0
Friday 29 Dec 2017 16:09

جمہوریت کا حسن

جمہوریت کا حسن
تحریر: ایس ایم شاہ

جمہوریت یعنی عوام کی حکومت عوام پر عوام کے ذریعے۔ یہی اس کی تعریف ہونے کے علاوہ سب سے بڑی خوبی بھی سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پر بادشاہت، عنانیت، ذاتی پسند یا ناپسند، ذاتی فائدے یا نقصان کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے عمومی فائدے کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ عوام ووٹنگ کے ذریعے اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجتی ہے، ان سے بہت ساری توقعات وابستہ رکھتی ہے، ان کے اچھے کاموں کی تعریف کرتی ہے، ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، ملت کی سربلندی کے لئے اچھے کام انجام دینے کی تلقین کرتی ہے، لیکن اگر وہی شخص عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے کو "انا ربکم الاعلی" سمجھنے لگ جائیں، ذاتیات اور تعصبات کو فوقیت دیں، ملت سے کئے وعدوں سے مکر جائیں، ملت کی مشکلات کے وقت اپنی موجودگی اور حمایت کے ذریعے انہیں حوصلہ دینے کی بجائے ان پر نہ ختم ہونے والا تنقید کا سلسلہ شروع کرے، انہیں مشکلات کے بھنور میں چھوڑ کر عیاشیاں کرتے پھریں، تب عوام مجبور ہوکر ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ عوام کے میدان عمل میں آنے کے بعد کوئی بھی طاقت ان کو روک نہیں سکتی، کیونکہ جمہوریت میں سب سے بڑی طاقت عوام ہی  ہوا کرتی ہے۔ جب تک بارہا مخالفتوں، جھوٹے وعدوں، بے بنیاد پروپیگنڈوں سے عوام کا جگر چھلنی نہیں ہوتا، ان کی زندگی اجیرن نہیں بن جاتی، ان کا مستقبل تاریک نہیں دکھائی دیتا، بہ الفاظ دیگر جب تک اپنے ووٹوں سے آگے گئے ایوان اقتدار پر براجماں افراد سے مکمل طور پر  مایوس نہیں ہو جاتی، تب تک عوام گھروں سے نہیں نکلتی ہے۔ جب عوام میدان عمل پر اتر آتی ہے تب عوامی سیلابی ریلا اتنا تیز اور خطرناک ہوتا ہے کہ پھر عیش و نوش میں محو عمل حکمرانوں کو مزید چوں و چراں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

گلگت بلتستان کی عوام عرصہ دراز سے ظلم کی چکی میں پستی آئی ہے، یہاں کی عوام جہاں بہت ہی شریف النفس، ملنسار، مہمان نواز، محب وطن، سادہ زیست، باوفا، باوقار،  ایثار کے جذبے سے سرشار، صبر کا پیکر، مذہبی رواداری کا نمونہ ہیں، وہاں یہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں خواہ وہ ملک کے اندر ہوں یا باہر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بھی ہے، پاکستان کے ساتھ وفاداری کی تو یہی انتہا ہے کہ 70 سال بیت جانے کے باوجود آج تک یہاں کی عوام نے نہ صرف مملکت خداداد کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی بلکہ ہر محاذ پر خواہ 1965ء کی جنگ ہو، 1971ء کا معرکہ ہو، 1999ء کی کارگل وار ہو یا "ضرب عضب" اور "ردالفساد" آپریشن، سب میں شجاعت حیدری کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی میدان سے شکست کھا کر واپس نہیں لوٹے، جس کی گواہی آج بھی یقیناً ہمارے محترم چیف آف آرمی سٹاف ضرور دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ہر وقت ہمارے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا گیا، ہماری وفاداری کو داغدار بنانے کے لئے مختلف لیبل لگا کر، مختلف ملکوں کا ایجنٹ قرار دیکر ہر ممکن کوشش جاری رکھی گئی، لیکن یہاں کی باغیرت اور باحمیت قوم ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیکر، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ان تمام بے بنیاد پروپیگنڈوں پر خط بطلان کھنچتے رہے۔ اب تو ان جھوٹے پروپیگنڈوں کی حد ہوگئی، جب عوامی ووٹ کے ذریعے ایوان میں پہنچنے والے وزیراعلٰی ہی اپنی بدزبانی کی انتہا کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جمہوری حدود میں رہتے ہوئے پرامن احتجاج کرنے والوں پر "را" کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا ساتھ ہی اپنی سابقہ روش پر چلتے ہوئے گلگت بلتستان کو الگ کرنے کے لئے دشمن کے آلہ کار بن کر اسے صرف سکردو کے ایک خاص مسلک کا معاملہ قرار دیا۔ جب گلگت بلتستان کی عوام نے اسے اپنا مشترکہ مسئلہ قرار دیکر آپ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تو اب میری نظر میں اتنا بڑا الزام لگانے کے بعد حفیظ الرحمن صاحب کو ایسے ایجنٹوں کا وزیراعلٰی بنے رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اسے کسی دوسرے صوبے میں پناہ لینی چاہیے۔

کسی بھی ملک کا یا صوبے کا سربراہ اگر اہم امور کے سلسلے میں بیرون ملک دوروں پر ہو تو  ملک کے اندر یا صوبے کے اندر معاملات گھمبیر ہونے کی صورت میں معاملے کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے فوری وطن واپس آجاتے ہیں اور داخلی مشکلات کو حل کرنے کے لئے دن رات ایک کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد وزیراعلٰی ملک کے اندر ہوتے ہوئے بھی  بالکل اس کے برعکس سمت حرکت کرتے ہیں۔ جب ان کی مسلسل غلطیوں اور عاقبت نااندیشیوں سے تنگ آکر عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوامی پنجے سے نجات پانے کے لئے فرار کا راستہ اپناتے ہیں۔ وزیراعلٰی صاحب پورا ہفتہ گلگت بلتستان سے باہر رہے۔ لاہور اور اس کے گرد و نواح میں اپنے آقاؤں سے ڈکٹیشن لینے اور شادی بیاہ کے پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے رہے اور خوبصورت محلوں میں بیٹھ کر چند کرائے کے اخبار نویسوں کو اعتماد میں لیکر بلند و بانگ بیانات اور بے بنیاد الزامات کے ذریعے "دل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے" کا سامان فراہم کرتے رہے۔ آخرکار جب عوامی سمندر کے سیلابی ریلے میں بہنے لگے، تب کہنے لگے کہ مذاکرات ہی معاملے کا حل ہے، ختم نبوت کا معاملہ بھی مذاکرات پر ہی منتج ہوا۔ عوام ٹیکس کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کی بجائے آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے تب مجھے بڑی خوشی ہوتی۔۔۔

گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کی بجائے ان پر بے جا ٹیکسز کے نفاذ پر عوام نے سراپا احتجاج کیا۔ یہاں تک کہ بلتستان کے عوام گلگت کی طرف مارچ کرنے لگے۔ طویل راستہ بھی طے کر لیا اور ڈمبوداس تک پہنچ گئے۔ حکومتی مشینری کو اندازہ ہوگیا کہ اب ہم بچنے والے نہیں اور نہ ہی یہ لوگ ہمارے دباؤ میں آنے والے ہیں۔ تب بارہ گھنٹے تک مذاکرات بھی ہوئے۔ آخر کار یہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ پھر دوبارہ مذاکرات کا دور شروع ہوا۔ اسی طرح مذاکرات کے تیسرے دور میں کافی گفت و شنید کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی اور تاجر برادری کے نمائندگان اپنے مطالبات منوانے میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے۔ البتہ اب بھی عوام کے جذبات ٹھنڈے نہیں ہوئے اور وہ شدت سے ان معاہدوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ وزیراعلٰی کے لئے عوام کا جواب یہی ہوگا کہ جناب اگر آپ یہی بات پہلے سمجھ جاتے اور عوام کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے  ناجائز ٹیکسز کے معاملے کو پہلے ہی سلجھا دیتے، تب یہاں تک نوبت ہی نہ آتی۔ ہم نے صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ آپ کو تین مرتبہ چانس دییا تھا، مسلسل تین مرتبہ ناکامی کے بعد تو بورڈ کے امتحان میں طالب علم بھی ری اپئر ہو جاتے ہیں۔ اب آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ پرامن احتجاج کرنا ملک دشمنوں کا کام نہیں بلکہ جمہوریت کی بالادستی پر اعتماد رکھنے والوں کا وتیرہ ہے۔ علاوہ ازیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، سرکش حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا اور اپنے حقوق کو چھین لینا جمہوریت کا حسن ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ملت کے زندہ ہونے، باشعور ہونے اور باضمیر ہونے کی بھی  واضح دلیل ہے۔
خبر کا کوڈ : 693351
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش