0
Wednesday 27 Dec 2017 17:40

معصومہ اہل بیتؑ

معصومہ اہل بیتؑ
تحریر: سید قمر عباس حسینی حسین آبادی

حضرت امام موسٰی کاظم کی صاحبزادیوں میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مرتبہ نہایت بلند ہے۔ آپ کو "معصومۂ'' اور ''کریمہ اہل بیت'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ یکم ذی القعدہ سن ١٧٣ھ،ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور آپ نے 28 سال کی عمر میں ربیع الثانی کی دس یا بارہ تاریخ کو سن 201 ھ.ق میں شہر قم میں شہادت پائی۔ آپ کے عالی ترین فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ آپ خانہ وحی و رسالت سے منسوب ہیں۔ آپ کے القابات (بنت رسول اللہ، بنت ولی اللہ، اخت ولی اللہ اور عمة ولی اللہ) سرچشمہ فضائل و کمالات ہیں۔ آپ نے حضرت امام موسٰی کاظم اور حضرت علی ابن موسی الرضا کے سائے میں زندگی بسر کی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ مکتب ائمہ اطہار کی تربیت یافتہ ہیں۔ حضرت امام رضا نے آپ کی شان میں فرمایا: "من زار المعصومة بقم کمن زارنی۔"جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی۔
وہ ہستیاں جو شفاعت کرسکتی ہیں، ان میں سے ایک نام فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا بھی ہے۔ جیسا کہ امام صادق کا فرمان ہے کہ "تدخل بشفاعتھا شیعتی الجنة باجمعہم": ان کی شفاعت (معصومہ) سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہونگے۔ اسی لئے امام کے حکم سے آپ کی زیارت میں ہم کہتے ہیں یافاطمة اشفعی لی فی الجنة یعنی اے فاطمہ معصومہ! جنت میں میری شفاعت فرما۔ آپ کے زیارت نامہ میں دوسری جگہ آیا ہے کہ فانّ لک عنداللہ شانا من الشان یہ جو کہ ہم آپ سے شفاعت طلب کر رہے ہیں، وہ اس لئے ہے کہ آپ کو خداوند عالم کے ہاں بلند اور عظیم مرتبہ و مقام حاصل ہے۔

آپکی زیارت کی فضلیت:
امام رضا فرماتے ہیں: من زارہا فلہ الجنة "جو فاطمہ معصومہ کی زیارت کرے، وہ جنت کا مستحق ہے۔"
امام جواد فرماتے ہیں: من زار قبر عمتی بقم فلہ الجنة"جو قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے، اس پر جنت واجب ہے۔"
امام رضا فرماتے ہیں: من زارہا عارفاً بحقہا فلہ الجنة "جو فاطمہ معصومہ کی قم میں معرفت کے ساتھ زیارت کرے، اس پر جنت واجب ہے۔"
سفر عشق:
کیا آج تک آپ نے حضرت امام موسٰی کاظم کی اس بہادر بیٹی کی علت شہادت کے متعلق سوچا ہے کہ جس نے اپنے بھائی علی ابن موسٰی الرضا کے شوق وصال میں دکھ درد کا لباس زیب تن فرما کر پہاڑوں اور بیابانوں کی کٹھن راہوں کو طے فرمایا۔؟ کیا آپ نے اس مظلومہ و معصومہ کی جدائی پر گریہ کیا ہے، جس کو اپنے والد گرامی امام موسٰی ابن جعفر کی طرف سے فداھا ابوھا کی لوح افتخار عطا ہوئی۔؟ 200 ھ ق میں مامون عباسی کے اصرار پر حضرت امام رضا ''مرو'' کی جانب سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ آپ اپنے اہلبیت اور احباب میں سے کسی کو بھی اپنے ساتھ لئے بغیر خراسان کی جانب روانہ ہوگئے۔ بھائی کی ہجرت کے ایک سال بعد حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی کے شوق دیدار میں بے تاب ہو کر اپنے کچھ بھائیوں اور ان کے بیٹوں کو لے کر خراسان کی طرف سفر کیا۔ آپ جس علاقے اور شہر میں بھی وارد ہوئیں، وہاں کے لوگوں نے آپ کا شاندار اور پرتپاک استقبال کیا۔ آپ بھی اپنی پھوپھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح مکّار حکمرانوں کے چہرے بے نقاب کرتی رہیں۔

جب حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا کاروان شہر ساوہ پہنچا تو دشمنانِ اہل بیت جن کی حمایت حکومت کے مامورین کر رہے تھے، انہوں نے آپ کا راستہ روک کر آپ کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کی۔ اس جنگ کے نتیجے میں آپ کے ساتھ آئے ہوئے تمام مرد درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو بھی زہر جفا دے کر مسموم کر دیا گیا۔ بہرحال اس خونچکاں اور جانکاہ حادثے کے شدت غم یا زہر جفا کی وجہ سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا مریض ہوگئیں۔ اس مرض کی سبب سے خراسان تک سفر جاری رکھنا آپ کے لئے ممکن نہ تھا، اس لئے آپ نے شہر قم میں ٹھہرنے کا ارداہ فرمایا۔ آپ نے پوچھا: اس جگہ (ساوہ) سے قم تک کا فاصلہ کتنے فرسخ ہے۔؟ جو فاصلہ بنتا تھا بتا دیا گیا۔ آپ نے فرمایا مجھے شہر قم لے چلو، کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے۔ شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ قم کے اشراف و اکابرین نے جب یہ خبر سنی تو آپ کے استقبال کے لئے قم سے باہر نکل آئے۔ اشعری خاندان کی بزرگ شخصیت موسٰی بن خزرج نے آپ کی سواری کی لگام تھامی، بہت سے افراد پیدل اور سواریوں کی صورت میں آپ کی سواری کے گرد چلتے رہے۔ تقریباً 23 ربیع الاول 201 ھ ق کو آپ شہر قم میں وارد ہوئیں۔ پھر اس مقام پر جسے آج ''میدان میر'' کہتے ہیں، خود موسٰی بن خزرج کے گھر کے سامنے آپ کی سواری رک گئی اور آپ کی میزبانی کا شرف بھی اسے نصیب ہوگیا۔ آپ نے صرف 17 دن قم المقدس میں زندگی گزاری۔ اس قلیل عرصے میں آپ راز و نیاز اور عبادت ِ پروردگار میں مشغول رہیں۔ آپ کی عبادت گاہ، مدرسہ ستیہ بنام ''بیت النّور'' آج بھی عاشقان اہل بیت کے لئے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

وفات یا شہادت؟
بالآخر دسویں ربیع الثانی ''بنا بر قول دیگر بارہویں ربیع الثانی'' 201 ھ ق کو اپنے بھائی کا دیدار کرنے سے پہلے عالم غربت میں شدید غم و اندوہ کے ساتھ اس دار فانی سے رخصت کر گئیں۔ یوں شیعیان آل محمدؐ نے ایک بار پھر صف ماتم بچھایا۔ اہل قم نے اس معظمہ خاتون کے بدن مطہر کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ اسی جگہ پر جہاں آپ دفن ہیں، لے آئے جسے اس وقت ''باغ بابلان'' کہتے تھے۔ جب قبر تیار ہوئی تو سب لوگ شش و پنچ میں مبتلا ہوئے کہ اس معصومہ کے جسد اطہر کو کون قبر میں اتارے۔ یکایک قبلہ کی طرف سے دو نقاب پوش سوار نمودار ہوئے جن میں سے ایک نے نماز پڑھائی اور ان میں سے دوسرا قبر میں داخل ہوا، ایک نے جسم مطہر کو ان کے حوالے کر دیا۔ یوں کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو سپرد خاک کیا گیا۔ مراسم تجہیز و تکفین ختم ہونے کے بعد وہ دو افراد کسی سے بات کئے بغیر واپس چلے گئے۔ بعید نہیں ہے کہ وہ دو بزرگوار حجت خدا، امام رضا اور امام جواد ہوں۔ شرعی دستور کے مطابق معصومہ کی تجہیز و تدفین معصوم کے ہاتھوں سے ہونی چاہیے تھی، کیونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو خود امیرالمومنین نے غسل و کفن دے کر دفن کیا تھا اور حضرت مریم کو حضرت عیسٰی نے بنفس نفیس غسل دیا تھا۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دفن کرنے کے بعد موسٰی بن خزرج نے کپڑوں کا سایہ آپ کی قبر مطہر پر بنایا تھا، یہاں تک کہ امام جواد کی بیٹی حضرت زینب نے 256 ھ ق میں پہلی بار آپ کی قبر شریف پر گنبد بنوایا۔ یوں آپ کی قبرِ مطہر عاشقانِ اہل بیت علہیم السلام اور ولایت و امامت کے ماننے والوں کے لئے دارالشفاء بن گئی۔
بہ جز  عشق دلبر نیست مارا
غم دل ہست و یاور نیست مارا
 بود این بارگاہ دختر اما
 نشان از قبر مادر نیست مارا


ریاض الانساب کے مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 160 پر مرحوم منصوری، جو کتاب الحیاة السیاسیہ کے مؤلف ہیں، سے روایت نقل کی ہے کہ جس زمانے میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے ہجرت کی، اس وقت اہل ساوہ خاندانِ نبوت کے سخت ترین دشمن تھے۔ جب حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا کاروان ساوہ پہنچا تو انہوں نے بھرپور حملہ کیا، یوں جنگ چھڑ گئی اور یہ جنگ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بھائیوں اور ان کے بیٹوں کی شہادت پر تمام ہوئی۔ حضرت معصومہ 23 عزیزانِ زہراء کے پارہ پارہ اجسام مطہر کو مشاہدہ کرنے کی وجہ سے سخت بیمار ہوگئیں اور اسی بیماری میں آپ شہید ہوئیں۔
قال رسول اللہ  ۖ : من مات علی حب آل محمد مات شہیدا۔ "پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں کہ جو بھی محبت آل محمد ۖپر مر جائے تو وہ شہید ہے۔"
الحیاة السیاسیہ الامام رضا کے مولف جعفر مرتضٰی عاملی ص428، قیام سادات علوی کے ص 161 اور 168 پر نقل کرتے ہیں کہ جناب ہارون ابن موسٰی ابن جعفر کا کاروان جب ساوہ پہنچ گیا تو دشمنوں نے آپ لوگوں پر اس وقت حملہ کیا، جب آپ لوگ کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپ کو 23 افراد کے ساتھ شہید کر دیا اور کارواں کے دوسرے افراد کو زخمی کر دیا۔ اسی اثناء میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے کھانے میں زہر ڈال دیا گیا۔ یوں ولایت امیرالمومنین کی مدافع، زہر جفا کے اثر سے مریض ہوئیں اور قم میں تشریف لانے کے 17 دن بعد شہید ہوگئیں۔ وسیلة المعصومین ص 68 میں میرزا ابو طالب نے بیان کیا ہے کہ اس جلیل القدر معظمہ کو ساوہ میں ایک ملعونہ عورت کی وساطت سے زہر دیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 692958
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش