔

اس کے بعد قائداعظم محمد علی جناح دو قومی نظریے کے زبردست وکیل بن گئے، اس ضمن میں، قراردادِ پاکستان کی منظوری سے پہلے، 22 مارچ 1940ء کو جو معرکہ آراء تقریر انہوں نے اقبال پارک لاہور میں کی، کہ ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور آپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے اور اگر ہم بر وقت اپنے تصورات پر نظر ثانی نہ کر سکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنار کر دے گا، ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے، نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں، دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں، جس کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے، یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں، ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا، اکثر ایسا ہوتا ہے ایک ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں، ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہو گا اور آخر کار وہ تانا بانا ہی تباہ ہو جائے گا، جو اس طرح کی ریاست کے لیے بنایا جائے گا۔ [27]

آخر میں علامہ اقبال اور قائداعظم کی حیثیات کے ضمن میں ایک وضاحتی شرح پیش کر دینا مناسب ہے کہ بانیانِ پاکستان سے مراد ہوتی ہے، اقبال اور قائد اعظم۔ نظریہ پاکستان اقبال کے علاوہ قائداعظم سے بھی بیان ہوتا ہے، علامہ اقبال کے نظریات اور قائداعظم کے ارشادات میں ہم آہنگی بھی ہے، مسلمان ایک الگ قوم ہیں، حاکم اعلیٰ خدا ہے، اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اسلام کے لیے الگ ملک کی ضرورت ہے، اسلام کے علاوہ کسی ازم کی ضرورت نہیں اور اسلام کا اپنا سیاسی اور معاشی نظام ہے، یہ سب ارشادات قائداعظم کے ہیں جو فکر اقبال سے مطابقت رکھتے ہیں، اقبال اور قائد اعظم دونوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے احیاء و فروغ کی بات کی ہے، علامہ اقبال اسلامی جمہوریت کے نقیب ہیں، قائداعظم کا ارشاد ہے کہ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی، اسلامی جمہوریت کی اصطلاح بھی بار بار استعمال کی ہے، دونوں نے غربت کے خاتمے پر زور دیا، دونوں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے خواہش مند تھے، اقبالنے رزقِ حلال پر اور قائداعظم نے بد عنوانی کے خاتمے پر زور دیا، دونوں مذہبی پیشوائیت (theocracy) کے مخالف تھے، اقبال اسلامی اتحاد کے داعی ہیں، قائد اعظم نے پاکستان کو اسلامی اتحاد کی کلید قرار دیا، آزادی، مساوات، اخوت اور عدل و انصاف کے تصورات اقبال نے پیش کیے، ان اقدار کی پاسداری ارشاداتِ قائد میں بھی جلوہ گر ہے۔

اس اشتراک و ہم آہنگی کے باوجود دونوں کی اپنی اپنی منفرد اور ممتاز حیثیت بھی ہے، یہ ادراک ضروری ہے تا کہ مغالطوں سے بچا جاسکے، اقبال بڑے مفکر اور بڑے شاعر تھے، انہوں نے اپنی مفکرانہ اور مؤثر شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ اقبال نظریہ پاکستان کے خالق ہیں، قائداعظم مدبّر اور عملی سیاست دان تھے، نظریہ پاکستان کے خواب کو تعبیر انہوں نے عطا کی، انہوں نے مسلمانوں کی عملی قیادت سنبھالی، مسلمانوں کو منظم کیا اور پاکستان کے لیے ایک زبردست تحریک برپا کی، اقبال اور قائداعظم نے اپنا اپنا کردار ادا کیا تو پاکستان قائم ہوا، جو فرق ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ جب نظریہ پاکستان کی بات ہوگی تو بنیادی حوالہ علامہ اقبال ہونگے، قیام ِ پاکستان کی بات ہوگی تو حقیقی حوالہ قائداعظم ہونگے، بانیٔ پاکستان، بصیغہ واحد، سے مراد فقط قائداعظم ہیں۔

اقبال اور قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) نے ایک دوسرے کے لئے جن آراء کا اظہار کیا، ان کا مطالعہ دلچسپ او ر کار آمد ہے، یہ مطالعہ عظیم رہنمائی اور مخلص قیادت کی توثیق بھی کرتا ہے، 1937ء کا واقعہ ہے، دانائے راز حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ کہنا ہے کہ جواہر لال نہرو اور میاں افتخار الدین ملاقات کے لئے میرے گھر حاضر ہوئے، ملاقات کے دوران میاں افتخار الدین نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے، مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں، اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہت اچھا نکلے گا، علامہ اقبال لیٹے ہوئے تھے، یہ بات سنتے ہی غصہ میں آ گئے اور انگریزی میں فرمانے لگے کہ اچھا تو چال یہ ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں، مَیں آپ کو بتلا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں، میں تو ان کا معمولی سپاہی ہوں۔

مارچ 1940ء میں،قراردادِ پاکستان کی منظوری کے چند روز بعد پنجاب یونیورسٹی ہال میں یومِ اقبال کی تقریب قائد اعظم کی صدارت میں ہوئی، خطبہ صدارت میں قائد نے کہا کہ گو میرے پاس سلطنت نہیں ہے، لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کرو نگا۔ اگلے برس یوم اقبال کی ایک اور تقریب کے خطبہ صدارت میں قائداعظم نے فرمایا کہ اقبال کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے، وہ بڑے ادیب ،بلند پایہ شاعر اور مفکر اعظم تھے، لیکن اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاست دان بھی تھے، اُنہوں نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے، جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا، مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے، کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا، مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے۔ 1944ء میں یومِ اقبال کے موقع پر، اپنے خطبہ صدارت کے آخر میں، قائد اعظم نے قیام ِ پاکستان کے مقصد کے ساتھ اقبال کے جملہ نظریات کو مربوط کردیا، یہ بڑی اہم بات ہے، قائداعظم نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، جن کی جھلک ان کے کلام میں موجود ہے، تاکہ ہم بالاآخر پاکستان حاصل کرکے انہی اصولوں کو اپنی مکمل طور پر خود مختار اور آزاد مملکت میں جاری و ساری کر سکیں۔

حوالہ جات:
[1](بانگِ درا)
[2]( الطاف حسین حالی نے لکھا ہے کہ سر سید نے ملکی معاملات میں ہندوؤں سے کبھی مقابرت کا خیال نہیں کیا۔ لیکن 1867 میں جبکہ شمال مغربی اضلاع کی اکثر ہندو سبھاؤں اور انجمنوں نے اردو زبان اور فارسی حرفوں کے برخلاف نہایت کوشش کی تھی، سرسید کی طبیعت ہندوؤں کی طرف سے کھٹک گئی تھی (حیاتِ جاوید، صفحہ 151)
[3]( جب یہ تقسیم ہو گئی تو اقبال نے کہا: حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز)
[4]( ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر- مقالاتِ اقبال)
[5](بانگِ درا)
[6](بالِ جبریل)
[7](بانگِ درا)
[8](رموزِ بیخودی)
[9]( جسونت سنگھ، جناح: اتحاد سے تقسیم تک، روپا پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2010، صفحہ 52)
[10]( سلینہ کریم، Secularism and Pakistan، پراماؤنٹ پبلشنگ انٹرپرائز، کراچی، صفحہ 20)
[11]( قائد اعظم: تقاریر و بیانات، جلد دوم، ترجمہ اقبال احمد صدیقی ، بزمِ اقبال، لاہور، صفحہ 229)
[12]( جناح: اتحاد سے تقسیم تک، صفحہ 83)
[13]( جناح: اتحاد سے تقسیم تک، صفحہ99-100)
[14]( جناح: اتحاد سے تقسیم تک، صفحہ 103)
[15]( احمد سعید، حصولِ پاکستان، المیزان، لاہور، ایڈیشن 2008، صفحہ 155)
[16]( Secularism and Pakistan، صفحات 13-14)
[17](ارمغانِ حجاز)
[18]( مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے خطاب مورخہ 5 فروری 1938-قائد اعظم؛ تقاریر و بیانات، صفحہ 214)
[19]( جناح: اتحاد سے تقسیم تک، صفحات 188)
[20]( جناح: اتحاد سے تقسیم تک، صفحات 160)
[21]( مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس بمقام نئی دلی، بحوالہ سیکولر جناح اینڈ پاکستان، صفحہ 27)
[22]( دیباچے اور اقتباسات کیلئے دیکھئے، اقبال کے خطوط جناح کے نام، ترتیب و ترجمہ محمد جہانگیر عالم، دائرہ معارف اقبال، فیصل آباد، 1995ء)
[23]( دیباچے اور اقتباسات کیلئے دیکھئے، اقبال کے خطوط جناح کے نام، ترتیب و ترجمہ محمد جہانگیر عالم، دائرہ معارف اقبال، فیصل آباد، 1995)
[24]( قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلددوم، صفحات 81، 192)
[25]( قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلددوم، صفحات 81، 192)
[26]( Secular Jinnah and Pakistanصفحہ 24)
[27]( قائد اعظم : تقاریر و بیانات، جلد دوم ، صفحہ 371)


خبر کا کوڈ: 692198

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/692198/اقبال-قائد-اور-تحریک-پاکستان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org