0
Monday 1 Jan 2018 23:32

یمن کی درد بھری کہانی

یمن کی درد بھری کہانی
تحریر: صابر گل عنبری

وہ ملک جو "یمن سعید" یعنی خوش بخت یمن کے نام سے جانا جاتا تھا کچھ سالوں سے سعید نہیں بلکہ افسردہ اور بد بخت ہو چکا ہے۔ اسے اس لئے خوش بخت کہا جاتا تھا کہ وہ سرسبز و شادات زمینوں، دلنشین آب و ہوا اور قدرتی ذخائر سے مالامال تھا۔ یمن کی ہوائیں الہی اور ربانی تھیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یمن کی رحمانی ہواوں کی خوشبو کا احساس کرتے اور فرماتے تھے: إنی اشم رائحة الرحمن من الیمن۔ (میں یمن کی رحمت بھری خوشبو کا احساس کر رہا ہوں)۔ یمن عرب تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور تخت و تاج کا مرکز تھا۔ عرب دنیا میں یمن سرفہرست تھا لیکن آج ایسا نہیں رہا۔ خانہ جنگی کی کالی گھٹا اور تیل کی پیداوار سے حاصل بموں کے باعث یمن آگ میں جل رہا ہے اور اس کی سرسبز و شاداب زمینیں جل کر خشک ریگستان بن چکے ہیں۔ یمنی عقیق اس ملک کی سوغات جانی جاتی تھی لیکن آج وہی یمن خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا جب یمنی عقیق دیکھ کر انسان اس ملک کی عظیم تہذیب و تمدن سے لطف اندوز ہوتا تھا لیکن آج یہ ملک جنگ کی کالی گھٹاوں میں ڈوب چکا ہے۔

یمنی عقیق جسے کسی زمانے میں بڑے بڑے شاعر اپنی مثالوں کے طور پر پیش کرتے تھے آج اپنا سابقہ حسن اور چمک دمک کھو چکا ہے۔ آج یمن کی عقیق پیدا کرنے والی مٹی کا ذرہ ذرہ خون اور انسانیت کے خلاف انجام پائے جرائم کی بو دے رہا ہے۔ یمن کا کوئی انسان اور چرند و پرند ہوائی حملوں اور خانہ جنگی کی آگ سے محفوظ نہیں۔ یمن کے بچے ہنسنا اور مسکرانا بھول چکے ہیں۔ وہ اب عقیق کی تلاش نہیں کرتے، اسکول نہیں جاتے۔ کوئی اسکول بچا ہی نہیں جہاں وہ جائیں۔ حتی بچہ بھی کوئی نہیں باقی رہا جو اسکول جائے۔ یمن کے بچے یا تو قبرستان جا چکے ہیں یا جو زندہ بچے ہیں وہ پہاڑوں اور بیابانوں میں پناہ لے چکے ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ ان کا بدن سوکھ چکا ہے۔ وہ بہت جلد یا تو بھوک سے نڈھال ہو کر جان دے دیں گے یا پھر ہوائی بمباری کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ کسی زمانے میں یمن لاوارث اور وطن سے دور بچوں کی پناہگاہ قرار پاتا تھا لیکن آج خود اس کے اپنے ہی بچے لاوارث ہو چکے ہیں۔

یمن صرف قتل گاہ ہی نہیں بلکہ جلاد اور شکاری کی دلدل بھی ہے۔ عرب اتحاد نامی جلاد اور شکاری۔ مقصد بھی یہی تھا۔ سبز جھنڈی دکھا کر اس اتحاد کو یمن کی دلدل کی جانب دھکیلا گیا۔ یمنیوں کا خون بھی آج شامیوں کے خون کی طرح بین الاقوامی سیاست کی بلیک مارکیٹ میں خرید و فروخت ہو رہا ہے۔ اس پر سودے بازی ہوتی ہے۔ ٹرمپ کا امریکہ اس خون کے بدلے سعودی اتحاد سے بھتہ وصول کرتا ہے۔ اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔ سعودی اتحاد سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ مسئلہ فلسطین میں ان کا ساتھ نہ دے یا خاموش نہ رہے تو یمن کے خلاف اس کی جارحیت کا مسئلہ اٹھایا جائے گا۔ شہزادہ بادشاہت کے تخت پر بیٹھنے کیلئے ہیگ جانے کیلئے مجبور ہے۔ ایک طرف امریکی وزارت خارجہ یمن کی ابتر صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے اور دوسری طرف وائٹ ہاوس اور ڈونلڈ ٹرمپ اس پر سعودی حکام سے سودے بازی کرتا دکھائی دیتا ہے۔

بیگناہ یمنی عوام کا خون سعودی حکام اور اسرائیل کے درمیان انجام پائے منحوس اور ناجائز معاہدے کا شیر بہا ہے۔ یہ معاہدہ سعودی حکام کے سر پر ایک ننگی تلوار کی طرح ہے اور اگر سعودی رژیم اس کی خلاف ورزی کرتی ہے تو ہیگ کی بین الاقوامی عدالت سے حکم جاری کر دیا جائے گا اور جوان سعودی شہزادہ تاج و تخت سے محروم ہو جائے گا۔ آج سعودی اتحاد خاص طور پر سعودی رژیم بند گلی میں پھنس چکی ہے اور اس کے پاس نہ آگے جانے کا راستہ ہے نہ پیچھے ہٹنے کا۔ سعودی حکام پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ اس صورت میں یمن کے خلاف جنگ کا پراجیکٹ بھی ادھورا رہ جائے گا اور تاج و تخت بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ حوثی بدستور مزاحمت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور یہ امر بذات خود سعودی حکام کی رسوائی کا باعث ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے علاقائی اور فرقہ وارانہ تنازعات نے یمنی عوام کے خلاف سعودی رژیم کے انسانیت سوز جرائم اور ان کے قتل عام پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ لیکن قطر اور چار عرب ممالک کے درمیان اختلافات کی شدت میں اضافے کے بعد یمن میں جاری انسانی بحران کچھ حد تک نمایاں ہو گیا۔

آج الجزیرہ نیوز چینل سے ایسی رپورٹس شائع ہو رہی ہیں جس نے بہت سوں کو یمن کے خلاف جاری جارحیت پر آنکھیں بند کر لینے پر شرمندہ اور پشیمان کر ڈالا ہے۔ آہستہ آہستہ کالم نگاروں میں بھی سعودی اتحاد کے مجرمانہ اقدامات کے بارے میں لکھنے کی جرات پیدا ہو رہی ہے۔ یہ وہی افراد ہیں جنہوں نے 25 مارچ 2015ء کو جب سعودی عرب نے یمن کے خلاف ہوائی حملوں کا آغاز کیا تو تالیاں بجائیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت اچھی بات ہے سعودی عرب ایران کے خلاف میدان میں اتر آیا ہے اور بہت جلد ایران سے شام کا بدلہ لے گا۔ وہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ ایران تو صرف بہانہ ہے۔ ایران سے مقابلے کا راستہ تو ایک قوم کی نابودی نہیں۔ ایران تو ہمارے قریب ہی ہے اتنا دور جانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سب بہانے ہیں۔

یہ یمن کی آج کی دکھ بھری داستان ہے۔ ایسی سرزمین جو مظلومیت اور انسانیت کی قتل گاہ کی علامت بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ اداروں کی جانب سے شائع کئے گئے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 2 کروڑ 75 لاکھ افراد پر مشتمل یمن کی آبادی میں سے 2 کروڑ 33 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تعداد یمن کی کل آبادی کا 85 فیصد حصہ بنتی ہے۔ 1 کروڑ 70 لاکھ افراد بھوکے ہیں۔ 70 لاکھ افراد شدید بھوکے ہیں اور انہیں موت کا خطرہ لاحق ہے۔ 22 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ رواں برس کے آخر تک 50 ہزار یمنی بچوں کی بھوک کے باعث موت کا خطرہ لاحق ہے۔ 20 لاکھ بچے اسکول نہیں جا سکتے۔ 2 ہزار سے زائد یمنی بچے اب تک ہیضے کی وجہ سے موت کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ 5 لاکھ بچے اب بھی ہیضے کا شکار ہیں اور میڈیکل سہولیات نہ ہونے کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار ہیں۔ 1 کروڑ 40 لاکھ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

آج ماضی کا خوش بخت یمن غربت، افلاس، قحطی، بھوک اور ہیضے جیسے الفاظ سے پہچانا جاتا ہے۔ اب یمن کے نام کے ہمراہ سعید اور خوش بختی جیسا مفہوم ذہن میں نہیں آتا بلکہ یہ دردناک الفاظ یمن کے نام سے جڑ گئے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح یمن میں بھی عرب اسپرنگ کا تلخ انجام ہوا ہے۔ خزاں کا شکار یمن اتنا جلدی بہار کا چہرہ نہیں دیکھ پائے گا۔ وحشیانہ پن کی شناخت کیلئے تاریخ کے اوراق پلٹنے کی ضرورت نہیں بلکہ یمنی قوم کی حالیہ صورتحال پر نگاہ ڈالنا ہی کافی ہے جو تجدد کے لباس میں انسانیت کو بھلا دینے والوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ آج فلسطین ایک نہیں۔ شام بھی فلسطین ہے اور یمن بھی فلسطین ہے۔ عراق بھی فلسطین بن چکا ہے۔ روہنگیا بھی ایک نیا فلسطین ہے جو مغربی ایشیا میں نہیں بلکہ مشرقی ایشیا میں ہے۔

خدا ہی جانتا ہے اگلا فلسطین کہاں ہو گا۔ یہ نئے فلسطین ہم مسلمانوں کے ہاتھوں بنائے گئے ہیں تاکہ اصلی فلسطین بھلا دیا جائے اور قدس شریف چھن بھی جائے اور کسی کے ماتھے پر سلوٹ تک نہ آئے۔ خطے کا جدید آرڈر انہیں نئے فلسطینوں کے ملبے پر تشکیل دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ خطے کی ہوا غبار آلود ہے۔ آتش فشان ابھی ٹھنڈا نہیں پڑا اور ہو سکتا ہے ابھی اپنے عروج تک ہی نہ پہنچا ہو۔ لہذا ابھی تک حتمی جیت اور ہار کا فیصلہ بھی نہیں ہوا۔ لیکن جیسے جیسے چہروں سے پردے ہٹتے جا رہے ہیں جلادوں کے چہرے زیادہ سیاہ اور قوموں کی مظلومیت مزید نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 694020
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش