0
Monday 25 Dec 2017 13:19

امریکہ الجھن اور سرگردانی کا شکار کیوں؟

امریکہ الجھن اور سرگردانی کا شکار کیوں؟
تحریر: صدیقہ احمدی

خطے میں جنم لینے والی جدید صورتحال درحقیقت اس طاقت کی جنگ کا نتیجہ ہے جو ایک عرصے سے اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک اور امریکہ اور خطے میں اس کی اتحادی حکومتوں کے درمیان جاری ہے۔ یہ جنگ اور ٹکراو گذشتہ چالیس برس سے جاری ہے جو خاص طور پر گذشتہ ایک عشرے سے زیادہ پیچیدہ اور وسیع ہو چکی ہے۔ آج خطے میں ایران اور امریکہ کے درمیان ٹکراو صرف باتوں کی حد تک نہیں بلکہ عمل کے میدان میں داخل ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر جب تکفیری دہشت گروہ داعش آخری سانسیں لے رہا تھا امریکہ ایران کو خطے کیلئے خطرہ ثابت کرنے کی کوشش میں تھا اور ایران سے مقابلے کی باتیں کر رہا تھا۔ ایران فوبیا پر مبنی پالیسی خود امریکہ نے بھی اپنائی اور خطے میں اس کی پٹھو حکومتیں بھی اس پالیسی پر گامزن رہی ہیں۔

اگر آپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے قدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے چند گھنٹے بعد انجام پانے والی تقریر پر توجہ کریں تو کیا دیکھیں گے؟ ٹرمپ نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنے کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی ایران کے خلاف شدید موقف اختیار کرتے ہوئے کہا: "ایران سے جوہری معاہدہ مکمل طور پر تباہ کن معاہدہ تھا۔" ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا: "ایران کو ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی سے روکنے کیلئے میں نے حال ہی میں ایران سے جوہری معاہدہ نامی تباہ کن معاہدے کی توثیق کرنے سے ممانعت کی ہے۔ اس معاہدے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ہم نے انہیں 150 ارب ڈالر دیئے۔ لیکن اب یہاں کھڑے ہیں۔ ہم نے انہیں 1.8 ارب ڈالر نقد دیئے ہیں۔"

ٹرمپ کی جانب سے قدس شریف کے بارے میں اعلامیہ جاری کرنے کے فوراً بعد اس طرح کی باتیں کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ "سب کچھ ایران کے بارے میں ہے۔" ٹرمپ جواب سے بھاگنے کیلئے ایران پر حملہ ور ہوتا ہے اور امریکی صدر صبح شام ایران کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ کیوں؟ اس کا جوا پانے کیلئے مغربی ایشیا میں جنم لینے والی نئی تبدیلیوں پر غور کرنا ہو گا۔
خطے کی موجودہ صورتحال دو اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے: ایک امریکہ کی طاقت اور اثرورسوخ میں خاطرخواہ کمی اور دوسرا ایران کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافہ۔ بہت سے اسٹریٹجسٹ اس عقیدے کے حامل ہیں کہ امریکہ خطے میں ایران کے مقابلے میں بری طرح الجھاو اور کنفیوژن کا شکار ہو شکا ہے اور اسے مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر مائیکل یانگ "دی نیشنل انسٹی ٹیوٹ" کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھتے ہیں: "امریکہ خطے میں ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی قسم کی اسٹریٹجی سے بے بہرہ ہے۔"

اسی بارے میں جارج فریڈمین اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ عراق میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک کے باعث تباہ حال ہو گیا ہے اور اس تحریک کے باعث خطے کی سیاسی مساواتیں امریکہ کے نقصان جبکہ ایران کے فائدے میں تبدیل ہو چکی ہیں، لکھتے ہیں: "امریکہ ابھی تک خود کو جدید حقائق (خطے میں مسلسل ناکامیاں) سے ہم آہنگ نہیں کر پایا۔ امریکی پالیسیاں داعش کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنیں اور داعش سے مقابلے نے بذات خود ایران پر خطے کے دروازے کھول دیئے۔ واشنگٹن ایران کی جوہری توانائیوں سے الجھ پڑا اور اس موضوع کے بارے میں حساسیت دکھائی لیکن اس حقیقت سے غافل ہو گیا کہ ایران کی معمولی صلاحیتیں اور اس کا سیاسی اثرورسوخ (اس ملک کی جوہری صلاحیت) سے زیادہ موثر ہے۔ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ خطے میں امریکی دلچسپی کے امور کون سے ہیں اور ان کیلئے کس قسم کے اخراجات درکار ہیں۔"

اسی طرح سیاسی ماہرین کے درمیان یہ موضوع زیر بحث ہے کہ خطے میں موجود آرڈر کی شکل اور نوعیت تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ سینٹ انتھونی کالج کے سابق اعلی سطحی رکن شرمین نروانی نے حال ہی میں "مشرق وسطی میں قیام امن اب امریکہ کے ہاتھ میں نہیں" کے عنوان سے ایک کالم شائع کیا ہے جس میں کہا ہے: "اب جبکہ 2017ء کا سال ختم ہونے والا ہے شام جنگ میں شریک ممالک اس ملک میں جدید آرڈر کے قیام کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔ لیکن امریکہ کا ان میں کوئی مقام نہیں۔ اس وقت داعش شام میں تقریباً مکمل طور پر شکست کھا چکی ہے اور شام آرمی اور اس کی اتحادی قوتیں دیگر دہشت گرد گروہوں سے بھی قبضہ چھڑوانے میں مصروف ہیں۔ ایرانی، روسی اور ترک شام میں امن کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔"

شرمین نروانی مزید لکھتے ہیں: "واشنگٹن 2015ء میں شام جنگ میں روسی فضائیہ کی آمد کے بعد فوجی جوا ہار گیا۔ روس نے اپنی ایئرفورس کے ذریعے شام میں جنگ کا پانسہ مکمل طور پر پلٹ دیا اور بین الاقوامی ماحول کو بھی صدر بشار اسد کے حق میں تبدیل کر ڈالا۔ اس کے بعد امریکہ نے جنیوا میں امن مذاکرات کا سہارا لیا تاکہ اس طرح شاید شام کے سیاسی میدان سے صدر بشار اسد کو نکال باہر کرنے اور امن معاہدے کے حصول میں کامیاب ہو سکے۔ لیکن آج دو سال گزر جانے کے باوجود حالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں اور اس وقت ایرانی، ترک اور روسی شام میں قیام امن کی کوششوں کی سربراہی کرنے میں مصروف ہیں۔ شام کے بارے میں امن مذاکرات جنیوا کی بجائے آستانہ اور سوچی میں منعقد ہو رہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کوئی اس بات سے متعجب نہیں ہو رہا کہ شام کی حالیہ سیاسی تبدیلیوں میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں۔ کہنا چاہئے کہ شام سے متعلق امریکہ کی تمام کوششیں تعطل کا شکار ہو چکی ہیں اور اس وقت نئی علاقائی اور عالمی طاقتیں میدان میں اتر چکی ہیں۔ امریکہ شام میں فوجی جوا ہار چکا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت بھی امریکہ شام میں اپنی سفارتی حیثیت کھوتا جا رہا ہے۔"

لہذا جس طرح مغربی تجزیہ کاروں اور اسٹریٹجسٹس کے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے امریکہ مغربی ایشیائی خطے کی سیاست میں اپنا کردار مکمل طور پر کھو چکا ہے۔ کم از کم یہ کہ اس کا کردار ماضی کی طرح نہیں رہا اور اب خطے کے سیاسی میدان کے اصل کھلاڑی امریکہ کی بجائے کچھ دیگر ممالک تصور کئے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ دیگر کھلاڑی کون سے ہیں؟ مغربی ایشیا میں جاری سیاسی تبدیلیوں کا دوسرا رخ ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر استوار ہے۔ اس خطے میں موجود بحرانوں اور مسائل کے حل کیلئے ایران کی موجودگی اس بات کا باعث بنی ہے کہ کئی مغربی اسٹریٹجسٹ اسے "ایران کے ظہور کا لمحہ" قرار دیں۔ ان کی نظر میں خطے کی صورتحال ناگزیر طور پر آگے بڑھ رہی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ایران کو پیچھے ہٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ مغربی میڈیا کی جانب سے ایران فوبیا پر مبنی پروپیگنڈے سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح طور پر نظر آتی ہے کہ امریکی حکام کے پاس ایران کو خطے کی طاقت کے طور پر قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔

جارج فریڈمین نے ہفنگٹن پوسٹ میں ایک کالم شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے "ایران مشرق وسطی کو نئی شکل دے رہا ہے"۔ اس کالم میں جارج فریڈمین لکھتا ہے: "ایران عراق جنگ ایران کی جانب سے اپنی علاقائی طاقت کو وسعت دینے میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ یہ جنگ ختم ہو گئی لیکن اسٹریٹجک اعتبار سے اس نے اپنی طاقت کو مزید پھیلانے پر مبنی ایران کی امید روک دی۔ داعش کے خلاف جنگ نے، خاص طور پر عراق میں یہ دروازہ دوبارہ کھول دیا۔" جارج فریڈمین خطے میں جدید آرڈر تشکیل دینے میں ایران کی صلاحیت کے بارے میں لکھتے ہیں: "مشرق وسطی ایک نئی اور مکمل طور پر مختلف شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک لمحے کیلئے ایران نے اپنی آزادی دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ لیکن ابھی اسے اپنی طاقت پھیلانے میں طویل راہ درپیش ہے۔ وہ امریکہ کے علاوہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ممکنہ اتحاد سے بھی روبرو ہے۔ ہر کوئی مخصوص کمزوریوں کا حامل ہے لیکن ایران یہ کام کر کے دکھائے گا اور وہ مل کر درپیش مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور قوی امکان ہے کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر سے بھی غافل نہ ہوں۔ وہ داعش کے لبادے میں شکست کھا چکے ہیں لیکن وہ صرف انتشار کا شکار ہوئے ہیں اور انہوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ ایران انکا دشمن ہے، لہذا ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔"
خبر کا کوڈ : 692355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش