1
0
Wednesday 27 Dec 2017 09:26

گلگت بلتستان مسئلہ کیا ہے؟؟؟

گلگت بلتستان مسئلہ کیا ہے؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔ یہ خطہ کئی حوالوں سے اہم ہے، دنیا کی کئی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں یہاں پر واقع ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو بھی یہیں پر ہے۔ جغرافیائی حوالے سے بھی یہ انتہائی اہم خطہ چین، کشمیر اور افغانستان سے ملا ہوا ہے۔ آج کل سی پیک کا بڑا شور ہے، جسے خطے میں ایک گیم چینجر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تو جناب کے پی کے سے لیکر چائنہ کے بارڈ تک سارے کا سارا گلگت بلتستان ہی ہے۔ سی پیک کے لئے یہ خطہ شہ رگ حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ روایتی طور پر یہاں کے لوگ مہمان نواز، شریف النفس، دیندار، اپنی تہذیب پر فخر کرنے والے اور محب وطن ہیں۔ پاکستان کے لئے ان کی قربانیاں کسی بھی خطے کے پاکستانیوں سے بلحاظ تناسب زیادہ ہیں۔ بیس لاکھ کی آبادی ہے اور پوری ایک رجمنٹ وطن کی حفاظت کے لئے آمادہ و تیار ہے، بلکہ پاکستان کے مشکل ترین محاذ جیسے سیاچین، کارگل اور دیگر پہاڑی علاقوں کے محاذ پر وطن کے یہ بیٹے چھاتیاں تان کر کھڑے ہیں اور دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے مسائل کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے، کچھ مسائل کا تعلق مالی مفادات سے ہے، جیسے کچھ عرصہ پہلے جب آٹے پر سبسٹڈی ختم کی گئی تو پورے علاقے  میں کھلبلی مچ گئی، سارے لوگ سڑکوں پر نکل آئے کہ ہم اسے ختم نہیں کرنے دیں گے۔ ایک بھرپور احتجاج ہوا، جس کے نتیجے میں حکومت اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوئی۔ پی پی گورنمنٹ نے ایک ٹیکس کا قانون بنایا، جس میں زیادہ تر غیر ملکی سرمایہ کار اور مقامی ٹھیکہ دار پر تھا، کچھ ٹیکس عام تاجروں پر بھی تھے، اس مسئلے کو بنیاد بنا کر پچھلے کئی دنوں سے ایک عوامی احتجاج جاری ہے۔ یہ وقتی مسئلہ ہے اور جلد حل ہو جائے گا۔ میرے خیال میں اس طرح کے انتظامی مسائل ہر جگہ پیش آتے رہتے ہیں، عوام احتجاج کرتے رہتے ہیں اور حکومتیں بھی اپنے موقف کو کبھی مکمل اور کبھی معمولی رد و بدل سے تبدیل کر لیتی ہیں۔

اصل مسئلہ گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت کے تعین کا ہے، جس کی وجہ سے مقامی آبادی میں احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اس احساس محرومی کو مختلف گروہ اپنے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کو کشمیر کے مسئلہ کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے پاس بہت ہی محدود آپشنز رہ جاتے ہیں۔ محترم سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کے ذمہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین کرنا اور انہیں قومی اسمبلی، سینیٹ اور دیگر وفاقی اداروں میں نمائندگی دینا تھا۔ کئی بار یہ خبریں آئیں کہ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ  تیار کر لی ہے، اصلاحات کا بل تیار ہے، مگر ہر بار کچھ ایسی قوتیں حرکت میں آجاتی ہیں، جن کی وجہ سے ملک ستر سال سے نقصان اٹھا رہا ہے اور بل کی خبر بھی منظر سے ہٹ جاتی ہے۔ پورے گلگت بلتستان کی آبادی بیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ موجودہ حلقہ بندی نظام کے تحت پورے بلتستان میں قومی اسمبلی کے تین حلقے بنیں گے۔ اسی طرح فاٹا کی طرز پر سینیٹ میں بھی مناسبت نمائندگی دے دی جائے، تاکہ اس مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اس کے بعد وہاں کی حکومت جو مرضی کرے، وہ ان کی حکومت ہوگی اور جو ٹیکس پاکستان کے دیگر شہروں کے لوگ دیں گے، وہ اس علاقے کے لوگ بھی دیں گے۔ گلگت بلتستان کے مسئلہ کو کشمیر کے مسئلے کے ساتھ چمٹائے رکھنا اب سوائے حماقت کے کچھ نہیں، کیونکہ ستر سال میں اس علاقے کے لوگوں نے بہت قربانی دے دی ہے، اب انہیں حقوق دینا ہوں گے۔

اس مسئلے کا دوسرا حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے کشمیر کی طرز پر خود مختاری دے دی جائے، ان کا اپنا نظام ہو۔ وفاق ان امور کا نگران ہو، جس طرح آزاد کشمیر میں ہے۔ خطے کے وسائل خطے کی عوام کے حوالے کر دیئے جائیں، وہ اپنے مسائل خود حل کریں۔ میرا خیال ہے یہ ان لوگوں سے کئے ہمارے وعدوں کی توہین ہوگی، جو ستر سال سے پاکستان سے الحاق کے لئے تحریک چلا رہے ہیں اور شائد یہ دنیا میں واحد خطہ ہو، جہاں کے لوگوں نے وطن عزیز میں شمولیت کی  تحریک چلائی ہو۔ 1948ء سے لیکر آج تک ہر جنگ میں پاکستان کی اپنے خون سے حفاظت کرنے والے لوگوں کو مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بنانے کا وقت آگیا ہے۔ بین الاقومی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطٰی ایک بارود کے ڈھیر کی شکل اختیار کرچکا ہے، جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ٹرمپ جیسے رہنما آچکے ہیں، جن کے ناعاقبت اندیش فیصلوں نے دنیا کو تقسیم کر دیا ہے۔ گلگت بلتستان کے پاس ہی افغانستان میں داعش کی بڑی تعداد جمع ہوچکی ہے، جس کا ہدف افغانستان نہیں پاکستان ہے، کیونکہ جن لوگوں نے داعش بنائی ہے، پورا افغانستان ان کے قبضے میں ہے۔ بین الاقوامی استعمار اب پاکستان کو سبق سکھانا چاہتا ہے، ہمارا ایٹمی طاقت ہونا ان کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ سی پیک کے خلاف امریکی و ہندوستانی سازشیں اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے جب برہان الدین وانی کو شہید کیا گیا، کشمیر میں ایک بہت بڑی عوامی تحریک نے جنم لیا، یہ تحریک کئی ماہ تک جاری رہی، جس کے جواب میں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا، اب ہم بلوچستان اور گلگت بلتستان کی بات کریں گے، یہ ایک پالیسی شفٹ تھا۔ اس کے بعد دیکھ لیں، جنیوا سے لندن کی بسوں تک آزاد بلوچستان کے پینا فلیکس لگائے گئے۔ اتنی بڑی فنڈنگ صرف اور صرف پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے کی گئی۔ ان حالات میں عقل و حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جلد از جلد ان علاقوں کی آئینی پوزیشن کو واضح کیا جائے۔ جو جماعتیں اس تحریک کو لیڈ کر رہی ہیں، وہ عقل و شعور سے اس تحریک کی رہنمائی کریں، جس سے اپنے مقاصد بھی حاصل ہو جائیں اور کوئی بڑا نقصان نہ ہو۔ آپ دیکھ لیں کہ سندھ اور پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں ہڑتال نہیں ہوتی اور نہ ہی یہاں کی سیاسی جماعتیں ہڑتال کی کال دیتی ہیں۔ یہی جماعتیں تھیں، نوے کی دہائی میں ہر دوسرے دن ہڑتال کی کال آجاتی تھی۔ اب ان کو بھی پتہ ہے کہ ان کی ہر روز کی ہڑتال کی کالوں نے تاجر طبقہ کو ان سے دور کر دیا ہے اور لوگ بھی اس سے بیزار ہوگئے ہیں۔ آپ پر عوام نے اعتماد کا اظہار کیا ہے تو آپ اسے عقل و شعور کے ساتھ آگے بڑھائیں، یہ نہ ہو کہ شرپسند عناصر اسے ہائی جیک کرکے کسی بڑے سانحے کی طرف لے جائیں اور حکومت بھی عوام کے پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ہر جگہ پر سہولت فراہم کرے۔
خبر کا کوڈ : 692815
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Saqib hassan
Pakistan
You are right I agree with you sir..
ہماری پیشکش